اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اوبر کی سواریاں، منٹو کے افسانے اور جسم فروش عورت||مبشرعلی زیدی

گفتگو کرتے کرتے خود سے پوچھتا ہوں، بات کررہا ہوں یا واقعات، قصے اور کہانیاں سنارہا ہوں۔ بات کرنے والا بات جلدی ختم کردیتا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوبر میں بیشتر سواریاں منٹو کے افسانے کی جسم فروش عورت کی طرح ہوتی ہیں۔
مجھے یاد نہیں کہ منٹو نے کسی افسانے میں لکھا تھا یا اسے کسی عورت نے بتایا تھا کہ جب گاہک اپنے کام میں مصروف ہوتا ہے تو وہ جسم اس کے حوالے کرکے کچھ اور سوچتی رہتی ہے۔ ذہنی طور پر کھیل میں شریک نہیں ہوتی۔
برا نہ مانیں تو کہوں کہ بیشتر لوگ نماز بھی ایسے ہی پڑھتے ہیں۔ جسم اٹھک بیٹھک کرتا رہتا ہے اور حاجی صاحب کاروبار کے بارے میں اور حجن صاحبہ خاندان کی محلاتی سازشوں کے بارے میں سوچتی رہتی ہیں۔
میں یہ بتارہا تھا کہ اوبر کی بیشتر سواریاں گاڑی میں بیٹھنے کے بعد گردوپیش سے بے خبر ہوکر اپنے اسمارٹ فون میں گم ہوجاتی ہیں۔ نوجوان گانے سنتے ہیں۔ ادھیڑ عمر ویڈیوز دیکھتے ہیں۔ کچھ لوگ مسلسل فون پر بات کرتے رہتے ہیں۔ بزرگ انکل اور آنٹیاں البتہ ڈرائیور سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ انھیں ہوں ہاں جیسے جواب کی بھی حاجت نہیں ہوتی۔ ڈرائیور گاڑی چلارہا ہے تو زندہ ہی ہوگا۔ کان بھی کھوپڑی پر لگے ہوئے نظر آرہے ہیں تو کچھ نہ کچھ کام کرتے ہوں گے۔ زبان اگر نہیں ہے یا حرکت کرنے سے قاصر ہے تو اچھا ہے۔ میں چار جملے اضافی بول لوں۔
مجھے گاڑی چلاتے میں باتیں کرنا پسند نہیں۔ اس کی کئی سنجیدہ وجوہ ہیں۔ ویسے ہی تین طرف دھیان رکھتا پڑتا ہے۔ آگے پیچھے کے ٹریفک پر، حد رفتار کے بورڈز اور اسپیڈومیٹر پر اور ایپ پر۔ متحرک نقشہ نہ بھی دیکھنا ہو تو نظر رکھنی پڑتی ہے کہ اگلی سواری کی ریکوئسٹ نہ آجائے۔ آپ اسے نظرانداز کرسکتے ہیں لیکن اس سے ریکارڈ خراب ہوتا ہے۔
ہر سواری کے دیے ہوئے اسٹارز، ریکوئسٹس قبول کرنے کی شرح اور قبولیت کے بعد رائیڈ کینسل کرنے کی تعداد سے ڈرائیور کی ریٹنگ پر اثر پڑتا ہے۔ پوائنٹ سسٹم الگ ہے اور وہ بھی اہمیت رکھتا ہے۔
میں نے پاکستان اور دبئی میں کچھ ٹیکسی ڈرائیوروں کو دیکھا تھا کہ گاڑی چلانے کے وقت کو فرصت کے لمحات سمجھ کر مسلسل کال پر لگے رہتے تھے۔ میں ڈرائیونگ کے دوران کبھی کال نہیں اٹھاتا۔ دوست خفا بھی ہوتے ہیں۔ بلکہ ایک عرصے سے یہ جائز شکایت بھی کرتے ہیں کہ میں ریٹرن کال نہیں کرتا۔
مجھے صرف ڈرائیونگ کے دوران نہیں، ویسے بھی فون پر بات کرنا پسند نہیں۔ آلکساپن ہے اور کچھ طبیعت بھی عجیب سی ہے یا ہوگئی ہے۔
کئی سال پہلے یہ خیال ذہن میں جم گیا کہ وقت کم رہ گیا ہے۔ مطلب اسی نوے سال بھی عمر ملی تو آدھا یا آدھے سے زیادہ وقت کھو چکا۔ بہت سی کتابیں پڑھنی ہیں۔ بہت سی فلمیں دیکھنی ہیں۔ بہت سے شہر گھومنے ہیں۔
کام دھندے اور کھانے سونے کے بعد اگر وقت کے خزانے سے کچھ ریزگاری، تھوڑا چھُٹا ملتا ہے تو اسے فون پر بے مصرف گفتگو میں کیوں ضائع کیا جائے۔
واٹس ایپ اور میسنجر کا فائدہ ہے کہ کام کی بات لکھ کر پیغام پہنچادیں۔ بعض اوقات آدھے گھنٹے کی کال میں بھی کام کی بات وہی ایک دو جملے ہوتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ فون پر بات ہی نہیں کرنی چاہیے۔ کبھی کبھی دوستوں کی آواز سننے کو جی چاہتا ہے۔ مسئلہ ان دوستوں سے ہے جو بات شروع تو کرتے ہیں لیکن ختم کرنا بھول جاتے ہیں یا انھیں اس کا طریقہ نہیں آتا۔ سامنے والے کی جمائیاں، اشارے اور الوداعی جملے بھی نہیں سمجھتے یا نظرانداز کردیتے ہیں۔
وائس آف امریکا میں ہمارے ایک سینئر محترم اسد نذیر صاحب ہیں۔ وہ چار آدمیوں کی دفتری سنگت میں ٹوک دیا کرتے تھے کہ میاں، باتیں کرو، واقعات مت سناؤ۔ یہ واقعی بڑا مسئلہ ہے۔ میں پہلے تو دھیان نہیں دیتا تھا لیکن اب ان کی بات یاد رہتی ہے۔ گفتگو کرتے کرتے خود سے پوچھتا ہوں، بات کررہا ہوں یا واقعات، قصے اور کہانیاں سنارہا ہوں۔ بات کرنے والا بات جلدی ختم کردیتا ہے۔ واقعہ سنانے والا بات ختم نہیں کرپاتا۔ الف لیلہ کی طرح کہانی سے کہانی اور بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے اور بولنے والا جادوئی محل کی غلام گردشوں میں کھو جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: