اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اختلاف رائے اور مخالفت ||گلزار احمد

آج یونائٹڈ بک سنٹر کی نشست میں بڑے دنوں بعد وجاہت علی عمرانی صاحب تشریف لائے کیونکہ وہ وطن سے دور ملازمت کرتے ہیں اور چھٹی بھی کم کم ملتی ہے۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اختلافِ رائے کا حق زندہ و سنجدہ سماج کی علامت ہے,جبکہ رائے کے اختلاف سے شخصی مخالفت درندرگی اور وحشی پن کی علامت ہے… آج یونائٹڈ بک سنٹر کی نشست میں بڑے دنوں بعد وجاہت علی عمرانی صاحب تشریف لائے کیونکہ وہ وطن سے دور ملازمت کرتے ہیں اور چھٹی بھی کم کم ملتی ہے۔ آج کی نشست میں ابوالمعظم ترابی ۔ سید ارشاد حسین شاہ ۔خوشحال ناظر ۔لطیف صاحب موجود تھے ۔ وجاہت عمرانی جس محفل میں موجود ہوں اس میں علمی باتیں نہ ہوں یہ ناممکن ہے ۔ وہ بڑے دھیمے انداز میں تاریخ اور کتابوں کے مستند حوالے دیکر گفتگو کو سلجھاتے ہیں اور ہمارے جیسے لوگ ان کے سامنے طفل مکتب لگتےہیں۔ عمرانی صاحب نے بات یہاں سے شروع کی کہ ڈیرہ میں لکھی گئی کتابوں پر مثبت تنقید نگاروں کی کمی ہے کیونکہ تنقید سے نہ صرف کوالٹی ادب پروان چڑھتا ہے بلکہ نئیے زاویے بھی سامنے آتے ہیں۔ ابوالمعظم ترابی صاحب نے کہا کہ آجکل تنقید اور اختلاف رائے کا زمانہ نہیں رہا اگر آپ مثبت تنقید یا رائے سے ذرہ سا اختلاف کریں اسے مخالفت سمجھ لیا جاتا ہے اور اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کو دور کرنے کی بجاے تنقید کرنے والے کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ میں نے دوستوں کو بتایا کہ آج ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ہم عدم برداشت کے تاریک دور سے گزر رہے ہیں جو آدمی جو کچھ سوچتا ہے اسے حرف آخر سمجھتا ہے ۔وہ اپنی سوچ کو دوسروں پر مسلط کرنا چاہتا ہے اور ضرورت پڑے تو بزور شمشیر بھی اپنی سوچ کا نفاذ دیکھنا سعادت سمجھتا ہے۔تشدد پسندی اور دھشت گردی نے عدم برداشت کے پودے سے جنم لیا۔ میرا خیال ہے برصغیر میں اختلاف اور مخالفت کا فرق اور اختلاف کو مخالفت میں نہ بدلنے دینے کی بات اردو میں سب سے پہلے حالی نے “حیاتِ جاوید” میں لکھی ہے۔ البتہ یورپ اور مغربی ملکوں میں یہ سوچ بہت پہلے رائج ہو چکی تھی۔ آج ہم اپنی پارلیمنٹ میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کا کردار دیکھتے ہیں وہ مخالفت اور دشمنی میں تبدیل ہو چکا ہے ۔ حکومت کا ہر کام چاہے اچھا ہو اسے برا کہنا فیشن بن گیا ہے۔ اپوزیشن کوئی مثبت بات بھی کرے اسے مخالفت کے دریا میں بہا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہماری صحافت کا حال اس سے ابتر نظر آتا ہے۔ مختلف سیاسی پارٹیوں کے اپنے اپنے صحافی ہیں جن کا عوام کو پتہ ہے۔ان صحافیوں کا کام اگر کسی کی مخالفت کرنا ہے تو اپنے قلم سے اس کو شیطان اور غدار ثابت کرنے سے نہیں ہچکچاتے ۔وہ صحافت کے اصول بیلنس۔ معروضیت۔ سچائی ۔غیر جانبداری سب گٹر میں ڈال دیے گیے۔ آج ہم اخبار میں کالم پڑھتے ہیں تو صحافی کا نام دیکھ کر بغیر کالم پڑھے آنکھیں بند کر کے بتا سکتے ہیں کہ یہ حکومت کے حق میں یا تنقید پر مبنی ہو گا یا اپوزیشن کو رگیدا جاے گا۔ تو ایسی حالت میں قوم کی رہنمائی خاک ہو گی۔ اسی طرح تنقیدی ادب بھی تب پروان چڑھے گا جب تنقید نگار کو متعلقہ مضمون پر عبور اور مہارت حاصل ہو اور پاکیزہ خیالات کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ لکھنے لکھانے کے آداب پر دسترس رکھتا ہو۔ اگر کسی کتاب یا مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ یہ سوچیں یہ بندہ اپنا ہے یا ہماری تنظیم یا مسلک کا ہے اس کو اوپر چڑھانا اور اختلاف راے رکھنے والوں کو نیچے دکھانا ہے تو یہ سب کچھ بے مقصد ہو جاتا ہے جس سے قوم کو فائیدہ نہیں پہنچتا بلکہ الٹا نقصان ہوتا ہے کہ ہم ایک چاپلوس کاسہ لیس قوم بنا رہے ہیں۔ سید ارشاد حسین شاہ اور خوشحال ناظر نے اس موضوع پر بہت معلوماتی گفتگو کی۔ شاہ صاحب نے اپنی نئی تصنیف گردش ایام وجاہت علی عمرانی صاحب کو پیش کی۔ وجاہت عمرانی صاحب کتابوں کو بہت غور سے پڑھنے اور ان پر تفصیلی تبصرہ لکھنے کے عادی ہیں۔
شاہ صاحب کی کتاب کا پہلا ایڈیشن بک چکا اور دوسرے کی تیاری ہے ۔عمرانی صاحب اگر شاہ صاحب کی کتاب کا باب ۔حسینوں کے خطوط ۔۔ کو پڑھنے کے بعد تبصرہ لکھنے لگےتو پھر مجھے فلم رضیہ سلطان کا یہ گیت بہت یاد آ رہا ہے آپ یو ٹیوب پر یہ گیت پہلے پہلےسن لیں۔۔۔۔
آئی زنجیر کی جھنکار خدا خیر کرے۔
دل ہوا کس کا گرفتار خدا خیر کرے۔

%d bloggers like this: