اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

غیرجانبداری تو کھلی منافقت ہے||حیدر جاوید سید

’’ترقی یافتہ قوموں کی ترقی تک پہنچنے کے لئے ہمیں سیڑھی بھی ان سے ہی لینی ہوگی، ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ نفرت، جلادو مٹادو، مرو یا ماردو کے بیچ انہوں نے زندگی کوکیسے ڈھونڈا،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھ سے پچھلی شب ایک دوست نے شکوہ کیا
’’شاہ جی! صحافی کو غیرجانبدار ہونا چاہیے آپ تو کھلم کھلا پیپلزپارٹی کے گن گاتے ہیں‘‘۔
عرض کیا وہ جو پورا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا مہاراجگان جاتی امراء شریف کے گن گاتا ہے کبھی اسے بھی مشورہ دیجئے یا یہ شکوہ صرف میرے لئے ہے۔
اس طرح کی باتیں اکثر سننا پڑتی ہیں۔ ہم بھی اب عادی ہوگئے ہیں ان باتوں کے۔ بلاشبہ پڑھنے والوں کو اپنی رائے کے اظہار کا حق ہے لیکن یہ عرض کردوں کہ کبھی غیرجانبداری نامی منافقت کا شکار نہیں ہوا۔
یہاں ہر شخص جانبدار ہے۔ البتہ میں جانبداری میں توازن پر یقین رکھتا ہوں۔ کسی سیاسی جماعت یا شخصیت سے ذاتی دشمنی ہے نہ کسی کو غدار و قابل تکفیر سمجھتا ہوں۔ چار اور کے دوسرے لوگوں کی طرح انسان ہوں موسم اور ذائقے محسوس کرتا ہوں۔ پیپلزپارٹی فرشتوں کی جماعت ہرگز نہیں مجھ اور آپ جیسے لوگ ہی ہیں اس میں خوبیوں خامیوں سے تعمیر ہوئے لوگ۔
پنجاب اور کراچی کے میڈیا کے نزدیک پیپلزپارٹی قابل ذکر ہی نہیں جتنا ذکر کرتے ہیں وہ کاروباری مجبوری ہے ان کی۔ اپنی کاروباری مجبوری بھی کوئی نہیں۔
مثلاً آپ دیکھ لیجئے کراچی کے حالیہ ضمنی انتخابات کے حوالے سے لاہور اور کراچی کے میڈیا نے جو فضا بنائی تھی نتیجہ اس کے برعکس آیا اب ان کی حالت یہ ہے کہ باولے ہوئے پھاڑ کھانے کو دوڑتے ہیں۔
قلم مزدور کےطور پر ہم اپنے عصروں میں سے مظہر عہباس مجھے کبھی متاثر نہیں کرپائے اس کی دو وجوہات ہیں اولاً یہ کہ وہ ایک خاص قسم کے نسلی شائونزم کا شکار ہیں ثانیاً یہ کہ وہ بھی اُن ’’مہربانوں‘‘ کے کہنے پر رائے سازی کرنے کا حق ادا کرتے ہیں۔
کراچی کے حالیہ ضمنی الیکشن پر مظہر عباس کا تجزیہ دلچسپ ہے ان کا کہنا ہے کہ ’’مفتاح اسماعیل ٹھوس وجوہ کے بغیر الیکشن کمیشن پر دھاندلی کے الزامات لگارہے ہیں‘‘۔
لاہور اور کراچی کا میڈیا پچھلے 8برسوں سے تواتر کے ساتھ پیپلزپارٹی کو اندرون سندھ کی علاقائی جماعت کے طور پر پیش کررہا ہے اسی میڈیا کا خیال ہے کہ نون لیگ اس وقت ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے۔
پیپلزپارٹی کے پاس صوبہ پنجاب کے سرائیکی بولنے والے اضلاع سے قومی اسمبلی کی 7نشستیں ہیں۔ یہ سرائیکی خطہ کسی دوسرے سیارے پر ہے؟
پنجاب اسمبلی میں بھی اس کے 6ارکان ہیں یہ وہی ارکان جن کے بارے میں چند دن قبل مریم نواز، احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی کہہ چکے کہ ان 6 ارکان کی سیاسی حیثیت کیا ہے۔
پیپلزپارٹی میڈیا گیری میں ایک ناکام جماعت ہے غیرفعال بلکہ نہ ہونے کے برابر، سوشل میڈیا ٹیم لاہور اور کراچی کے میڈیا میں ہمدرد نہ ہونے کے برابر۔
اس جماعت کے دوستوں کو کبھی اس طرف متوجہ کرو تو جواب دیتے ہیں ہم میڈیا گیری پر نہیں عوام کی رائے پر اعتماد کرتے ہیں۔
ویسے ایک بار پیپلزپارٹی نے پیپلز میڈیا سیل کے نام سے ایک سیل بنایا تھا یہ محترمہ بینظیر بھٹو کے پہلے دور کی بات ہے۔ حسن نثار اس کے سربراہ تھے۔ بعد میں اس نے اس سیل کی کمائی سے لاہور میں تین بیوٹی پارلر بھی کھولے تھے۔ خیر چھوڑیئے اس قصے کو ہمیں اس سے کیا۔ البتہ جب بھٹوز کے خون کے پیاسے جاتی امرا نیوز پر بیٹھ کر حسن نثار بھاشن دیتے ہیں تو پیپلز میڈیا سیل کے نام پر ان کی لوٹ مار یاد آجاتی ہے۔
اچھا ویسے میں نے پیپلزپارٹی اور اے این پی کے لئے اپنی پسندیدگی کبھی نہیں چھپائی، ضروری بھی نہیں البتہ ہمدردی اور میڈیا منیجری کا فرق اس قلم مزدور کو معلوم ہے۔
پچھلے دو دنوں سے پیپلزپارٹی لاہور اور کراچی کے میڈیا میں زیرعتاب ہے یہ کوئی نئی بات ہرگز نہیں۔ ظاہر ہے جس میڈیا کو بیماری کے پروگرام کمرشل اشتہاروں کے نرخ پر کرنے کو ملتے ہوں اس کے نزدیک قبلہ کامریڈ نوازشریف رواں صدی کے عظیم جمہوری رہنما ہوں گے۔
ہنسی مجھے اس وقت آتی ہے جب لاہور اور کراچی کے میڈیا پر پیپلزپارٹی کو بوٹ پالشی، اسٹیبلشمنٹ سے مک مکا کرنے اور جمہوریت دشمن یا ڈیل کرنے والی جماعت بناکر پیش کیا جاتا ہے۔
نوازشریف بیرون ملک کیسے گئے؟ ابھی شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی سے قبل جیل میں ان سے پون گھنٹے کی ملاقات کس نے کی؟ رمضان المبارک سے تین دن قبل لاہور کے ایک ’’ہاوس‘‘ میں طاقتور اسٹیبلشمنٹ اور (ن) لیگ کے درمیان اڑھائی گھنٹے کی ملاقات کا مقصد کیا تھا۔
مجال ہے ہمارے یہ آزاد تجزیہ کار اس بارے منہ سے دو لفظ بھی نکالیں۔
ہمارے ایک بہت ہی قابل احترام دوست جو پیشے کے اعتبار سے معلم ہیں، پچھلے دو دنوں سے جاتی امرا کی محبت میں حافظ سلمان بٹ بنے ہوئے ہیں پیپلزپارٹی کے خلاف۔ سچ پوچھیں تو کراچی کے ضمنی انتخابات نے (ن) لیگ، اس کے ہمدردوں اور لاہور اور کراچی کے میڈیا ہاوسز سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لی ہے۔
قبلہ قائد ملت ملتانی منڈلی سے تعلق خاطر مانع ہے اس لئے کالم یہیں تمام کرتے ہیں۔ آخری بات یہ ہے کہ سیاست میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی، لیگی دوست احتیاط کریں پتہ نہیں کل کلاں پھر سے کسی مشترکہ دشمن یا مخالف کے خلاف جاتی امرا اور بلاول ہاوس والے ایک پیج پر ہوں اور ان کے حصے میں شرمندگی ہی شرمندگی آئے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: