مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی قومی سیاست اور عبید خواجہ کا خط||حیدر جاوید سید

سرائیکی صوبہ یا جنوبی پنجاب ؟ کے حوالے امریکہ میں مقیم قوم پرست رہنما اور انٹر نیشنل سرائیکی کانگرس کے چیئرمین سئیں عبید خواجہ کا موصولہ مکتوب قارین کی خدمت میں حاضر ہے

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرائیکی صوبہ یا جنوبی پنجاب ؟ کے حوالے امریکہ میں مقیم قوم پرست رہنما اور انٹر نیشنل سرائیکی کانگرس کے چیئرمین سئیں عبید خواجہ کا موصولہ مکتوب قارین کی خدمت میں حاضر ہے خواجہ صاحب کا بھی احباب کی طرح اپنا ایک موقف ہے انہوں سرائیکی قوم پرست سیاست کی تاریخ اور موجودہ صورتحال پر اپنی آرا کے حق میں دلیل سے بات آگے بڑھائی ہے آپ خواجہ سئیں کا خط پڑھ لیجے وہ لکھتے ہیں
محترمی واجب الاحترام حیدر جاوید سید صاحب
تسلیمات!
آپ نے طرفین کے سنجیدہ افراد کی آرا یکجا کرکے صحت مند مکالمہ کی فضا قائم کی ہے میں اسے انتہائی قابل تحسین مانتا ہوں.
آپکے کالم میں چند اہم ایشوز ہیں جن پر آپکی توجہ چاہونگا.یہ کہنا ہر گز ہر گز درست نہ ہوگا کہ سرائیکی ایشو کو پیپلز پارٹی نے اجاگر کیا.
سرائیکی ایشو یا یوں کہ لیجئے سرائیکی وسیب کیلئے علیحدہ صوبہ کی جدوجہد کی تاریخ پیپلز پارٹی کے قیام سے بہت پہلے کی بات ہے.
انٹی ون یونٹ کمیٹی میں مفکر سرائیکستان ریاض ہاشمی بطور سرائیکی نمائیندہ شریک تھے اور اس کمیٹی نے متفقہ طور پر ون یونٹ کے قیام کو رد کیا اور مغربی پاکستان میں پانچ صوبوں کے قیام کا مطالبہ کیا.
مغربی پاکستان کی اسمبلی میں بھی پانچ صوبوں کے قیام کی قرار داد منظور کرائی گئی جو سئیں جی ایم بھرگڑی نے پیش کی.
سرائیکی وسیب اور پیپلز پارٹی میں سیاسی کشمکش پیپلز پارٹی کے قیام کے کچھ عرصہ بعد سے جاری ہوئی. اولین سیاسی اختلاف بہاولپور صوبہ محاذ( بہاولپور صوبہ محاذ کے قائیدین ریاض ہاشمی، سیٹھ عبید الرحمن نے بعد ازاں سرائیکی صوبہ محاذ کی بنیاد رکھی اسی طرح بہاولپور صوبہ محاذ کے مرکزی رہنماؤں محترم راز جتوئی، میاں سراج سانول خواجہ اور دیگر نے سرائیکی تحریک میں بھر پور حصہ لیا اور سرائیکی تحریک کے پیغام کو وسیب تک پہنچایا) ایشو پر تھا. 1970 کے انتخابات کے میں بہاولپور صوبہ محاذ نے بھرپور کامیابی حاصل کی پیپلز پارٹی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکی. بہاولپور کو بذریعہ فوجی ایکشن پنجاب میں شامل کر دیا گیا بھٹو صاحب نے ایک سے زائد مرتبہ لاہور میں عوامی اجتماعات میں بہاولپور کی پنجاب میں جبری شمولیت کو پنجاب کیلئے تحفہ قرار دیا( مفکر سرائیکستان ریاض ہاشمی نے اپنی کتاب میں بھٹو صاحب کے اس عمل کا حوالہ دیا ہے).
2013 اور 2018 کے انتخابات کے حوالہ سے اتنا ضرور عرض کرونگا آپ ایک انتہائی باخبر اور صاحب بصیرت صحافی ہیں 2013 کے انتخابات میں ن لیگ نے جتنے ووٹ حاصل کئے خود انکے اپنے امیدوار حیران تھے کہ یہ سب کیسے ہوا. 2018 کے انتخابات کو موجودہ اپوزیشن سمیت سیاسی شعور رکھنے والا ہر شخص فراڈ الیکشن سمجھتا ہے. عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ 1970 کے علاوہ پاکستان میں کبھی منصفانہ انتخابات نہیں ہوئے تو آپ کسطرح 2013 اور 2018 کے انتخابی نتائج کا ذمہ دار سرائیکی وسیب کو قرار دیتے ہیں؟؟
پیپلز پارٹی اور سرائیکی وسیب کے موجودہ تنازعہ کا باعث جنوبی پنجاب کلچرل ونگ کے نوٹیفیکشن سے زیادہ پیپلز پارٹی میں نو وارد "دانشگرد” کے وہ بیانات ہیں جس میں وہ سرائیکستان کے مطالبہ کو ریاست کے اندر ریاست، سرائیکی اجرک کی ترویج کو اسٹیبلشمنٹ/ݙیپ اسٹیٹ کا ایجینڈہ قرار دیتے ہیں.
انتہائی ادب سے گزارش ہے میں مشوری صاحب کے اس نکتہ نظر سے اختلاف کرنے کی جسارت کرونگا کہ ” اب بھی سرائیکی وسیب کے لوگ پیپلز پارٹی کو تل وطنی پارٹی سمجھتے ہیں”. وسیب کے لوگ پیپلزپارٹی کے قیام سے قبل ہی اپنے علیحدہ صوبہ کے قیام کیلئے کوشاں تھے اگر حقیقی معنوں میں پی پی سرائیکیوں کی ترجمان ہوتی تو بیشمار رہنما پی پی کو چھوڑ کر سرائیکی تحریک کو جوائن اور قیادت نہ کرتے. مرحوم تاج لنگاہ، افضل مسعود، حمید اصغر شاہین، اکبر ملکانی اور دیگر اسکی واضح مثال ہیں.
سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی.ایشوز پر پیپلز کی حمائت یا اختلاف کیا جا سکتا ہے جوکہ ہمارا بنیادی اور جمہوری حق ہے. میں نے زندگی کے بیشتر انتخابات میں پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا. کبھی ن لیگ کی سرائیکی کش پالیسیز کی رد عمل کے جواب میں اور کبھی کسی اور چواسئسز کے فقدان کیوجہ وجہ سے.
میرے زندگی کے قریب ترین دوستوں کا تعلق پی ایس ایف سے ہے.
اشولال کے بیانات نے سرائیکی قومی کارکنوں کو ردعمل پر مجبور کیا.
بخوف طوالت حالیہ واقعات کے تناظر میں مختصرا عرض کرونگا. کیا اشو لال کے بیانیہ کو پیپلز پارٹی یا لوک سانجھ own کرتی ہے؟
"سرائیکی اجرک کی ترویج ڈیپ اسٹیٹ کا ایجینڈہ ہے”جیسے بیانات کیا سیکولر دعوی کی حامل پارٹی سے منسلک عہدیدار کو زیب دیتے ہیں؟
جس پارٹی کے حامی صبح شام یہ ورد کرتے نہیں تھکتے کہ پختونخواہ اور گلگت بلتستان کو پیپلز پارٹی نے شناخت دی. اسی پارٹی نے سرائیکی وسیب کیلئے اپنے یونٹ کا نام جنوبی پنجاب رکھا ہوا ہے. پی پی کے احباب بجائے جواب دینے کہ اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار اور ایجینٹی کے فتوے جڑتے نہیں تھکتے.
سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے اکثر سنجیدہ حلقے محض پارٹی وابستگی کی بنیاد پر اس جیالا گردی پر خاموش ہیں. البتہ اب کچھ نظریاتی اور دیرینہ جیالے سرائیکی صوبہ کے حق آواز بلند کر رہے ہیں ان میں رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے ہمارے کالج فیلو اور دوست پی ایس ایف کے مرکزی رہنما مرشد سعید ناصر سر فہرست ہیں.
اس صورتحال کا ایک مثبت پہلو یہ ہے سرائیکی قومپرست حلقوں میں شدت سے وسیب کی محرومیوں کے ازالہ کیلئے تمام قومپرست جماعتوں، دانشوروں، ادیبوں صحافیوں پر مشتمل سپریم کونسل کے قیام کیلئے سنجیدہ کوششیں ہورہی ہیں.
میں ایک مرتبہ محترم حیدر جاوید سید صاحب آپکا تہ دل سے مشکور ہوں کہ آپنے اس انتہائی اہم ایشو پر فریقین کے مابین سنجیدہ مکالمہ کا موقع فراہم کیا. امید اور توقع رکھتا ہوں اس جاری مکالمہ کے سرائیکی وسیب کیلئے مثبت اور بار آور نتائج سامنے آئینگے.
سلامت رہیں.
سرائیکی وسیب کا ادنی خادم
عبید خواجہ
خواجہ سئیں کا مکتوب آپ پڑھ چکے اگلے کالم میں سرائیکی صوبے کے حوالے پیپلز پارٹی کی کاوشوں اور سابق وزیراعظم مخدوم سید یوسف رضا گیلانی کے کردار کے حوالے سے گیلانی صاحب کے موقف کو قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا
فی الوقت ایک وضاحت از بس ضروری ہے وہ یہ کہ کچھ لوگ پیپلز پارٹی کی آڑ لے کر سوشل میڈیا پر مجھ قلم مزدور بارے اپنی بھڑاس جس طور نکال رہے ہیں اس کا جواب غیر ضروری ہوگا البتہ ان احباب کی توفیقات میں اضافے کیلئے دعا گو ہوں وہ سلامت و شاد رہیں قلم مزدور کا فرض یہی ہے کہ اگر تلخیاں کسی طرح کم ہوتی ہیں تو اس کے لئے کوششیں کی جانی چاہیں

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: