اپریل 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بالی انڈونیشیا:دنیا کا خوبصورت ترین جزیرہ۔۔۔گلزار احمد

۔ یہ مئی کامہینہ تھا جب ڈیرہ میں شدید لُو اور گرمی ہوتی ھے میں دنیا کے خوبصورت ترین سیاحتی مقام ۔۔ بالی  کے ھوٹل کے سامنے بیٹھا اپنے انڈونیشن دوست کے ساتھ چاۓ اور گپ شپ میں مصروف تھا

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔
یہ مئی کامہینہ تھا جب ڈیرہ میں شدید لُو اور گرمی ہوتی ھے میں دنیا کے خوبصورت ترین سیاحتی مقام ۔۔ بالی  کے ھوٹل کے سامنے بیٹھا اپنے انڈونیشن دوست کے ساتھ چاۓ اور گپ شپ میں مصروف تھا ۔وہ بتا رہا تھا کہ بالی اتنا خوبصورت ھے کہ ہم اسے جنت میں اللہ کا جزیرہ کہتے ہیں ۔ بات بھی درست تھی میں دو دن سے اس جزیرے کے حُسن کا خود مشاھدہ کر چکا تھا۔ سرسبز شاداب پھولوں درختوں سے لدا ھوا نہایت خوشگوار موسم کا جزیرہ دنیا کے سیاحوں کی پہلی دلکش منزل تھی۔ موسم ہماری مری کی طرح تھا۔ ہر طرف سیاحوں کا رش تھا ۔ ہوٹل کے بالکل سامنے ایک خوبصورت beach تھا جس میں رنگ برنگے سوئمنگ سوٹ پہنے سیاح مرد و خواتین گھوم رھے تھے۔ سمندر کا نیلگوں پانی سورج کی شعاٶں میں قوس قزح کا منظر پیش کر رہا تھا۔ میں نے اپنے انڈوشین دوست کو بتایا پاکستان میں بھی گلگت۔ھنزہ۔کشمیر کی خوبصورت وادیاں ہیں اور انہیں بھی جنت ارضی کہا جاتا ھے۔ کسی نے کشمیر کے متعلق اپنے کلام میں کہا ھے ؎ اگر فردوس بر روۓ زمین است ۔۔ ہمی است و ہمی است و ہمی است۔۔ میں نے اسے بتایا کہ دنیا کی تہزیب اور کلچر میں بڑی مماثلت اور یکسانیت پائی جاتی۔ ہمارے بزرگ ڈیرہ اسماعیل خان کے شاہ سید منورؒ کے متعلق بتاتے تھے کہ وہ شیروں کے جوڑے۔سونے کے ہل اور مُشکی سانپ کی چَھمَک یعنی کوڑا لے کر زمین کا شت کرتے دیکھے گئے ۔ میں جب ملتان براستہ بھکر۔چوک اعظم ۔مظفر گڑھ جاتا تو مظفر گڑھ سے پہلے ایک خانقاہ بگا شیر آتی ھے اس بزرگ کے متعلق بھی یہی بات مشھور تھی اور بھاولپور کے ایک دربار سے بھی یہ واقعہ منصوب ھے۔ بہرحال انڈونیشین دوست بتا رھے تھے کہ اس کے ملک کی معیشت میں ٹورزم کا بڑا ہاتھ ہےجس سے بھت زرِ مبادلہ کمایا جاتا ھے اور یہ بات ھے بھی درست۔۔ابھی میں کل ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا کہ انڈونیشیا نے سال 2019
میں دو کروڑ سیاحوں کو ملک لانے کا ٹارگٹ مقرر کیا تھا جس سے انڈونیشیا کی ترقی کی رفتار آٹھ فیصد ہو جانا تھی مگر مزید رپورٹ نہیں پڑھی۔ 2017 کے اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر ٹورزم سے دولت کمانے والا انڈونیشیا بیسواں عالمی ملک بن گیا۔ ایشیائی ملکوں میں تو تیسرے نمبر پر رھا۔ اب واپس بالی چلتے ہیں ۔ بالی میں مئی 2006 میں ڈی۔8 ملکوں کی سربراہ کانفرنس ہو رہی تھی جس کی کوریج کے لئے میں وہاں موجود تھا۔D۔8 اصل میں آٹھ مسلمان ملکوں کی ایک آرگنائزیشن ھے جس کا پاکستان بھی ممبر ھے۔ اس آرگنائزیشن کو بنانے کا آڈیا ا صل میں ترکی کے 1996 کے وزیراعظم ڈاکٹر اربکان نے استنبول میں منعقدہ ایک سیمینار میں دیا تھا۔اس سیمینار میں پاکستان۔ ملائشیا ۔ انڈونیشیا ۔ ایران ۔مصر ۔بنگلہ دیش ۔ اور نائجیریا اورخود ترکی شامل تھے۔ اس طرح اگلے سال جون 1997 میں
D 8 organization for economic cooperation
کا ادارہ وجود میں آیا جسے
Developing 8
بھی کہا جاتا ھے۔ یہ ادارہ ہر دو سال بعد ایک سربراھوں کی کانفرنس منعقد کرتا ھے۔
مئی 2006 کی بالی سَمٹ میں جو سربراہ شریک تھے اس میں انڈونیشیا کےاس دور کے صدر ڈاکٹر سوسیلو بمبانگ۔۔ایران کےاس وقت کے صدر آحمدی نجاد ۔نائجیریا کے صدر ۔۔ترکی کے اس وقت وزیراعظم طیب اردگان ۔پاکستان سے اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز۔ملائیشیا کے اس وقت کے وزیراعظم عبداللہ احمد بداوی اور بنگلہ دیش کے فارن منسٹر شامل تھے۔ اب قارئین کے لئے جو بات سمجھنے والی ھے وہ یہ ھے کہ اسلامی کانفرنس OIC میں ملکوں کی تعداد 57 ھے۔ خیال یہ کیا جا رھا تھا کہ اگر یہ ممالک ملکرتجارت کریں تو کافی فائدہ ھو سکتاچنانچہ D8وجود میں آئی ۔یہ D8 اسلامی ممالک کی عالمی منڈیوں میں تجارت کو مستحکم کرے گی اور نئے تجارتی مواقع تلاش کر کے اپنے لوگوں کا معیار زندگی بلند کرے گی۔ اس کانفرنس میں تقریریں بھی ہوئیں ۔اجلاس بھی ھوۓ اعلامیہ بھی جاری ھوا۔ ان تمام اقدامات سے جو میں اپنے نواجونوں کے لئے پیغام نکال لایا تھا وہ یہ ھے۔ اس وقت دنیا کی عالمی معیشت میں سروس سیکٹر کا حصہ 66 فیصد ھے صنعت کا 30فیصد ھےجبکہ زراعت۔ماہی پروری اور جنگلات کا صرف چار فیصد۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ھے کہ ہمارے معاشرے میں جو پرانا کانسپٹ ھے۔۔ اول کھیتی دوم وپار ۔۔۔ وہ بالکل غلط ھو گیا ھے۔دنیا کے بیس امیر ترین افراد میں زراعت والا ایک بھی نہیں ۔۔چین کا علی بابا تو سروس سیکٹر سے ہی ارب پتی بنا ھے۔ اب اول سروسز سیکٹر جا رہا ھے۔اب سروسز سیکٹر ھے کیا؟ تو سنیں ۔۔بنک ۔ھوٹل۔رئیل سٹیٹ۔تعلیم ۔صحت۔سوشل ورک۔میڈیا۔ بجلی ۔گیس واٹر سپلائ ۔کمپوٹر سروس کو سروس سیکٹر میں گِنا جا رہا ھے۔ ایک اور اصطلاح نالج اکانومی کی بھی اس کے ساتھ نتھی کی جاتی ھے ۔۔اس کا مطلب ھے گاہکوں کی ضروریات کو سمجھنا اور کم سے کم قیمت پر پراڈکٹ گاہک کو مہیا کرنا۔ مثلاً بنکوں نے دیکھا کہ کسٹمر کو چوبیس گھنٹے کس بھی مقام پہ رقم کی ضرورت پڑتی ھے تو انہوں نے ATM مشین ایجاد کی جو سال کے 365 دن 24 گھنٹے دن رات کسٹمر کو دستیاب ھے اور افرادی قوت لگانے سے خرچہ بھی کم۔۔
Knowledge based economy
کو آپ اس مثال سے بھی سمجھیں کہ پچاس لاکھ آبادی کا سنگاپور 330 بلین ڈالر کی ایکسپورٹ کرتا ھے اور 22 کروڑ کا پاکستان صرف 24 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کرتا ھے تو یوں سمجھیں ایک سنگا پور کا فرد ہمارے پندرہ بندوں کے بربر پراگرس دے رہا ھے۔۔سنگاپور آجکل دنیا کے بہترین تعلیمی معیار کے ملکوں میں شامل ھے اور پاکستان کی ایک یونیورسٹی بھی عالمی معیار کی نہیں ۔ پاکستان کے نوجونو۔ ان باتوں کو سمجھو تاکہ صحیح سمت کا تعین کر کے آگے بڑھ سکو۔

%d bloggers like this: