اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یورینیم ریوڑیاں نہیں ہے مودی سرکار ذرا اس طرف بھی ںظر ||فہمیدہ یوسفی

اسی رپورٹ کہ مطا بق پاکستان نے تنصیبات پر موجود سکیورٹی اور سائبر سکیورٹی کے لیے نئے طریقہ کار اپنائے ہیں اور اندرونی خطرے کو روکنے کے لیے بہتر اقدامات کیے ہیں۔

فہمیدہ یوسفی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھارتی میڈیا کے مطابق  بھارتی ریاست جھاڑکھنڈ پولیس نے یورینیم کی فروخت میں ملوث سات افراد کو گرفتار کیا جن کے قبضے سے چھ کلوگرام یورینیم ضبط کی گئی ۔جبکہ اس سے قبل دہشت گردی کے واقعات کی تفتیش کرنے والے سب سے اہم ادارے نیشنل انوسٹیگیشن ایجنسی (این آئی اے) نے ممبئی میں دو افراد کو گرفتار کرکے ان کے قبضے سے سات کلو گرام یورینیم برآمد کی تھی۔

مگر یہ خبر اتنی حساس کیوں ہے اور آخر  یورینیم  کی فروخت اتنی خطرناک کیوں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یورینیم ایٹمی اسلحہ میں استعمال ہونیوالا بنیادی اور اہم ترین جزو ہے۔

اب ذرا  نظر ڈالتے ہیں جوہری امور پر کام کرنے والے امریکی تھنک ٹینک ’نیوکلیئر تھریٹ انیشی ایٹو  کی سال 2020 کی رپورٹ پر

  اس رپورٹ کے مطابق نیوکلیئر سکیورٹی انڈیکس میں جوہری مواد کے حوالے سے سب سے زیادہ بہتری پاکستان کی ریکارڈ کی گئی تھی  جبکہ اسی رپورٹ کے مطابق  سال 2012 سے سکیورٹی اور کنٹرول کیٹیگری میں دوسرے ممالک  کے مقابلے میں پاکستان  کے  پوائنٹس میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔

جبکہ دوسری جانب جوہری مواد کی حفاظت کی مجموعی رینگنگ میں پاکستان بھارت سے ایک درجہ اوپر ہے۔ جوہری تنصیبات کے سبوتاژ ہونے کے اقدامات روکنے کی درجہ بندی میں  بھی پاکستان بھارت سے پانچ درجہ بہتر ہے۔

 اسی رپورٹ کہ  مطا بق پاکستان نے تنصیبات پر موجود سکیورٹی اور سائبر سکیورٹی کے لیے نئے طریقہ کار اپنائے ہیں اور اندرونی خطرے کو روکنے کے لیے بہتر اقدامات کیے ہیں۔

حیران کن طور پر یہ پہلی بار نہیں ہے جب بھارت سے یورینیم چوری کے واقعات منظر عام پر آۓ ہوں ۔سال  2018ء میں کولکتہ سے ایک کلو گرام یورینیم برآمد ہوئی تھی۔ پولیس نے  ان ملزمان  کو گرفتار کرلیا تھا  اور متعلقہ اداروں نے تحقیقات  بھی کیں لیکن اس نااہلی کی کی رپورٹ کبھی منظر عام پر نہیں آسکی ۔ 2016ء میں مہاراشٹر سے نو کلوگرام یورینیم کی  بھاری مقدار پکڑی گئی تھی۔ جبکہ  راجستھان کے روات بھاٹا نیوکلیئر پلانٹ میں اوپر تلے پانچ ہفتے میں دو واقعات میں تابکاری سے 40 افراد متاثر ہوئے۔

بھارتی میڈیا شاذ و نادر ہی ایسے واقعات کی اطلاع دیتا ہے۔ تاہم ، ہندوستانی حکومت بعض اوقات بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے  تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اس طرح کے واقعات کی اطلاع دیتی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق 25 فروری 2004 کو ، بھارت نے آئی بی ای اے کو اس کے لیبز سے "لاپتہ” یا "چوری شدہ” تابکار ماد .ے کے 25 واقعات رپورٹ کیے۔ باون فیصد واقعات کو "چوری” اور 48 فیصد "گمشدہ اسرار” سے منسوب کیا گیا تھا۔ بھارت نے 25 میں سے 12 میں کھویا ہوا مال برآمد کرنے کا دعوی کیا ہے۔ تاہم اس نے اعتراف کیا کہ باقی 13 معاملات پراسرار رہے۔بھارت خود کو ایک "ذمہ دار ریاست” کے طور پر پیش کرنے کے لئے IAEA کو اس طرح کے واقعات کی اطلاع دیتا ہے۔ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ تابکار مادے کو آپریٹرز کی ملی بھگت کے بغیر ایٹمی لیبوں سے چوری کیا جاسکتا ہے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خطے کے چوہدری بننے کے زعم میں مبتلا بھارتی ایٹمی پروگرام کسی صورت بھی محفوظ نہیں کہا جاسکتا جبکہ  بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شامل ہونے کا جنون ہے اور اس کے لیے بھارت کی جانب  سے زور و شور سے  لابنگ کی جارہی  ہے اگر دوسری جانب نظر ڈالی جائے تو  پاکستان کا ایٹمی پروگرام نہ صرف  محفوظ ترین ہے بلکہ پاکستان آئی اے ای اے کے مروجہ  قوانین پہر عمل کرتا ہے جبکہ بھارت کی جانب  سے پاکستانی ایٹمی پروگرام کو   غیر محفوظ  ہونے  کا  حقائق سے دور  اور جھوٹا پراپیگنڈا کیا جاتا ہے اس  پراپیگنڈا  سے بھارت اپنے ایٹمی پروگرام میں موجود  کمزوریاں  اور خامیاں چھپانا چاہتا ہے۔

دیکھا جائے تو بھارتی ایٹمی  پروگرام میں جس طرح کی  کمزوریاں سامنے آئی ہیں اس پر عالمی اداروں کو سوچنا چاہیے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی ادارے  بھارت کی طرف اپنی توجہ مبذول کر یں  جہاں 123 توسیعی منصوبے کے تحت جوہری مادے کی نقل و حرکت مختلف ریاستوں میں پھیلتے ہوئے ایٹمی بجلی گھروں کے درمیان ہو رہی ہے۔

  سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یورینیم  کڑی حفاظت میں ہونے کے باوجود غیر متعلقہ لوگوں اور غیر محفوظ ہاتھوں میں کیسے چلی گئی؟

  یورینیم کی اتنی  کڑی  نگرانی کے باوجود  جوہر ی چوری اور اسمگلنگ  بھارتی  اداروں کی  نالائقی نااہلی اور کرپشن کا منہ بولتا ثبوت  ہے  اور سوال تو یہ بھی ہے کہ  اتنی حساس چوری اتنے اہم ترین  اداروں کے ذمہ داران کی ملی بھگت کہ  بغیر تو ممکن  تو نہیں ہوسکتی

بھارت میں یورینیم چوری کے بھی عجیب ہی قصے ہیں کبھی   دہلی کے میٹکلف ہاؤس میں بھارت کے دفاعی تحقیق و ترقیاتی ادارہ سے تعلق رکھنے والے نو کمپیوٹر چوری ہوجاتے ہیں کبھی ’چوروں‘ کی جانب سے  تین کوبالٹ سوئچ چوری کر لئے جاتے ہیں  ، جن کی مالیت لاکھوں میں تھی ۔ جمشید پور (جھارکھنڈ) میں ٹاٹا اسٹیل کمپنی کی لیبارٹری سے 15 لاکھ ، شمالی کوریا جاتے ہوئے 24 ملین ڈالر مالیت کی)کھیپ پکڑی جاتی ہے ۔ تو کبھی تائیوان کے حکام کی  جانب سے ہندوستان سے شمالی کوریا کی طرف ایلومینیم آکسائڈ لے جانے والے جہاز کو روکا تھا۔ اور نیو جرسی میں مقیم ہندوستانی انجینئر سیتارام روی ماہیڈو ن پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ شمالی کوریا کو سولینائڈ سے چلنے والے والوز کے بلیو پرنٹس بھیجنے کے لئے امریکی برآمدی طریقہ کار کو نظرانداز کر گیا۔۔ ہندوستان نے آئی آر ای اے کو ‘چوری یا گمشدہ’ یورینیم کے 25 واقعات رہورٹ کیے ۔ جبکہ  مختلف مقدار اور اشکال میں  یورینیم کبھی  سکریپ ڈیلرز اور کبھی  دیگر سے برآمد کی جاتی رہی ہے   تاریخ کے مطابق پاکستان کے ایٹمی ریگولیٹری اتھارٹی نے نائن الیون کے واقعے سے قبل ہی پاکستان کے جوہری ہتھیاروں ، سہولیات اور سامان کی حفاظت ، حفاظت اور احتساب کے لئے ضروری اقدامات اٹھائے تھے۔ جبکہ  اب تک ، پاکستان کے کسی بھی جوہری تنصیبات میں سکیورٹی خرابی نہیں ہو سکی ہے۔دنیا بھر میں لاکھوں تابکار وسائل مختلف اطلاق میں استعمال ہوتے ہیں۔ صرف چند ہزار ذرائع ، جن میں Co-60 ، CS-137 ، Ir-192 ، SR-90 ، AM-241 ، Cf-252 ، P-238 ، اور RA-226 شامل ہیں ، کو سیکیورٹی رسک سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی (پی این آر اے) نے تابکاری سے لے کر تابکار ذرائع پر انتظامی اور انجینئرنگ کنٹرول کے لئے سخت اقدامات کا ایک طریقہ کار نافذ کیا ہے۔ یہ وسائل کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے وقتا فوقتا معائنہ اور اور تصدیق کرتا ہے جبکہ اتھارٹی نے مزید مضبوط نیوکلیئر سیکیورٹی حکمرانی کے قیام کے لئے پانچ سالہ قومی جوہری حفاظت اور حفاظت سے متعلق ایکشن پلان شروع کیا ہے۔ پاکستان میں جوہری مادی داخلے کے ہر مقام پر تابکاری کا پتہ لگانے کے سازوسامان کی تعیناتی کے علاوہ ایک تربیتی مرکز اور ایک ہنگامی ہم آہنگی کا مرکز قائم کیا ہے ، جہاں ضرورت پڑنے پر گاڑیوں / پیدل چلنے والے پورٹل مانیٹرنگ کے سامان کی تکمیل کی گئی ہے۔ہوائی اڈوں پر فکسڈ ڈٹیکٹر لگائے گئے ہیں ، اس کے علاوہ اہلکاروں کے سامان کا بے ترتیب معائنہ بھی کیا گیا ہے۔ تمام جوہری مواد درآمد سے لے کر ضائع ہونے تک سخت ریگولیٹری کنٹرول میں ہیں۔بھارت میں ایٹمی کنٹرول پاکستان سے زیادہ سخت نہیں ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ بھارتی اور عالمی  میڈیا بھارت  میں جوہری سیکیورٹی کے نازک معاملے  پر اپنی توجہ کیوں مبذول نہیں کرتا ۔

جبکہ  اس حقیقت کو نظرا انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جنوبی ایشیا کے اسٹریٹجک استحکام کے نقطہ نظر سے بھارت کے غیر محفوظ جوہری ذخائر کا اثر  پورے خطے کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے

%d bloggers like this: