مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملتانیوں کی اُداسی||حیدر جاوید سید

فقیر راحموں ایسے ہر موقع پر کہتا ہے شاہ جی، تم بس میراایک کام ضرور کرنا۔ وہ کیا، دریافت کرنے پر کہتا ہے، مستقل پڑائو اٹھ جائے تو مجھے ملتان کی مٹی میں سپردخاک کرنا تاکہ مٹی مٹی سے مل جائے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چند دن اُدھر لگ بھگ پانچ ماہ امڑی کے شہر ملتان میں بسر کرکے لاہور واپسی ہوئی تب سے اب تک امڑی کے شہر سے ایک بار پھر بچھڑنے کی اداسی کے حصار میں ہوں۔
اماں کے شہر میں مسافروں کی طرح قیام کرنا اور سامان باندھ کر رخصت ہولینا کتنا عجیب لگتا ہے۔
ملتان سے رخصتی سے قبل ملتانی منڈلی سجی تو ساجد رضا تھہیم کہنے لگے شاہ جی ’’ہم نے سوچا تھا اب کی بار مستقل پڑائو ہوگا، چلیں کوئی بات نہیں اللہ صحت و سلامتی کے ساتھ رکھ ہم ملتے رہیں گے ہمیشہ کی طرح‘‘۔
دوستوں کا حلقہ وسیع ہے یہی دوست اس تحریر نویس کی طاقت ہیں کیوں نہ ہوں، دوست ہوتے ہی اس لئے ہیں کہ ان پر فخر کیا جائے۔ ملتان منڈلی ہو کہ کامریڈ دلاور عباس صدیقی کی ملتانی سنگت یا باقی ماندہ ملتانی دوست، سبھی پچھلے دو دن سے بہت یاد آرہے ہیں۔
کورونا کی ا بتر صورتحال اورکچھ طبیعت کی ناسازی حائل نہ ہوتی تو ایک چکر امڑی کے شہر کا لگا ہی لیتا۔
بڑے بزرگ کہا کرتے تھے، ملتانی جہاں بھی جابسے اس کے اندر کا ملتانی اسے ملتان سے باندھ کر رکھتا ہے۔
ویسے تو ہر شخص کو اپنے جنم شہر سے ایک خاص لگاو ہوتا ہے لیکن ہم ملتانی تو ملتان سے عشق کرتے ہیں۔
میں جب بھی حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے اس کلام کو سنتا ہوں ’’میڈا عشق وی توں، ایمان وی توں‘‘ تو شاعر کے مصداق کے برعکس میرے ذہن میں ’’توں‘‘ کی جگہ ملتان ہی رہتا ہے۔
کئی ہزاریوں سے زندہ آباد یہ شہر ہے ہی اس قابل کہ اس سے عشق کیا جائے۔
ملتانیوں کی تاریخ کا چہرہ پرہلاد کا ’’دانش کدہ‘‘ بابری مسجد کے بدلے کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اسے کھنڈر بنانے والوں کا کچھ نہیں گیا۔ ملتانی تاریخ بے چہرہ ہوگئی۔
ملتان کے تین مقامات پر اس مسافر ملتانی کو ہمیشہ سکون ملا۔ امڑی کے گھر (اب گھر کی جگہ ان کی تربت نے لے لی ہے) پرہلاد کے دانش کدہ کے سائے میں بیٹھ کر تاریخ سے باتیں کرنا اور سیدی شاہ شمس سبزواریؒ کی خانقاہ پر حاضری۔
سکون فراہم کرنے والے اور بھی مقامات بہت ہیں۔ زندہ ملتانی دوست اللہ ان کو شادوآباد رکھے،
آستانہ عالیہ حیدریہ شاکریہ کتاب نگر۔ جہاں ہمہ وقت آپ کو برادرم شاکر حسین شاکر مسکراتا ہوا ملے گا۔ ملاقات مختصر ہو یا کچھ طویل، کتابوں، صاحبان کتب اورتاریخ پر ایسی دلنشیں گفتگو سننے کو ملے گی کہ سرشاری اپنے حصار میں لے لے گی۔
کچھ دنوں سے علیل ہوں اس علالت کے باعث ڈاکٹر کے مشورے پر چلنے پھرنے کے لئے ہاتھ میں چھڑی پکڑلی ہے۔ گو یہ انتظام عارضی ہے لیکن کل جب میں چھڑی کا سہارا لے کر اپنے کمرے سے لائبریری تک گیا تو درمیان میں لگے ایک آئینہ میں خود کو دیکھنے کے لئے ساعت بھر کے رک گیا۔
ان ایک دو ساعتوں میں مجھے ایسا لگا کہ دوسری طرف میرے بابا جان شہید سید محمود انور بخاری کھڑے ہیں۔ کیا عزم و حوصلے والے انسان تھے ہمارے بابا جان۔ ہمارے ماموں جان پیر سید محمد شاہؒ کہا کرتے تھے، اولاد باپ کا سایہ ہوتی ہے۔ کل حقیقت میں ان کی یہ بات سمجھ میں آئی۔
اپنے حالیہ قیام ملتان کے دوران میں انگنت بار اپنی امڑی جان کی تربت پر حاضر ہوا اور جی بھر کے باتیں کیں۔ اب امڑی کی تربت کی تصویر دیکھ کر باتیں کرلیتا ہوں۔
ماں تو دنیا سے رخصت ہوکر بھی اولاد کی آنکھوں اور سینے میں قیام کرتی ہے۔ ماں جو ہوئی اور ماں کا نعم البدل تو کائنات میں اور کوئی بھی نہیں۔
میرے ملتانی دوست ہوں یا دوسرے دوست، یہ سب میرے لئے محترم اور لائق احترام ہیں۔ چند دن ہوتے ہیں جب ایک برادر عزیز نے طنز فرمایا تھا، چلیں خیر کوئی بات نہیں تعلق ایک آدھ طنز کیا اس تلخ باتوں اور طنز سے ختم تھوڑا ہی ہوجاتے ہیں۔
جب سے امڑی کے شہر سے واپسی ہوئی ہے اپنی علالت کے باوجود زیادہ وقت لائبریری میں بسر کرتا ہوں۔
کتابوں کے ا وراق الٹتا پڑھتا ہوں۔ روزی روٹی کے لئے حرف جوڑتا ہوں۔ ویسے مجھے اس سے سوا کوئی اور کام بھی نہیں آتا۔
گزشتہ سے پیوستہ شب ایک دوست نے ٹیلیفون پر عیادت کرتے ہوئے کہا، یار شاہ جی ہمت نہ ہارنا۔ عرض کیا میں کون سا کوہلو کے بیل کی جگہ جوت دیا گیا ہوں۔
پچھلی سپہر ملتانی منڈلی کے دوستوں نے واٹس ایپ پر محبت بھرے پیغاموں کے ذریعے حوصلہ بڑھایا۔
اچھا ویسے میں کیس اور موضوع پر کالم لکھنا چاہتا تھا، قلم رواں ہوا تو یہی لکھا گیا جو آپ اب تک پڑھ آئے ہیں۔
میں ان دنوں اپنی آپ بیتی پر کام کررہا ہوں۔ دنیا جہاں کے احوال ہیں اس میں لیکن جب ملتان کا ذکر آتا ہے تو پتہ نہیں کیوں آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
ایسے موقع پر میں اپنے اندر آباد ملتان سے پوچھتا ضرور ہوں، یار ابھی تو رزق سے بندھی ہجرتیں ہیں، جس دن سچ سے تجھ سے بچھڑ گئے پھر کیا ہوگا۔
فقیر راحموں ایسے ہر موقع پر کہتا ہے شاہ جی، تم بس میراایک کام ضرور کرنا۔ وہ کیا، دریافت کرنے پر کہتا ہے، مستقل پڑائو اٹھ جائے تو مجھے ملتان کی مٹی میں سپردخاک کرنا تاکہ مٹی مٹی سے مل جائے۔
کاش ایسا ہوسکے۔ کالم کے دامن میں گنجائش ختم ہوئی، اللہ کریم ملتان اور ملتانیوں کو ہمیشہ شادوآباد رکھے، آمین۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: