مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قصہ ایک دل لگی کا اور دو خبریں||حیدر جاوید سید

ہاں ایک ملتانی کی حیثیت سے ہمیں اپنے قریشی مخدوم پر جو بیتی اس کا دکھ ہے ہم ملتان اپنے آبائی گھر جائیں اور واپس آئیں تو مخدوم صاحب کا گھر راستے میں پڑتا ہے یعنی آمدورفت پر ان کے گھر کی زیارت لازمی ہے نا چاہتے ہوئے بھی۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیدر جاوید سید
سنجیدہ خبریں بھی ڈھیروں ڈھیر ہیں لیکن حبس اور حالات کے ستائے ہوئے لوگوں کو مزید تنگ کیا کرنا اس لئے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں بلاول بھٹو اور ہمارے ملتانی مخدوم قبلہ شا ہ محمود قریشی کے درمیان ہوئی ”دل لگی” پر بات کر لیتے ہیں لیکن اس سے قبل ایک خبر وہ یہ ہے کہ ایف بی آر نے پاکستانی شہریت کی نئی تعریف کچھ یوں بیان کی ہے کہ
”جو شخص(غیر ملکی) مسلسل186دن پاکستان میں قیام پذیر ہو گا وہ پاکستانی شہری کے طور پر ٹیکس دے گا” شہریت کی یہ نئی تعریف ایف بی آر نے کس قاعدے قانون کے تحت کی اس کا جواب کسی تاخیر کے بغیر دیا جانا چاہئے کیونکہ دستوری طور پر ایف بی آر کے پاس اس طرح کا کوئی اختیار ہے ہی نہیں۔ محض ٹیکسوں کے حصول یا یوں کہہ لیجئے ”کمائی” کے لئے بلنڈر نہیں ہونے چاہئیں۔
چلیں ایک خبر اور سہی۔ رواں مالی سال کے بجٹ کو پہلی سلامی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں دی گئی ۔ بجٹ خسارا بھی تو پورا کرنا ہے ‘ دو دن قبل کہا جارہا تھا مہنگائی کی شرح سے لوگ پریشان ہیں دو دن بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دی گئیں ۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران بلاول بھٹو ایوان سے جانے لگے تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تقریر کے لئے کھڑے ہوئے ۔انہوں نے کہا بلاول جاو مت میری تقریر سنو ‘ بلاول واپس اپنی نشست پر بیٹھ گئے ۔ وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں اپنی سابق جماعت پر خوب حملے کیئے اور جملے برسائے ،
جوابی تقریر میں بلاول بھٹو نے بھی سماں باندھ دیا ۔ بولے میں فاضل ممبر ملتان کو تب سے جانتا ہوں جب میری عمر دس سال تھی اس وقت فاضل ممبر ملتان میری والدہ کیلئے نعرے لگایا کرتے تھے ” چاروں صوبوں کی زنجیر بینظیر بینظیر ” اک زرداری سب پر بھاری کا نعرہ بھی لگاتے رہتے تھے اس کے جواب میں
شاہ محمود قرشی بولے میں بھی اس بچے کوتب سے جانتا ہوں جب وہ دیوار لگا جھڑکیاں کھا رہا ہوتا تھا ۔
دونوں کی تقاریر نے اسمبلی اور اسمبلی سے باہر الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر خوب رونق لگائی ۔
سچ پوچھیں تو بلاول نے مخدوم صاحب جیسے جہاندیدہ شخص کو سیخ پا کر دیا۔ بلاول کہتے ہیں وزیر اعظم ملتانی وزیر سے خبردار رہیں یہ ہمیشہ وزیر اعظم بننے کی سازشیں کرتا رہتا ہے ۔
ہمارے دور میں جب وزیر خارجہ تھا تو دنیا سے کہتا تھا مجھے یوسف رضا گیلانی کی جگہ وزیر اعظم بنوا دو ‘
شاہ جی جواباً بولے ۔ ابھی بچے ہو ‘
بچہ ہے توپھر شاہ جی کو جواب بھی نہیں دینا چاہئے تھا۔ہمارے ملتانی مخدوم اور نون لیگ کے احسن اقبال دونوں کو بہت شوق ہے بلاول کو بچہ کہنے کا لیکن بچہ جب جواب دینے اٹھتا ہے تو دونوں بزرگ برہم ہی نہیں ہوتے بلکہ اپنی بزرگی کا بھرم کھو بیٹھتے ہیں۔
اسمبلیوں میں نوک جھونک چلتی رہتی ہے گزشہ روز جو نوک جھونک ہوئی وہ بڑی دلچسپ تھی کون کس کو کتنا اور کب سے جانتا ہے یہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے ۔
بلاول نے جناب شاہ محمود کو یاد کروایا وہ کبھی نون لیگ کے پنجاب میں وزیر خزانہ ہوتے تھے ۔ خیر چھوڑیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے مخدوم مکرم نے نون لیگ کیوں چھوڑی لمبی کہانی نہیں ان کا اور جاوید ہاشمی کا حلقہ ا نتخاب تب ایک ہی ہوا کرتا تھا جاوید ہاشمی انہیں قومی اسمبلی کی نشست پر شکست دیتے رہے پھر مخدوم صاحب با امر مجبوری پیپلز پارٹی میں گئے اور رکن قومی اسمبلی بنے یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے ۔
2012ء کی اسمبلی میں پیپلز پارٹی نے انہیں وزیر اعظم کے عہدے کے لئے بھی امیدوار بنایا تھا ایم ایم اے کے امیدوار مولانا فضل الرحمان تھے ۔ جنرل پرویز مشرف کے امیدوار میر جبل خان ظفر اللہ جمالی ‘ جیتے ظفر اللہ جمالی جس کے لئے جنرل پرویز مشرف نے مولانا اعظم طارق کے اکلوتے ووٹ کا بندوبست کیا تھا
یہ بندوبست کیسے ہوا اس کے لئے چوہدری برادران سے رجوع کرکے معلومات حاصل کی جا سکتی ہے ۔
بات دور نکل گئی ہمارے ملتانی مخدوم قریشی صاحب کے ساتھ بلاول کو اس طرح نہیں کرنا چا ہئے ۔
وہ سلسلہ سہروردیہ کے جنوبی ایشیا میں سب سے بڑے پیر اور شیخ الاسلام حضرت بہاو الدین زکریا ملتانی کے گدی نشین ہیں۔ ہمارے ایک انصافی دوست نے کہا بلاول مخدوم صاحب کی سندھ میں مقبولیت سے جلتا ہے ۔
جلنے کی کیا بات ہے سندھ میں سب سے زیادہ مقبول پیر یقیناً شاہ محمود قریشی ہیں۔ لیکن ان سندھیوں کا کیا کریں جو کہتے ہیں جان پیر سائیں کی ووٹ بے نظیر کا۔
ہمارے دوست نے سندھی ووٹروں کے بارے میں وہی روایتی جملہ اچھالا عجیب بات ہے کہ سیاسی ہجرتوں میں پی ایچ ڈی کرنے والے مسافروں کو ووٹ دینا سیاسی شعور اور تبدیلی کی علامت ہے لیکن پیپلز پارٹی کو سندھی ووٹ دیں تو جاہل غلام اور نجانے کیا کیا قرار پاتے ہیں۔
اس پر ایک دو شعر یاد آئے لیکن چونکہ ہمارے انصافی دوست شعری ذوق سے محروم ہیں اس لئے ان کی خدمت میں پیش نہیں کر سکے ۔
ہاں ایک ملتانی کی حیثیت سے ہمیں اپنے قریشی مخدوم پر جو بیتی اس کا دکھ ہے ہم ملتان اپنے آبائی گھر جائیں اور واپس آئیں تو مخدوم صاحب کا گھر راستے میں پڑتا ہے یعنی آمدورفت پر ان کے گھر کی زیارت لازمی ہے نا چاہتے ہوئے بھی۔
بلاول بھٹو کو بھی مخدوم صاحب کے سفید بالوں کا کچھ خیال کرنا چاہئے تھا وہ اگر وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں تو اس میں برائی کیا ہے انگریزی اچھی ہے برطانیہ کے شاہی خاندان سے خاندانی مراسم ہیں امریکی اسٹیبلشمنٹ سے ذاتی تعلقات ہیں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لئے انہوں نے ریمنڈ ڈیوس والے معاملے میں ”قربانی” دی تھی ہو سکتا ہے کبھی ان کے نصیب کا بند دروازہ کھل جائے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: