اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چکی||جاوید اختر بھٹی

اس چکی کے دوسرے مالک معروف شاعر اور نقاد انوار انجم مرحوم کے دادا صابر دہلوی تھے ۔ صابر دہلوی بھی شاعر تھے اور انہوں نے دہلی میں بھر پور ادبی زندگی بسر کی تھی
جاوید اختر بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1947ء میں بہت سے لوگ ہجرت کر کے ملتان آئے تو انہیں متروکہ ہندو املاک الاٹ ہوئیں ۔ پاک دروازے کے باہر ایک چکی دو شاعروں کو الاٹ ہوئی ۔ ان میں ایک ماہرالقادری تھے ۔ اسی دور میں ڈاکٹر عاصی کرنالی نے ان کی شاگردی اختیار کی ۔ ان کے پہلے شعری مجموعے ” رگِ جاں ” پر ماہرالقادری نے دیباچہ لکھا ۔
ارشد ملتانی بتایا کرتے تھے کہ ماہر القادری شام کو کرسی میز چکی کے باہر رکھ کر بیٹھ جایا کرتے اور پڑھنے لکھنے میں مشغول رہتے تھے ۔ (ارشد ملتانی کا گھر بھی اسی علاقے میں تھا) ماہر القادری تقسیم ہند سے قبل معروف شاعر تھے ۔ ان کا کلام ادبی رسائل میں نمایاں طور پر شائع ہوا کرتا تھا ۔ وہ کچھ عرصہ ملتان میں رہے اور پھر کراچی منتقل ہو گئے ۔ وہاں سے انہوں نے ماہنامہ "فاران” جاری کیا ۔ یہ رسالہ نظریاتی طور پر ایک خاص سیاسی مذہبی جماعت سے وابستہ تھا ۔ ادیبوں سے ان کے معرکے بھی مشہور ہوئے اور بعد ازاں کتابی صورت میں شائع ہوئے ۔ ماہرالقادری کی وفات کے بعد "فاران” جاری نہ رہا اور اس کمی کو ہفت روزہ "تکبیر” اور مشفق خواجہ نے پورا کیا ۔
May be an image of indoor
اس چکی کے دوسرے مالک معروف شاعر اور نقاد انوار انجم مرحوم کے دادا صابر دہلوی تھے ۔ صابر دہلوی بھی شاعر تھے اور انہوں نے دہلی میں بھر پور ادبی زندگی بسر کی تھی ۔ ملتان کی بھر پور ادبی زندگی ان کے پوتے انوار انجم کے حصے میں آئی مگر اس ذہین نوجوان کے ساتھ زندگی نے وفا نہ کی اور وہ بہت جلد داغ مفارقت دے گئے ۔ وہ ملتان میں اردو ادب کے استاد تھے ۔ ان کا ایم اے کا مقالہ میرا جی پر تھا اور مقالہ پی ایچ ڈی کے مقالوں سے کہیں بہتر ہے ( یہ مقالہ مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور نے شائع کیا ہے ) ان کی وفات کے بعد ان کے دوستوں "شاخِ نہالِ غم” کے نام سے مرتب کیا تھا ۔ اس دو ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں ۔
صابر دہلوی پر ڈاکٹر عذرا شوذب اور انوار انجم پر ڈاکٹر شوذب کاظمی نے ایم فل کے مقالے لکھے ۔
صابر دہلوی کا ذکر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر نے اپنی خود نوشت ” یادوں کے جشن ” میں دلچسپ انداز میں کیا ہے ۔ تقسیم کے وقت وہ کمشنر دہلی تھے اور تقسیم سے بہت پہلے وہ ملتان افسر مال رہے ۔ ان کے قریشی اور گیلانی خاندانوں سے تعلقات رہے ۔ اس کا ذکر انہوں نے یادوں کے جشن میں کیا ہے ۔

جاوید اختر بھٹی کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: