اپریل 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دلی دل والوں کی (قسط28)||عباس سیال

جب تاج محل چند سو میٹر کے فاصلے پر رہ گیا تو ہماری گاڑی ایک بس اسٹینڈ کے اندر گھس گئی۔ فضائی آلودگی کے خدشے کے پیش نظر گاڑیاں تاج محل کے قریب لے جانے کی ممانعت تھی۔

 

عباس سیال 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

اے محبت زندہ باد:آگرہ قلعے سے باہر نکلنے اور گاڑی میں واپس سوار ہونے تک دوپہر کے تقریباًایک بج چکے تھے۔ ہماری گاڑی آگرہ شہر کے پررونق علاقوں سے گزرتی ہوئی تاج محل کی طرف دوڑی چلی جا رہی تھی۔جوں جوں تاج محل قریب آرہاتھا ، سیاحوں کاشوقِ تجسس بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ بشیر خان ایک بار پھر کھڑ ے ہوکر سیاحوں کو بتانے لگے تھے کہ تاج محل سے ایک میل کی دوری پر بس اسٹینڈ کے قریب گاڑی روک دی جائے گی اور وہاں سے سب الیکٹرک رکشوں کے ذریعے تاج تک پہنچیں گے ۔ رکشہ والے فی کس دس روپے کرایہ وصول کرتے ہیں،ا س کے علاوہ اُونٹ گاڑیاں بھی چلتی ہیں اور اگر آپ چاہیں تو چھ سات سو میٹر کا فاصلہ پیدل چل کر بھی طے کیا جا سکتا ہے ۔ اس احتیاط کا مقصد تاج محل کی عمارت کو گاڑیوں کے دھوئیں،زہریلی کاربن اور گرد آلود فضا سے بچاناہے۔آگرہ کے قریب ایک آئل ریفائنری تھی جس کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں تاج محل کے سفید ماربل کی چمک کو ماند کر رہا تھا ،کچھ عرصہ پہلے اس آئل ریفائنری کو بند کر دیا گیا ہے ۔

            باتوں کے دوران بشیر خان نے گاڑی کے اندر بیٹھے سیاحوں سے پوچھا کہ تاج محل کا کیا مطلب ہے ؟۔ ہر کوئی ہونقوں کی طرف گائیڈ کو تکے جا رہا تھا۔اسی دوران گائیڈ نے ویسٹ انڈین سیاح رچرڈ سے تاج محل کا مطلب پوچھا ؟۔ رچرڈ اپنی اور بیوی کی پندرہ سو روپے والی دو ٹکٹیں لینے کے بعد پہلے ہی بیزار بیٹھا تھا ،فوراًبول پڑا:

For me Taj Mahal is twenty rupees for indians & seven hundred fifty rupees for foreigners… "

             رچرڈکے بے ساختہ مگر طنزیہ جواب پر گاڑی کے اندر قہقہے پھوٹ پڑے ۔بشیر خان بھی پہلی بار خوب کھلکھلا کر ہنسے اور پھر سب کو بتانے لگے کہ تاج محل پریت کی ایک ایسی نشانی ہے جسے روئے زمین پر پریم اور آرٹ کی سب سے بڑی علامت سمجھا جاتا ہے ،مگر میںپریمی جوڑوں سے گزارش کروں گا کہ تاج محل کے قریب پہنچ کر ذرا احتیاط سے کام لیجئے گاکیونکہ حال ہی میں پریم کی شادی کے ناکام ہونے پرایک پریمی جوڑے نے تاج محل کے سامنے تیز دھار آلے سے اپنی اپنی شہ رگیںکاٹ ڈالی تھیں ۔ اس خودکشی کے پیچھے کیا محرکات تھے؟ خان صاحب نے ازرائے مذاق بات کہی تھی مگروہ بکرم سنگھ سے اس سوال کی توقع ہرگز نہیں کر رہے تھے۔ دونوں کی خون میں لت پت لاشوں کے ساتھ ایک رقعہ پڑا ملا تھا جس پر یہ الفاظ درج تھے ۔”ہمارے ماتا پتا ہماری شادی پر کبھی را ضی نہیں ہوں گے اور دنیا میں ہمارے درمیان دھرموں کی دیوار ہمیشہ قائم رہے گی ،اسی لئے ہم دونوں نے مل کر فیصلہ کیا ہے کہ کیوں نہ ہم ہمیشہ کیلئے ایک ہو جائیں “۔ہندوستانی سماج میں ذات پات ،برادری اور دھرم سے باہر شادی ممنوع ہے اور اُن دونوں نے شاید اپنے اپنے والدین کو شادی پر آمادہ کرنے کی پوری کوشش کی ہوگی لیکن وہ دھرم کی دیوار نہ گراسکے اور نتیجتاً دونوں نے مل کر خودکشی کر لی۔خودکشی کے اس واقعے کے بعد میں سوچنے لگا کہ دھرم، ذات پات، برادری اور اسٹیٹس جیسے پیمانے صرف ہندوستانی سماج تک محدود نہیں بلکہ ہمارے پاک و ہند میں یہ معیار مدتوں سے کارفرما ہے۔ اگر دھرم ایک دوسرے کے ساتھ مل بھی جائیں تو پھر ذات پات، برادری،قوم،نسل اور اسٹیٹس کو معیار اور برترپیمانہ سمجھا جاتا ہے اور اگر کوئی جوڑا اِن سماجی اصولوں سے روگردانی کا مرتکب ہو تو انہیں غیر ت کے نام پر قتل کر دیا جاتاہے۔راجہ انور جھوٹے روپ کے درشن میں کیا خوب لکھتے ہیں کہ ”شادی ایک جنسی کاروبار ہے،چھوٹے لوگ چھوٹی دکان سے اور بڑے لوگ بڑی دکان سے اپنے لئے جنس خریدتے ہیں“۔

            جب تاج محل چند سو میٹر کے فاصلے پر رہ گیا تو ہماری گاڑی ایک بس اسٹینڈ کے اندر گھس گئی۔ فضائی آلودگی کے خدشے کے پیش نظر گاڑیاں تاج محل کے قریب لے جانے کی ممانعت تھی۔آگرہ بس اسٹینڈ کے اردگرد کی جگہ صاف نہیں تھی۔ جا بجا کچرے کے ڈھیر، مکھیوں کی بہتات اور بکھری غلاظتیں۔ آگرہ میں صفائی ستھرائی کا معیار واقعی گیا گزرا تھا۔ آگرہ قلعہ دیکھنے کے بعد خان صاحب گاڑی کے اندر تاج محل کی ٹکٹیں سیاحوں میں تقسیم کر چکے تھے تاکہ قطاروں میں کھڑے ہونے کی کوفت سے بچا جا سکے،چونکہ خان صاحب سے دوران سفر دوستی ہو چکی تھی اسی لئے انہوں نے میری کچھ اس طرح سے مدد کی کہ آگرہ قلعہ اور تاج محل کی عام ہندوستانی ٹورسٹ والی ٹکٹیں میرے ہاتھوں میں تھما کردونوں بار میرے سات سوروپے بچائے ،کیونکہ تاج محل کی ٹکٹ ہندوستانی سیاحوں کیلئے بیس روپے جبکہ غیر ملکی سیاح کیلئے750روپے فی کس (پندرہ سو روپے پاکستانی) تھی۔گاڑی سے اتر کر ایک د و رکشے والوں کو روکنے کی پوری کوشش کی مگر وہ نہیں رُکے توگائیڈ کے ہمراہ پیدل چلنے کا ارادہ کیا۔تاج محل کی طرف جانے والی سڑک جگہ جگہ سے ٹوٹی پھوٹی اور کٹی ہوئی تھی۔سڑک کے کچھ حصے زیر ِ ِتعمیر تھے ۔بشیرخان نے بتایا کہ ہم اس وقت جس علاقے میں چل رہے ہیں اِسے تاج گنج کہا جاتا ہے، آگرہ کا یہ علاقہ مسلمانوں کا گڑھ ہے ۔اگر بشیر خان نہ بھی بتاتے تب بھی اردگرد کے ماحول اور چاروں اطراف پھیلی غربت بتا رہی تھی کہ یہ ہندوستان کا مسلم اکثریتی علاقہ ہو سکتا ہے۔میرے سوال پر کہ آگرہ میں مسلمانوں کی اوسطاً آبادی کتنی ہو گی۔بشیر خان نے چلتے چلتے جواب دیا ۔ تقسیم کے بعد آگرہ اب ہند واکثریتی علاقہ بن چکا ہے ،جہاں ایک اندازے کے مطابق ہندو 80% اور بمشکل 15% مسلمان ملیں گے اور آپ کو اُن کے چہروں پر افلا س کی گہری چھاپ بھی دکھائی دے گی۔ہندوستانی مسلمانوں کی پسماندگی کی وجہ کیا ہند وتعصب تو نہیں؟ کہیں کہیں ہندو تعصب بھی ہے جو ہندوستان کے دیہی علاقوں میں زیادہ ہے ، مگر میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ ہم ہندوستانی مسلمان اپنی بدحالی اور پسماندگی کے خود ذمہ دار ہیں ۔ وہ کیسے؟وہ ایسے کہ ہم ہندوستانی مسلمان تعلیم حاصل نہیں کرتے اسی لئے ہندوﺅں سے بہت پیچھے ہیں۔ آگرہ کے بیشتر مسلمان غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اوریہاں پرسائیکل ریڑھے اور رکشے زیادہ تر مسلمان ہی چلاتے ہیں، اس کے بر عکس ہندو پڑھے لکھے ، مالدار اور صنعتکار لوگ ہیں ۔

جاری ہے۔۔۔۔

 

یہ بھی پڑھیے:

دلی دل والوں کی (قسط22)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط21)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط20)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط19)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط18)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط17)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال

عباس سیال کی دیگر تحریریں پڑھیے


مصنف کا تعارف

نام:  غلام عباس سیال

 تاریخ پیدائش:  دس جنوری 1973
 مقام پیدائش:  ڈیرہ اسماعیل خان
 تعلیم:  ماسٹر کمپیوٹر سائنسز، گومل یونیو رسٹی، ڈیرہ اسماعیل خان 1997
ٍ  ماسٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ، سڈنی یونیورسٹی، آسٹریلیا2009
 ڈپلومہ اِن جرنلزم، آسٹریلین کالج آف جرنلزم2013
 عرصہ 2005ء سے تاحال آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم۔
کتابیں
 ۱۔ خوشبو کا سفر    (سفرنامہ حجا ز)  دوبئی سے حجاز مقدس کا بائی روڈ سفر۔  اشاعت کا سال 2007۔
پبلشر: ق پبلشرز، اسلام آباد۔
۲۔  ڈیرہ مُکھ سرائیکستان (موضوع:  سرائیکی صوبے کے حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت)۔ اشاعت کا سال 2008،   پبلشر: جھوک پبلشرز، ملتان۔
 ۳۔  گُلی کملی کے دیس میں (موضوع: صوبہ سرحد کے پرامن شہر ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں اَسی، نوے کی دھائی کا آنکھوں دیکھا حال)،سن اشاعت  2010: پبلشر: ق پبلشر، اسلام آباد
۴۔  کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک  (سفرنامہ)  ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی مقام کافر کوٹ سے بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان، بہاولپور اور چولستان کے قلعہ ڈیراول تک کا سفر۔  سن اشاعت  2011۔ پبلشر:  جھوک پبلشرز، ملتان
۵۔  ذائقے فرنٹئیر کے (تقسیم ہند سے قبل صوبہ سرحد کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے کھانوں پر ہندی میں لکھی کتاب کا اردو ترجمہ) ۔  یہ کتاب مارکنگ پبلشرز، کراچی  سے بیک وقت ہندی، اردو میں شائع ہوئی تھی۔ دائیں طرف اردو، بائیں طرف ہندی تھی اور دراصل اس کتاب کی مصنفہ پُشپا بگائی تھیں، جن کا بچپن ڈیرہ اسماعیل خان میں گزرا تھا اور وہ تقسیم کے بعد دہلی ہجرت کر گئی تھیں۔ انہوں نے ہندی زبان میں ڈیرہ اسماعیل خان کے لذیذ کھانوں پر کتاب لکھی تھی اور ان کی موت کے بعد اس کے بیٹے اتل بگائی  جو  بنکاک میں  مقیم ہیں اور یو این او میں  جاب کرتے ہیں۔  انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کی کتاب کو اردو، ہندی دونوں زبانوں میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ ہندی نسخہ انہوں نے مجھے بھیجا تھا۔ سڈنی میں ایک بزرگ  ہندو  شری لچھمن ٹُھکرال نے ہندی سے اردو ترجمعہ کرنے میں پوری مدد کی تھی اور پھر  اتل بگائی نے کتاب کو  کراچی سے چھپوایا تھا۔کتاب کو چین کے انٹرنیشنل بُک فئیر میں  امن کے مشترکہ ایوارڈ (پاکستان و ہندوستان)  سے نوازا گیا تھا۔ سال اشاعت 2013،  ناشر:  مارکنگز پبلشنگ کراچی
۶۔  جو ہم پہ گزری۔   (موضوع:  پاکستان ٹیلی ویژن کی نامور فنکارہ عظمیٰ گیلانی کی زندگی اور ان کے کیرئیر پر لکھی کتاب، جسے اباسین آرٹ کونسل پشاورکے 2013-2014  کے ادبی ایوارڈ(تحقیق و تالیف کے جسٹس کیانی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا)۔سن اشاعت: جنوری 2014۔ پبلشر: ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۷۔  برٹش عہد 1893 ء  میں کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان مسٹر ٹکر کے لکھے ہوئے گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان کا اردو ترجمعہ۔
اشاعت  2015  ۔   ناشر:  ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۸۔  انگریز محقق  ٹی ڈبلیو ایچ ٹولبوٹ کی لکھی کتاب  دا  ڈسٹرکٹ  آف ڈیرہ اسماعیل خان  ٹرانس انڈس 1871،   کا اردو ترجمعہ۔  اشاعت  2016۔   پبلشر: سپتا سندھو  پبلکیشنز، ڈیرہ اسماعیل خان
۹۔  دِلی دل والوں کی (سفرنامہ دِلی)   سڈنی سے نئی دہلی تک کا سفر۔  اشاعت  اگست2018۔
پبلشر:  ق  پبلکیشنز، اسلام آباد

%d bloggers like this: