اپریل 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اردو زبان کا عجوبہ||رضاعلی عابدی

اردو کی دنیا میں ایک بڑا کام بڑی ہی خاموشی سے ہوگیا۔ اس زبان کو فروغ دینے کے کام میں سات آٹھ برس سے مصروف ریختہ فاؤنڈیشن نے تین زبانوں کی لغت ترتیب دے کر دنیا کے لئے بلا معاوضہ کھول دی۔لغت بھی ایسی کہ اگر کوئی پوچھے کہ اس میں کیا ہے تو جواب یہی ہوگا کہ اس میں کیا نہیں ہے۔

رضاعلی عابدی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اردو کی دنیا میں ایک بڑا کام بڑی ہی خاموشی سے ہوگیا۔ اس زبان کو فروغ دینے کے کام میں سات آٹھ برس سے مصروف ریختہ فاؤنڈیشن نے تین زبانوں کی لغت ترتیب دے کر دنیا کے لئے بلا معاوضہ کھول دی۔لغت بھی ایسی کہ اگر کوئی پوچھے کہ اس میں کیا ہے تو جواب یہی ہوگا کہ اس میں کیا نہیں ہے۔

اس دل چسپ تفصیل میں جانے سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ لغت کے معاملے میں اردو غریب زبان رہی ہے۔ اس کی عمر ابھی مشکل سے چار سو سال ہوئی ہے۔ مگر چوںکہ ہر خاص و عام کی زبان رہی ہے،شروع میں کچھ غیر ملکی حکمرانوں نے اس کی ڈکشنری کی شدید ضرورت محسوس کی اور اردو میں لغت نویسی شروع ہوئی ۔اس کے بعد ہی بر صغیر کے اکابرین نے اس کام کو آگے بڑھایا مگر پھر یوں لگا کہ یہ کام جہاں تھا وہیں رُک گیا۔ بدلتے وقت کے ساتھ اردو کی لغت قدم ملا کر نہ چل سکی۔انگلستان کی مثال سامنے رکھیں تو صورت حال یہ ہے کہ مشہور اور نام ور ڈکشنریوں کے ہر سال نئے ایڈیشن نکلتے ہیں اور وہ بھی اس شان سے کہ اخباروں میں خبر چھپتی ہے کہ اس سال لغت میں کتنے اور کیسے نئے لفظ شامل ہوئے ہیں۔اور جب سے ڈکشنری کاغذ کی کتاب سے نکل کر انٹرنیٹ پر نمودار ہوئی ہے، اس کی چال ہی بدل گئی ہے اور اس میں اتنی نئی نئی خوبیاں شامل ہوتی گئی ہیں کہ ان کی فہرست ختم ہونے کو نہیں آتی۔ ان خوبیوں کو بیان کرنے میں یوں آسانی ہورہی ہے کہ ریختہ فاؤنڈیشن کی تین زبانو ں کی ڈکشنری میں وہ ساری خوبیاں صف آرا نظر آتی ہیں۔

ہر گھر میں ، ہر کمپیوٹر اور اسمارٹ ٹیلی فون پر آسانی سے دستیاب اس ڈکشنری کی پہلی او ر بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ بالکل جدید ہے اور اس کا دامن اس طرح کشادہ ہے کہ اس میں ہر روز نئے نئے اضافے کئے جا سکتے ہیں۔ زندہ زبانیں تو یوں بھی پارے کی طرح مچلتی رہتی ہیں، ان کی لغت کے کسی ایڈیشن کو آخری اور حتمی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ریختہ کی ڈکشنری ہر چند کہ مکمل ہوکر عوام کے لئے کھول دی گئی ہے مگر اس میں اضافوں اور ردو بدل کا کام جاری ہے اور یہ کام رکنے کا کوئی سبب نظر نہیں آتا۔

وقت اتنی تیزی سے بدلا ہے کہ یقین نہیں آتا کہ لغت میں لفظ ڈھونڈنا کتنا آسان ہو سکتا ہے۔ ریختہ کی ڈکشنری میں ، جسے ہم اردو ، ہندی اور انگریزی کی لغت کہہ سکتے ہیں،ہمیں اپنے مطلوبہ لفظ پر کلک کرنا ہوتا ہے۔ بس اس کے ساتھ ہی اُس لفظ کا ایک جہاں آشکار ہو جاتا ہے۔اوّل تو لفظ کے سارے معنی سامنے آجاتے ہیں۔ پھر یہ کہ وہ لفظ کیسے استعمال کیا جاتا ہے، اس کی مثالیں وہیں مل جاتی ہیں۔اس کے بعد ہر لفظ کے تلفظ کا معاملہ ہے۔ گزرے زمانوں میں کیسے کیسے جتن کرکے تلفظ لکھے جاتے تھے۔ اس جدید لغت میں تلفظ صاف سنا جاسکتا ہے۔پھر یہ کہ وہ لفظ اردو ، ہندی اور رومن حروف میں کیسے لکھا جاتا ہے۔ اردو میں زیر زبر پیش اور دوسری علامتوں کے استعمال کا رواج کم ہے لیکن ہندی اور انگریزی حروف صاف لہجے میں لفظ ادا کرسکتے ہیں۔

یہی نہیں، اس لغت میںمطلوبہ لفظ کے نہ صرف اردو بلکہ ہندی اور انگریزی زبانوں میں معنی بھی شامل ہیں۔اس میں قدیم روایت کی طرح مطلوبہ لفظ شاعروں نے کس کس طرح باندھا ہے ،اس کی جدید اور کلاسیکی مثالیں بھی درج ہیں۔پھر یہ کہ لفظ کہاں سے چلا اور وقت کے ساتھ اس نے کیسی کیسی شکلیں بدلیں،ڈکشنری لفظوں کے حسب نسب تک چلی جاتی ہے۔ایک اور خوبی جس کا بیان ضروری ہے ،یہ کہ آپ کے مطلوبہ لفظ سے ملتے جلتے دوسرے الفاظ یا بالکل برعکس معنی دینے والے لفظ بھی درج ہیں۔یہی نہیں، زبان میں تیکھا پن شامل کر نے والی کہاوتیں اور ضرب الامثال اور روزمرہ کی گفتگو کے رنگ اور ڈھنگ بھی شامل ہیں۔اور جب سب کچھ مل جائے تب بھی اگر ہم وزن اور ہم قافیہ لفظوں کی جستجو باقی رہ گئی ہو تو ریختہ کی اس شان دار کاوش میں وہ بھی خوب خوب موجود ہے(جو شعر کہنے والوں کے لئے کسی نوید سے کم نہیں)۔

میں بڑے فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ میرے پاس فرہنگ آصفیہ، نور اللغات اور خواجہ عبدالحمید کی بے مثال جامع اللغات موجود ہیں۔ ان سے پہلے انگلستان سے آئے ہوئے جان پلاٹس نے خالص سائنسی بنیادوں پر لغت ترتیب دینے کا کارنامہ سرانجام دیا جس سے استفادہ کرتے ہوئے برصغیر کے اکابرین نے اپنے طور پر جدید لغت ترتیب دی مگر یہ بہت بڑا کام یہیں رُک کر رہ گیا۔ان حضرات نے کیسی کیسی مشقت کے بعد اپنی چار چار جلدیں چھاپیں اور بازار میں فراہم کیں۔اس کے بعد ان پر وقتاًفوقتاً نظر ثانی کرنے اور نئے نئے ایڈیشن نکا لنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ یہ کام یہیں رک گیا جب کہ زبان وقت کے گھوڑے پر سوار سرپٹ چلتی رہی۔ انٹرنیٹ نے اس پوری کارروائی کی نوعیت ہی بدل ڈالی۔ اردو میں تھیسارس کا تصور نہ تھا اور متبادل لفظ تلاش کرنے کے جو اسباب وضع کئے گئے وہ ناقص تھے،لیکن نئے زمانے کی اس ایجاد نے نہ صرف پرانی ڈکشنریوں بلکہ تھیسارس اور انسائیکلو پیڈیا کو بھی مات دے دی۔سنا ہے آکسفورڈ نے اپنی ڈکشنری اور بریٹانیکا نے اپنا انسائیکلو پیڈیا چھاپنا بند کردیا ہے۔ اب میں ہوں اور میرے سامنے روشن لیپ ٹاپ کیا کھلا ہے ، ایک دنیا کھل گئی ہے۔ ہر لفظ حاضر ہے اور اپنی گوناگوں خوبیوں کا بے دھڑک مظاہر ہ کر رہا ہے۔اردو غریب اس میدان میں پیچھے رہی جارہی تھی سو ریختہ فاؤنڈیشن والے کمر باندھ کر اس میدان میں اترے اور اس ناؤ کو پار لگا کر دم لیا۔وہ بھی اس شان سے کہ یہ کام کہیں رکنے والا نہیں۔ کمپیوٹر کی ادایہی ہے کہ نبض کی طرح چلتا رہتا ہے، اس کی ذرا دیر کو آنکھ بھی نہیں لگتی۔ ڈکشنری کا لنک یہ ہے:

rekhtadictionary.com

جمہوریت تماشا بن گئی۔۔۔رضاعلی عابدی

مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی

کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی

جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی

رضا علی عابدی کی دیگر تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: