ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صاحب، گزشتہ شب کی کہانی کا دامن پکڑ کے کچھ اور کھوجنے کا ڈھنگ تو ہم نے شہر زاد سے ہی سیکھا ہے جس کے عاشق ہم اوائل عمری میں ہوئے۔
شاید آپ کو یاد ہو کہ بات درد سے شروع ہوئی، فیض کی نظم تک پہنچی اور ان اشعار کی آفاقیت سراہتے ہوئے درد کی ان اصناف تک پہنچ کے ٹھہر گئی جن کے ذکر سے بہت سوں کے پر جلتے ہیں۔
شاعر کے لئے درد جذب وجنوں و دیوانگی کا نام اور احساس کا پیراہن ہے، باطن کی کھڑکی کھول کے اندر بھڑکتے شعلوں کی تپش ظاہر کرنے کا ڈھنگ ہے۔ آہ کے ساتھ واہ کہنے پہ تو ہم مجبور ہوں گے ہی جب فیض یہ کہہ دیں
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے
یہاں ایک سوچ جنم لیتی ہے کہ درد آشناؤں کی جھولی میں اس غیر مرئی احساس کو ناپنے کا پیمانہ کیا ہے آخر؟ رنج وغم، جسمانی زخم، ٹوٹ پھوٹ، الفاظ، کرب کا اظہار، آنسو ، احتجاج ، مزاحمت، چیخ و پکار، یا واویلا؟
بے بسی یہ ہے کہ ان میں سے کچھ بھی نہیں!
ایسا کچھ بھی نہیں جو بتا سکے کہ کس کی روح پہ کیا زخم ہے جس سے رہ رہ کے ٹیسیں اٹھتی ہیں اور زندگی کے دن طویل تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
سائنس کی کم مائیگی دیکھیے کہ احساس، دل ودماغ اور روح پہ تازیانے برسنے سے ہونے والے درد کا تخمینہ تو ایک طرف رہا، ابھی تک جسمانی درد کی شدت کا اندازہ لگانے کے لئے کوئی آلہ ایجاد نہیں ہو سکا۔
لیکن ایک بات تو طے ہے کہ اس روئے زمین پہ رہنے والے ہر ذی ہوش کو درد کا کرب اپنی ذات پہ سہنا پڑتا ہے۔ جلد یا بدیر، کم یا زیادہ یا بہت زیادہ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ کمی بیشی اور اتار چڑھاؤ بھی کسی کے اپنے اختیار میں نہیں۔
تحقیق یہ کہتی ہے کہ کچھ عوامل درد کی شدت اور برداشت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ حالات و واقعات افراد کی کنڈیشنگ اس طرح سے کرتے ہیں کہ ‘جیسے دوہری دھار کا خنجر چلے’ کی صورت حال سامنے آجاتی ہے۔
ان عوامل میں کلچر، طبقاتی فرق اور فرد کی ذات سے وابستہ عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
کلچر اگر یہ کہہ دے کہ عورت ماہواری کا ذکر کھلے عام نہیں کر سکتی، معاشرہ اگر ہدایت کرے کہ بے شک درد سے جان مصلوب ہوتی محسوس ہو لیکن منہ سے اف نہ نکلے، رسم ورواج اگر بتاتے ہوں کہ مذہبی قواعد کی چھوٹ کے باوجود ماہواری سات پردوں میں مخفی رکھی جائے، نقاہت سے بے شک جان نکل جائے لیکن مدد نہ مانگی جائے تو سوچیے کہ عورت کی زندگی ہر ماہ کس پل صراط سے گزرے گی؟
ماہواری کے ساتھ شرم و حیا کو اس طرح نتھی کر دیا گیا ہو تو آئینوں کے شہر میں کون سی عورت بے حجاب ہونا پسند کرے گی؟
ایسا ہی ماجرا زچگی کا ہے، درد سے بے حال تڑپتی چیخیں مارتی عورت کو سختی سے یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ منہ سے آواز نہ نکلے کہ اچھی اور بہادر عورت کی نشانی یہی ہے کہ درد پی لیا جائے اور آواز روکنے کے لئے منہ میں کپڑا ٹھونس لیا جائے۔
ہم سے پوچھیے تو بخدا زچگی کا درد ایسا ہے کہ اس وقت عورت بے اختیار دم نکلنے کی خواہش کرے۔ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہانپتے ہوئے زندگی کو نازک ہتھیلیوں سے اپنی طرف کھینچنا کس قدر جاں لیوا ہے، کوئی اس خاردار رستے سے گزرے بنا جان ہی نہیں سکتا۔
آپ کہہ سکتے ہیں ارے ہزاروں عورتیں بچے جنتی ہیں اور محنت کش عورت تو بعض دفعہ کھیت میں ہی فارغ ہو جاتی ہے۔ یہ سوچتے ہوئے ہم ان بے شمار بدقسمت عورتوں کو بھلا دیتے ہیں جو اس جنگ میں جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔ کبھی زچگی میں اپنے ملک کی شرح اموات دیکھیے گا، خیر سے اس محضر ندامت میں ہم سر فہرست ہیں۔
عورت کی زندگی میں درد کی کہانی سمجھنا ہو تو اپنے ڈرائنگ روم سے نکل کر طبقاتی تقسیم کی شکار عورت کو دیکھیے، جو ہمارے معاشرے کی اکثریت ہے اور ہم اس سے اس لئے منہ نہیں موڑ سکتے کہ ہم وہاں اس کی جگہ پہ نہیں ہیں۔
تنگ وتاریک محلوں کے ایک کمرے میں ڈھیروں افراد کے ساتھ رہنے والی، جھونپڑیوں میں پلنے والی، خشک صحراؤں میں رہنے والی، سنگلاخ پہاڑوں میں زندگی بسر کرنے والی اور دور دراز دیہات میں بنیادی ضروریات سے محروم سب بچیاں اور عورتیں جو ماہواری اور زچگی میں لوٹ پوٹ کر درد سہنے پہ مجبور ہوں، جہاں کسی بھی قسم کی طبی مدد آسمان سے تارے توڑ کے لانے کے مترادف ہو، جہاں پیٹ بھرنے کے لئے روٹی کے لالے پڑے ہوں وہاں ان کی تکلیف کے لئے گولیوں یا انجکشن کا تردد، چہ معنی دارد؟
سو درد سہنے کی یہ مجبوری جسم کے مختلف حصوں سے دماغ میں یہ پیغام پہنچاتی ہے اور اس پیغام کو نظام میں فیڈ کر دیا جاتا ہے کہ برداشت کے سوا کوئی چارہ نہیں،سو دانت بھینچ لو اور اپنی آہ و بکا اندر ہی اندر دبا دو۔
فیض نے ایسے ہی کسی لمحے میں کہا تھا۔
جس گھڑی رات چلے،
آسمانوں کا لہو پی کے سیہ رات چلے
مرہم مشک لیے، نشتر الماس لیے
بین کرتی ہوئی ہنستی ہوئی، گاتی نکلے
درد کے کاسنی پازیب بجاتی نکلے
درد کو سہارنے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ زندگی کے سفر میں ہر کس و ناکس کا درد سے آمنا سامنا کب، کیسے اور کتنی بار ہوتا ہے ؟
سوچیے تو ایک مرد جس کی بلوغت میں درد کا کوئی عمل دخل نہیں، جسے جنسی فعل کرتے ہوئے کسی تکلیف کا سامنا کرنا نہیں پڑتا، جس کے جسم میں ایک اور زندگی کو وجود میں لانے کی ٹوٹ پھوٹ نہیں ہوتی، جسے سن یاس یا مینو پاز جیسے بحران سے پالا نہیں پڑتا، جسے کردار کی پاکیزگی کا امتحان اور شکوک جیسے جذباتی مسائل، ڈر اور تشدد کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جن سے عورت گزرتی ہے، وہ کیسے جان سکتا ہے اس درد کو جس سے عورت جسمانی، ذہنی، اور جذباتی طور پہ زندگی کے ہر قدم پہ سہارتی ہے۔
جان لیجیے، درد جسم اور اعضا کی رگوں میں دوڑتا ہو یا دل کے نہاں خانوں سے اٹھ رہا ہو یا روح کے پوشیدہ احساس سے جنم لے رہا ہو، عورت سراپا درد ہے جسے دیکھنے اور محسوس کرنے کے لئے ایسی آنکھ اور ایسا دل چاہئے جو اسے اپنے جیسا سمجھے، اپنے جیسا انسان!
یہ بھی پڑھیے
”دریا او دریا، پاݨی تیݙے ݙونگھے“(وسیب یاترا :20)||سعید خاور
”ست سہیلیاں دِی کہاݨی، حقیقت یا فسانہ“ (وسیب یاترا :19)||سعید خاور
سکھر تے بکھر دِی کتھا“(وسیب یاترا :18)||سعید خاور