مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پنجاب ‘امن وامان اور مہنگائی کا طوفان||حیدر جاوید سید

عون چودھری وزیراعظم عمران خان کے پرانے ذاتی دوستوں میں شامل ہیں انہوں نے پچھلے بیس برسوں کے دوران جی جان سے عمران خان کی خدمت کی اور ''قربانیاں'' بھی دیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صوبہ پنجاب کے سرائیکی بولنے والے دو اضلاع رحیم یار خان اور بہاولنگر میں پیش آئے سنگین واقعات کی باز گشت تھمی نہیں تھی کہ لاہور میں پی ٹی آئی کے نامزد صوبائی وزیر اسد کھوکھر کے صاحبزادے کی دعوت ولیمہ کے موقع پر ہوئی فائرنگ سے ان کے بھائی جاں بحق ہوگئے ۔
قاتل کووزیر اعلیٰ کے سیکورٹی سٹاف نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے موقع سے پکڑ کر پولیس کے حوالہ کیا عینی شاہدین کے مطابق فائرنگ کے وقت وزیراعلیٰ عثمان بزدار اپنی گاڑی میں تقریب کے مقام سے واپس جارہے تھے ۔
ایک سوال یہ ہے کہ جس تقریب میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی آمد پروگرام کا حصہ تھی اس میں مسلح شخص پہنچ کیسے گیا۔ دوسری بات یہ کہ فائرنگ عین اس وقت ہوئی جب میزبانوں سے رخصت ہو کر وزیر اعلیٰ اپنی گاڑی میں بیٹھے اور گاڑی مشکل سے چند گز کا فاصلہ طے کر پائی تھی ۔
یہ فائرنگ اگر قاتل چند لمحات قبل یوں کہہ لیجئے اس وقت کرتا جب وزیر اعلیٰ میزبانوں سے مل کر گاڑی میں بیٹھ رہے تھے تو سوچئے کیا ہوتا؟ ۔
بھونگ ضلع رحیم یار خان میں پیش آئے دو واقعات کا ذکر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے گزشتہ روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران کیا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ بلوائیوں نے مندر سمیت دو عبادت گاہوں پر حملہ کیا۔
حیران کن بات ہے کہ پنجاب حکومت کے افسران عدالت میں کہتے رہے کہ حملہ آور کچے کے علاقے سے آئے تھے ۔ سانحہ کی ویڈیوز موجود ہیں تمام لوگوں کا تعلق بھونگ اور نواحی بستیوں سے تھا۔
کچے کے علاقہ کا شوشہ چھوڑنے کی ضرورت کیا تھی؟
بالفرض ہم مان لیتے ہیں کہ بلوائی کچے کے علاقے سے آئے تھے ۔ وہ بھونگ قصبے تک پہنچے کیسے ؟ پولیس کہاں تھی؟۔
آئی جی پنجاب نے عدالت میں غلط بیانی سے کام لیا کہ پولیس کی وجہ سے زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ عدالت ویڈیوز منگا کر دیکھ لے تھانہ بھونگ کا عملہ جائے وقوعہ سے لگ بھگ فرلانگ بھر دور اٹھکیلیاں کرنے میں مصروف ہے ۔ اسی طرح بہاولنگر میں پیش آیا افسوسناک واقعہ ہے مقامی انتظامیہ اور پولیس نے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا۔
بھونگ ‘ بہاولنگر اور لاہور کے واقعہ سمیت چار واقعات پنجاب پولیس کی اعلیٰ کارکردگی کا پول کھولنے کے لئے کافی ہیں۔
ہمارے تبدیلی والے دوست کہا کرتے تھے ہم اقتدار میں آئے تو پولیس سمیت کسی محکمے میں سیاسی مداخلت نہیں ہوگی۔ گزشتہ تین برسوں میں سرکاری محکموں میں سیاسی مداخلت کے سوا ہوا کیا۔
نچلی سطح کو چھوڑیئے پانچ تو آئی جی تبدیل ہوئے پانچ میں سے تین ایک پلاٹ واگزار نہ کرواسکنے پر بدلے گئے ‘ پنجاب پولیس میں کرپشن کے نرخ مہنگائی کے حساب سے بڑھے ہیں۔
ناگوار نہ گزرے تو عرض کروں جب پولیس اور ضلعی سیکورٹی کے اہلکاروں سے سیاسی مخالفین کی سرگرمیوں کی ریکی کرانے اور فہرستیں بنوانے کا کام لیا جائے گا تو یہی ہو گا۔
بھونگ کے دو اور بہاولنگر اور لاہور کے ایک ایک واقعہ نے بہت سارے سوالات کوجنم دیا ہے ۔
دوسری طرف پنجاب حکومت کے ماتحتوں پر ذمہ داری آن پڑی ہے کہ وہ جہانگیر ترین کے گروپ میں شامل ہلکے پھلکے باغیوں کا مزاج درست کرنے کا اہتمام کریں۔
ان خبروں اورسانحات کے بیچوں بیچ کی گرما گرم خبر یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی برائے اطلاعات آپا فردوس عاشق اعوان اپنے منصب سے الگ ہو گئی ہیں۔ ساتھ ہی ترین گروپ کا حصہ بنے وزیر اعلیٰ کے ایک معاون خصوصی عون چوہدری سے استعفیٰ لے لیا گیا ہے ۔
عون چودھری وزیراعظم عمران خان کے پرانے ذاتی دوستوں میں شامل ہیں انہوں نے پچھلے بیس برسوں کے دوران جی جان سے عمران خان کی خدمت کی اور ”قربانیاں” بھی دیں۔
عون چوہدری کے معاملے میں فیاض چوہان کے بیانات اوردعووں پر اعتبار مشکل ہو گا وجہ یہی ہے کہ چوہدری عمران خان کے ان دوستوں میں شامل رہے جو جس سے ان کے گھریلو مراسم تھے پھر وہ ناراض کیوں ہوئے؟
ایک اطلاع یہ ہے کہ ان کی خواہش تھی کہ وزیر اعظم انہیں اپنا مشیر بنائیں۔ وہ نعیم مرحوم کی جگہ شہباز گل کی تقرری پر بھی نالاں تھے ۔ اس سے سوا بھی چند معاملات ہیں لیکن وہ دو خاندانوں اور تحریک انصاف کا اندرونی معاملہ ہے ۔
آپا فردوس عاشق اعوان نے استعفیٰ کیوں دیا؟ حالانکہ وہ حال ہی میں سیالکوٹ کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کو صوبائی اسمبلی کی نشست دلوا کر آئی ہیں۔ آپا کہتی ہیں کہ وزیر اعظم انہیں سماجی بہبود اور خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے وفاق میں ذمہ داریاں دینا چاہتے ہیں ۔ یہ بات کس حد تک درست ہے چند دن میں واضح ہو جائے گا۔
اب چلتے چلتے مہنگائی سے پیدا ہوئی صورتحال پر بات کر لیتے ہیں چند دن قبل وزیر اعظم اور ان کے ایک رفیق نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان آج بھی قیام وطعام کے لئے دنیا کا سستا ملک ہے ۔
تبھی عرض کیا تھا اعداد و شمار کا جو تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے وہ فریب کے سوا کچھ نہیں۔ یہ تقابلی جائزہ تب درست ہو گا جب پاکستان کی فی کس شرح آمدنی ان ممالک کے برابر ہو۔
مثال کے طورپر امریکہ میں کم سے کم فی کس شرح آمدنی دس سے بارہ ڈالر ہے فی گھنٹہ ہے ۔ یعنی تقریباً 1640 روپے فی گھنٹہ ملتے ہیں۔ ا مریکی فی گھنٹہ اجرت سے پچاس فیصد کم ہمارے ہاں ایک دیہاڑی دار کی آمدنی ہے وہ بھی مزدوری ملنے پر ۔
گزشتہ ہفتے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوا ادارہ شماریات کے مطابق دودھ ‘ دہی ‘ تیل ‘ گھی اور لہسن سمیت 17 اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔
یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ پچھلے چند ماہ کے دوران سرکاری سبسڈی سے چلنے والے یوٹیلٹی سٹورز پر فروخت ہونے والی اشیاء کی قیمتوں میں لگ بھگ تین بار اضافہ ہوا ‘دودن ادھر یوٹیلٹی سٹورز کے حکام نے خودرنی تیل ‘ گھی ‘ بچوں کا دودھ ‘ چینی ‘ سرف ‘ صابن ‘ شیمپو اور دیگر اشیاء کے نرخوں میں اضافے کا نوٹی فیکیشن جاری کیا۔ دوسری طرف ایل این جی کی قیمت میں ایک سال کے دوران 89 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔
آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن کی وجہ سے عام شہری کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: