اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

من موجی ۔ آخری قسط ||گلزار احمد،وجاہت علی عمرانی

گلزار احمد خان اور وجاہت علی عمرانی کی مشترکہ قسط وار مکالماتی تحریر جو دریائے سندھ کی سیر پہ مبنی ہے۔ جس میں تاریخی، ثقافتی، ماضی اور روائتی باتیں قلمبند کی گئی ہیں ۔

گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمرانی صاحب نے ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے اپنے دونوں پاؤں پانی سے باہر نکا ل لیے۔۔۔ میں نے حیرت سے کہا عمرانی صاحب، خیریت تو ہے، کیا ہوا؟ کہنے لگے، گلزار صاحب! محبت، اپنائیت، فطرت، خوشیوں اور یک جہتی کے محور دریائے سندھ کوڑا دان بن گیا۔ دیکھ رہے ہیں ناں دریا کے پانی میں تیرتے ہوئے یہ گندے پلاسٹک کے لفافے، بوتلیں، فضلہ، کپڑے، جوتے۔ عمرانی صاحب مجھے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے دکھانے لگے۔ گلزار صاحب اس گندگی کی وجہ سے دریا کا پانی نہ صرف آلودہ ہوا بلکہ آبی حیات کے لیے قاتل بھی۔۔۔ دریائے سندھ کناروں پہ بننے والے چار پانچ نالوں سے بہہ کر آنے والا یہی گندا مواد ہے۔ یقین کریں گلزار صاحب! شہر سے آنے والی تمام گندگی، کچرا، آلائشیں اور گندے پانی کے ساتھ دیگر مواد ان نالوں کے زریعے دریائے سندھ میں ایسے ڈالا جا رہا ہے، جیسے یہ کوئی قیمتی ترین خراج ہو جو کہ ہم دریا کے سپرد کر رہے ہوں۔ ہم نے دریائے سندھ کے پوتر پانی کو گند میں ڈھال دیا ہے۔ ان گندے نالوں کی گندگی کے علاوہ بد نصیبی سے ہمارا وتیرہ یہ ہے کہ ہم جہاں بھی جو چیز چاہتے ہیں، پھینک دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے شہریوں کی کثیر تعداد نے بھی ادھر کا رخ کرنا بند کر دیا ہے۔ عمرانی صاحب کی یہ بات میرے ذہن پر کئی سوال چھوڑ گئی۔ ہماری قوم کب ایک باشعور اور ذمہ دار قوم بنے گی۔
جبکہ یہ مہربان ”سندھو دریا“ ہمیں مچھلی دیتا ہے، روزی دیتا ہے، یہ ہماری ماں جیسا ہے جو کہ ہمیں معطر اور پاک صاف فضا، دلی و روحانی سکون عطا کرتا ہے، ایک ہم ہیں جو اس کو آلودہ کرنے پہ تُلے ہوئے ہیں۔دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ اس شہر کو بھی ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کیلئے صحت و صفائی کے مؤثر اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ ماحول دوست عوامل پر بھی فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اٹھتے ہوئے بڑے رنجیدہ دل کے ساتھ عمرانی صاحب کہنے لگے۔ اٹھیئے گلزار صاحب واپس چلتے ہیں۔بادلوں میں روشنیوں کی رقاصہ آخری کتھک ناچ رہی تھی اور شام کے سرمئی سیال میں زمین ڈوبتی چلی جا رہی تھی۔ ہوا کے جھونکے ہمارے چہروں سے ٹکرا کر مدہوش کن سر شاری کی سوغات عطا کر رہے تھے۔ عمرانی صاحب تو دریائے سندھ کے پانی، اور دریا پار درختوں اور آس پاس قدرتی مناظر سے بھر پور بیٹوں کو دیکھنے اور لمبے لمبے سانس لے کر اپنے پھیپھڑوں کو زندگی آفرین کیف آفرین ہوا سے بھرنے لگے۔ اپنے پھیپھڑوں کو تازہ خوشبوؤں میں مہکی ہوا سے بھرنے کے بعد اپنے سامنے میلوں دورتک پھیلے قدرتی مناظر کو اپنی دماغی سکرین پر اتارنے لگے۔ میرے سامنے بھی دور تک قدرتی مناظر سے منقش طشتری دعوت نظارہ دے رہی تھی مناظر سے بھر پور طشتری، جس پر قدرتی مناظر، آسمان پر تیرتے بادل، پاؤں کے نیچے گیلی ریت، سندھو دریا کا بے فکر رفتار سے چلتا پانی جس نے دلکشی ورعنائی کا لازوال حسن کا حشر بر پا کر رکھا تھا۔
جس راستے سے ہم آئے تھے، واپس اسی راہ پہ چلنے لگے۔ وہی ننگ دھڑنگے بچے دنیا کی ترقی سے بے فکر ابھی تک وہیں کھیل رہے تھے۔ دور ان خانہ بدوشوں کی جھونپڑیوں سے اٹھتا دھواں اس بات کی گواہی دے رہے تھا کہ رات کے لیئے کھانا بن رہا ہے۔ ہم سے تھوڑی دور جھونپڑیوں کے قریب چند خانہ بدوش مرد ٹھہر ے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ وہ اتنی دور تھے کہ اگر انہیں ہم سے بات کرنی ہو تو کافی زور سے بولنا پڑتا اسی لئے انہوں نے بولنے کی بجائے ہمیں کھانے کا ہاتھ سے اشارہ کیا ہے کہ آ جاؤ اور آپ بھی کھا لو۔ نہ جان نہ پہچان مگر پھر بھی انہوں نے اشاروں سے کھانے کی دعوت دی۔ یہی ان خانہ بدوشوں کی زندہ دلی، اپنا پن اور ان کے اندر کا سکون ہے، کیونکہ یہ مشینیں نہیں بلکہ انسان ہیں۔ یہ نہیں چاہتے کہ ان کے قریب و جوار میں کوئی بھوکا رہ جائے۔ گوکہ ان کا کھانا کوئی فائیو سٹار ہوٹل کا نہیں مگر سوچنے کی بات ہے کہ مٹی کے ساتھ مٹی بنے رزق کی تلاش میں مصروف ان خانہ بدوشوں کا کھانا فائیو سٹار کھانے سے بھی اعلیٰ درجے کا ہے۔ ان کے روکھے سوکھے کھانے میں خلوص و محبت کی خوشبو ہے، سکون کا ذائقہ ہے اور ایک ”زندگی“ ہے۔
ہم سڑک پہ پہنچ چکے تھے۔ سورج نے شکست مان کر اپنا چہرہ چھپا لیا تھا، شام کا ملگجا سا اندھیرہ رات کے گھر دھیرے دھیرے دبے پاؤں داخل ہورہا تھا۔ رات کے ابتدائی سیا ہ اندھیرے میں ہمارے دل جلے اٹھے۔ دل کیا جلے۔۔۔ چراغ جلے اور جب چراغ جلے تو الاؤ بھی جلنے لگے اورالاؤ کے ساتھ ہی کئی سابقہ کہانیا ں ہونٹوں سے جنم لینے لگیں۔ عمرانی صاحب! مجھے آپ کی فکر ہے، واپس گھر کی طرف پیدل کی بجائے کسی رکشے پہ چلتے ہیں۔ حالات کا پتہ نہیں چلتا۔ ایک رکشے کی جانب میرا اُٹھا ہوا ہاتھ عمرانی صاحب نیچے کرتے ہوئے ہوئے کہنے لگے۔
گلزار صاحب! جب مرنا لازم ہے تو کیوں ناں کھل کر جیا جائے۔جو زندگی ہے جتنی ہے اسے کل کے اندیشوں میں جھونکنے سے بہتر ہے آج ایک تازہ ہوا کے جھونکے کو پناہ دی جائے۔تو پھر میں نے سوچ لیا کہ جب بلآخر یہاں سے رخصت لکھی ہے تو پھر آج سے زندہ رہتے ہیں۔کھل کے سانس لیتے ہیں۔کھلتے گلابوں کو جی بھر کے تکتے ہیں۔
چلو پھر زندہ رہتے ہیں۔
کسی لُڈَو کے چھکے پر پوری جان لگاتے ہیں۔
کسی قلفی کو تیلی پر سے گرنے سے بچاتے ہیں۔
کسی چائے کے کپ کے گرد منجمند ہو جاتے ہیں۔
مسکراہٹوں کو خوشیوں کو،ہر گلی کوچے میں بانٹتے ہیں
خود کو وقت دیتے ہیں۔
ہم اپنا ہاتھ تھام کے پھر زندہ رہتے ہیں۔
چلئے آئیے پھر آپ اور میں بھی مسکراتے ہیں
زندہ رہتے ہیں
گھر کی جانب پیدل چلتے ہیں..

%d bloggers like this: