مئی 1, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیاست کے بازار میں||حیدر جاوید سید

حکومت گرانے کے لئے نکلنے والے پچھلے چند دنوں سے ایک دوسرے کے گریبانوں سے الجھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز بھی (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کے مورچوں سے ایک دوسرے کے ٹھکانوں پر شدید گولہ باری جاری رہی۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(ن) لیگ کے این اے 249سے امیدوار مفتاح اسماعیل نے الیکشن کمیشن کو درخواست دی ہے کہ
’’حلقہ کے انتخابی نتائج میں گڑبڑ کا امکان ہے اس لئے تمام ریکارڈ رینجرز یا فوج کی تحویل میں دیا جائے‘‘۔
وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اس پر تبصرہ کیا
’’زرداری نے (ن) لیگ کو فوج یاد کروادی‘‘۔
حکومت گرانے کے لئے نکلنے والے پچھلے چند دنوں سے ایک دوسرے کے گریبانوں سے الجھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز بھی (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کے مورچوں سے ایک دوسرے کے ٹھکانوں پر شدید گولہ باری جاری رہی۔
سوشل میڈیا پر بھی گھمسان کی لڑائی جاری ہے۔ جنگ دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ ہمارے مولانا کے ایک کارخاص نے پیپلزپارٹی کی طرف گالیاں اچھالیں۔ لگتا ہے ہم واپس 1988ء میں جاپہنچے ہیں جب اسلامی جمہوری اتحاد اور دیگر اسلامی سیاسی جماعتیں ہر دستیاب گالی پیپلزپارٹی کی طرف اچھالا کرتی تھیں۔
اس سیاسی گرماگرمی کے بیچوں بیچ آپا فردوس عاشق اعوان کا اپنے آبائی ضلع کے دورہ کے دوران مقامی خاتون اے سی پر گرجنا برسنا ماحول کو تبدیل کرنے کا سبب بن گیا۔ جیالے متوالے اور خود ٹائیگروں کا بڑا حصہ آپا جی کے رویہ کو نامناسب قرار دینے لگا۔
پنجاب کے چیف سیکرٹری نے وزیراعلیٰ تک تحفظات پہنچادیئے ہیں۔ اتوار کی شام لاہور میں ایک صوبائی سیکرٹری کی اقامت گاہ پر درجن بھر کے قریب بیوروکریٹ ہنگامی طور پر جمع ہوئے۔ افطاری اور مختصر تبادلہ خیال کے بعد ان افسروں نے چیف سیکرٹری کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ فقیر راحموں کہتے ہیں کہ چیف سیکرٹری کو بتایا گیا ہے کہ اگر وزیراعلیٰ کی معاون خصوصی برائے اطلاعات نے اپنے ناپسندیدہ طرزعمل پر معافی نہ مانگی تو آئندہ ان کے کسی بھی دورے کے دوران کوئی انتظامی افسر موجود نہیں ہوگا۔
بتایا جاتا ہے کہ چیف سیکرٹری نے معاملہ وزیراعلیٰ کے سامنے اٹھانے کا وعدہ کیا ہے اور ان افسروں سے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ کے جواب تک کوئی قدم نہ اٹھایا جائے۔
آئیں کچھ دیر کے لئے بلوچستان چلتے ہیں جہاں اتحادی حکومت کے بڑے باہم دست و گریباں ہیں۔
وزیراعلیٰ جام کمال نے صوبائی وزیر بلدیات سردار صالح بھوتانی سے ان کا قلمدان واپس لے لیا ہے۔
صالح بھوتانی پچھلے کچھ عرصہ سے وزیراعلیٰ کے بعض فیصلوں سے کھل کر اختلاف کرتے آرہے ہیں۔ اطلاع یہ ہے کہ ان کی بھرپور لابنگ کی وجہ سے ہی بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان صوبائی اسمبلی نے وزیراعظم کے حالیہ دورہ کوئٹہ کے دوران وزیراعلیٰ کے اصرار کے باوجود ملاقات سے انکار کردیا تھا۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کے ارکان صوبائی اسمبلی نے وزیراعظم سے ملاقات کے دوران وزیراعلیٰ کی موجودگی میں شکایات کے دفتر کھول دیئے۔
جام کمال کا موقف ہے کہ گورنر بلوچستان حکومتی اتحاد کے ارکان اسمبلی کو ان کے خلاف بھڑکارہے ہیں۔
اس کا اظہار انہوں نے وزیراعظم کے سامنے بھی کیا۔
اسی دوران یہ اطلاعات بھی موصول ہوئیں کہ وزیراعظم نے گورنر بلوچستان سے مستعفی ہونے کے لئے کہا ہے۔ دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
ادھر وزیراعظم نے اتوار کے روز اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون سمیت مختلف علاقوں کا ’’بغیر پروٹوکول‘‘ کے دورہ کیا۔
ریڑھی بانوں اور ٹھیلے والوں سے "ملاقاتیں” کیں۔
جتنے صاف ستھرے چاک و چوبند ریڑھی بان اور ٹھیلے والے جی الیون سیکٹر کے ہیں اللہ کرے پورے ملک کے ریڑھی بان اور ٹھیلے والے اسی طرح استری شدہ کپڑے، چمکتے جوتے پہنے اور ماسک لگاکر کاروباری کی جگہ آیا کریں
اس سے ماحول بھی اچھا رہتا ہے اور گاہکوں کو بھی خوشی ہوتی ہے۔
فقیر راحموں تو کہہ رہے ہیں کہ اصلی ریڑھی بان اور ٹھیلے والے موقع ملاحظہ سے کچھ دور پولیس کے ٹرک میں آرام کررہے تھے اور ان کی جگہ سکیورٹی اہلکار تندہی کے ساتھ فرائض ادا کرتے رہے۔
ان کے اس موقف پر اعتراض کیا تو کہنے لگے اچھا مجھے اس وقت کسی ریڑھی یا ٹھیلے پر ایک خریدار دیکھادو جب وزیراعظم وہاں پہنچے تھے اور یہ بھی کہ بارہ بجے کون سموسے پکوڑے بیچتا ہے رمضان میں ۔
اب فقیر راحموں سے بحث کون کرے پتہ نہیں پیپلزپارٹی کی محبت میں پروپیگنڈہ کررہے ہیں یا حقیقت میں یہی کچھ ہوا؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلام آباد کے زیادہ تر صحافی بھی ان سے ملتی جلتی باتیں ہی کررہے ہیں۔
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم نے بغیر پروٹوکول کے دورہ کرنے کے لئے اتوار کا دن منتخب کیا جبکہ ان کی حکومت کے احکامات کے مطابق ہفتہ اور اتوار کو تو لاک ڈاون ہوتا ہے۔
اسلام آباد تو ویسے بھی اتوار کے روز بھاں بھاں کررہا ہوتا ہے۔ چلیں چھوڑیں ہمیں کیا۔
اب چلتے چلتے ایک خبر بھارت کی جہاں مغربی بنگال سمیت 5ریاستوں میں اتوار کو ہونے والے انتخابات میں بی جے پی کو 2اور اپوزیشن جماعتوں کو 3ریاستوں میں کامیابی حاصل ہوئی۔ مغربی بنگال میں ایک بار پھر ممتابنیر جی کی پارٹی 213نشستیں لے گئی۔ کیرالہ میں بی جے پی اتحاد کو صرف 3نشستیں ملیں۔ تامل ناڈو میں بھی بی جے پی کو شکست ہوئی البتہ آسام اور پڈوچیری میں بی جے پی کو کامیابی ملی۔
مودی سرکار نے مغربی بنگال میں کامیابی کے حصول کے لئے بے پناہ وسائل اور ہندوتوا کا سہارا لیا لیکن بنگال کے عوام نے مودی کی انتہا پسندانہ سیاست کو مسترد کردیا۔

۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: