اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

من موجی ۔ قسط -3||گلزار احمد،وجاہت علی عمرانی

گلزار احمد خان اور وجاہت علی عمرانی کی مشترکہ قسط وار مکالماتی تحریر جو دریائے سندھ کی سیر پہ مبنی ہے۔ جس میں تاریخی، ثقافتی، ماضی اور روائتی باتیں قلمبند کی گئی ہیں ۔

گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چمکتا سورج مغرب کی اوور آہستہ آہستہ اپنی آب و تاب کھو رہا تھا۔ مغرب کی جانب آسمان پر شفق کی ہلکی ہلکی لالی نظر آنے لگی تھی۔ کہیں کہیں آسمان پر سرمئی بادلوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ عمرانی صاحب چائے پیئں گے یا بوتل؟ میں نے چارپائی سے اٹھتے ہوا کہا۔ کہنے لگے کہ میری تو یہ خواہش ہے کہ آپ کے گھر سے دریائے سندھ کی طرف پیدل چلتے ہیں اور وہیں جا کے چائے بھی پئیں گے اور مذید باتیں بھی۔ آپکی ہمراہی میں پیدل چلنے پر خوشی ہوگی۔ جب عمرانی صاحب نے خوشی کا کہا تو میں کہنے لگا۔۔ عمرانی صاحب! انسان کی زندگی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے بھری پڑی ہے اور یہی اصل خوشیاں ہوتی ہیں۔ مگر ہم لوگ چھوٹی خوشیاں قربان کر کے ساری زندگی بڑی خوشیوں کی تلاش میں دھکے کھاتے رہتے ہیں اور جب بڑی خوشیاں بھی نہیں ملتیں تو آخر کار خالی ہاتھ رخصت ہو جاتے۔ آج جب دریا کنارے سکون کے لئے اور پیدل چلنے کے لیئے تھوڑا سا وقت مانگ رہے ہیں تو پھر میں یہ چھوٹی سی خوشی کیوں نہ لوں۔ یہ سودا مہنگا تو نہیں۔ آخر انسان زندگی میں سکون کے علاوہ اور چاہتا بھی کیا ہے؟ سکون کبھی مال و دولت سے نہیں ملتا۔ یہ انسان کے اندر چھپا ہوتا ہے اور قدرت ہر کسی کو اس کا موقع فراہم کرتی ہے۔ کوئی ساری زندگی مال و دولت میں سکون ڈھونڈتا ڈھونڈتا ”بے سکون“ ہی مر جاتا ہے اور کوئی غریب ہوتے ہوئے بھی پُرسکون ہوتا ہے۔بس جی یہ تو اپنی اپنی تلاش کی بات ہے۔
چلیں عمرانی صاحب! وہ چارپائی سے اٹھے اور اپنی چپلی پہننے لگے۔ ہم دونوں جب گھر کے اس مرکزی گیٹ کی طرف بڑھے۔ تو سب سے پہلے میں ان کو گھر کے پیچھے درختوں میں گھرے بڑا چھپر دکھا نے لے گیا جہاں دو بڑے "ماچے ” رکھے تھے اورچند لوگ خوش گپیوں میں مشغول تھے۔ اُس چھپر کے نیچے ہمارے ” چاہ ملک والا” کے بزرگ افراد ”ماچے” کے علاوہ اردگرد چارپائیاں ڈال کر وقت گزارتے تھے۔ ہمارے علاقے کے نمبردار اور بزرگ اس کے سائے میں آکر بیٹھتے اور گاؤں کے معاملات میں مشورہ کرتے۔ ” ماچے ” پر اپنے لوگوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا تھا۔ اپنی زبان، اپنی ہوا، اپنی زمین اور اس زمین کی سوندھی سوندھی خوشبو، اپنے ”چاہ ملک ” والے کے خاص پکوان، حقے کی گڑگڑاہٹ، چارپائیوں کا حلقہ اور میٹھی میٹھی مزاح سے بھرپور باتیں اور قہقہے، ڈوھڑے اور ماہیا سن کر ساری مصروفیت، ٹینشن، ڈیپریشن ایگزائٹی وغیرہ نامعلوم کہاں اڑ جاتی تھی۔پھیپھڑوں میں تازہ ہوا بھرتی تو چہرے پر بھی رونق آجاتی تھی۔ اس علاقے کے ہم جیسے درجنوں لڑکے بالے شام کو کبڈی یا کوئی دوسرا کھیل کھیلتے اور اندھیرا ہونے پر گھر واپس چلے جاتے۔ چاندنی راتوں میں یہ کھیل رات کو بھی جاری رکھتے۔ عمرانی صاحب! یہ سب کے سب مناظر ایک سہانے خواب کی طرح میر ے دل کے کوزے میں آج بھی اس لیئے بحفاظت موجود ہیں کیونکہ تب لوگوں کا سفید کورے کاغذ جیسا من اور ریشم سا دل ہوتا تھا۔
عمرانی صاحب، اسی جگہ جہاں پہلے کھوہ تھا اور اب ٹیوب ویل ہے ہم جیسے کمسن بچے مخصوص آوازیں نکالے اپنے ساتھی اکٹھا کر لیتے۔ ”پٹھو گرم“عروج تک پہنچ جاتا۔آنکھ مچولی اور چور سپاہی کا شور و غل ہوتا۔ کھلے حویلی والے گھروں میں لڑکیاں بول میری مچھلی کتنا پانی“ اور”کوکلے چھپاکی جمعرات آئی اے“شروع کر دیتیں۔ عمرانی صاحب! میرے بچپن کے دور میں گاؤں کی پوتر فضا بجلی کی عیاشیوں سے آلودہ نہیں ہوئی تھی۔بجلی سن انیس سو ساٹھ میں آئی تو بیرونی دنیا سے جانکاری اور تفریح کا واحد ذریعہ ریڈیو تھا۔ ریڈیو سیلون، آل انڈیا ریڈیو اور بعد میں ریڈیو پاکستان کے دوش پر گونجنے والے سدا بہار نغمے ابھی تک دل و دماغ میں ہمکتے ہیں۔ استاد رمضان، استاد تانے خان، عاشق حسین خان کی جوڑی کے علاوہ جمیل پروانہ اور نصیر مستانہ کی جوڑی، قمر اقبال، حسینہ ممتاز اور گل بہار بانوکی جانستاں آوازوں کے عاشق تھے جو اس وقت ریڈیو کے دوش پر دن میں کئی بار گونجا کرتی تھیں۔
عمرانی صاحب، میری یادوں پہ مبنی باتیں سننے کے ساتھ دلنشیں فطرتی مناظر سے بھرپور لطف اٹھا رہے تھے، فضائی آلودگیوں سے پاک فرحت بخش بلکہ زندگی بخش کیف آفریں ماحول سے اپنے قلب و روح اورباطن کے عمیق ترین گو شوں کو فرحت سر شاری دے رہا تھے۔ ہم وہاں سے ایک عقبی راستے کے ذریعے عمار مسجد کی ساتھ والی گلی سے گزر کر بوہڑ گراونڈ چوک پہنچ گیے۔۔ تقسیم ِ پاکستان سے پہلے یہاں ہندوؤں کا ایک شمشان گھاٹ ہوتا تھا جہاں ہندؤ اپنے عقیدے کے مطابق اپنے مردوں کو جلاتے تھے۔ مردوں کو جلانے کی وجہ سے ہی اس کو ”ساڑ” کے نام سیبھی جانا جاتا تھا۔ آج بھی عمر رسیدہ بزرگ اس کو ” بوہڑ والے گراؤنڈ” کی بجائے اس کے قدیمی نام ”ساڑ” ہی سے یاد کرتے ہیں۔ وہاں سے ہم دریا کے بند کی طرف روانہ ہوئے۔چلتے چلتے دائیں طرف سیمنٹ اور کنکریٹ کے بنے بنگلوں کی طرف میں نے اشارہ کرتے ہو کہا، عمرانی صاحب! یہ علاقہ دیکھ رہے ہیں ناں۔ یہاں کبھی درختوں کے جھنڈ اور ہرے بھرے کھیت ہوا کرتے تھے۔ جوانی میں دوستوں کے ساتھ دریا پہ اسی راستے سے جاتے ہوئے انہی زمینوں پر گاجروں، مولی، اور موسم کی مناسبت سے پیدا ہونے والے پھلوں پر ہاتھ صاف کرتے، لیکن پکڑائی کبھی نہیں دی۔ ہمارا مشترکہ قہقہ بلند ہوا۔ ایک راہ چلتا نوجوان جس نے موبائل کان سے لگائی ہوئی تھی، ہمیں اس طرح بے تکا ہنستے دیکھ کر وہ بھی ہنسنے لگا۔ میری زبانی درختوں کے جھنڈ اور ہرے بھرے کھیتوں کا سن کر عمرانی صاحب کہنے لگے۔۔ گلزار صاحب! ماحول براہ راست انسان کی شخصیت پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اس لئے اس کا صاف ستھرا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ جس طرح ہم گندے کمرے یا گھر میں گزارا نہیں کر سکتے اسی طرح تعفن زدہ ماحول میں سانس لینا بھی محال لگتا ہے۔ ہر آنکھ کو سبزہ پسند ہوتا ہے مگر ہم نے اپنی پسندیدگی کو اپنی ضرورت کے تحت یا ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی چاہ میں تہس نہس کردیا ہے۔ انڈسٹریاں، پلازہ، سمیت دیگر وقتی ترقی میں منازل کے حصول کی خاطر فضا میں زہریلی مادے کی آمیزش سے اپنا قاتل بنا لیا ہے۔ آلودگی سے پاک فضا انسانی سانسوں کا اجتماع ہے اور سانس سے زیادہ قیمتی شے اس کائنات میں اور کوئی نہیں۔
(جاری ہے)

%d bloggers like this: