اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہجومی تشدد کا جواب ریاستی تشدد نہیں ہے ||عامر حسینی

اگر ہجومی تشدد، بلوہ، راستوں کو بند کرنا، شہری املاک کو نقصان پہنچانا اور ایسے ہی پولیس پہ تشدد کرنا غیر قانونی ہے اور قابلِ دست اندازی پولیس ہے تو تھانے میں لیجاکر ایسے تشدد کرنا، تھرڈ ڈگری استعمال کرنا بھی غیرقانونی ہے-

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریک لبیک پاکستان کے گرفتار کارکنوں کے خلاف پنجاب پولیس کی تھرڈ ڈگری کے استعمال کی کچھ وڈیو کلپس سوشل میڈیا پہ گردش کررہی ہیں اور بہت سارے لبرل، لیفٹ، انسانی حقوق کے علمبردار اُن کلپس کو شیئر کرکے "سافٹ وئیر اَپ ڈیٹ” یا اسی طرح کے اور جُملے لکھ رہے ہیں، ایک وڈیو میں گرفتار کئی نوعمر بچے بھی ہیں نظر آرہے ہیں جن کو ایک ہی بیرک میں بند کیا گیا ہے –
اس موقعہ پہ کسی بھی انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے ایسا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا جس میں یہ کہا گیا ہو کہ گرفتار شدگان کے خلاف تھرڈ ڈگری کا استعمال نہ کیا جائے، کم سن قیدیوں کو بالغوں کی بیرک میں نہ رکھا جائے، کورونا ایس و پیز کا دھیان رکھا جائے-
مجھے اس طرف توجہ اس لیے دلانا پڑ رہی ہے کہ ماضی میں انسانی حقوق کی تنظیمیں، لبرل، لیفٹ خواتین و حضرات دہشت گرد تنظیموں، مذھبی انتہاپسند تنظیموں سے وابستہ کارکنان کے خلاف ماورائے آئین و قانون کاروائیوں کے خلاف مذمتی بیانات جاری کرتی رہی ہیں اور انھوں نے اس حوالے سے کافی آواز بلند کی – لیکن اب خاموشی کیوں ہے؟
اگر ہجومی تشدد، بلوہ، راستوں کو بند کرنا، شہری املاک کو نقصان پہنچانا اور ایسے ہی پولیس پہ تشدد کرنا غیر قانونی ہے اور قابلِ دست اندازی پولیس ہے تو تھانے میں لیجاکر ایسے تشدد کرنا، تھرڈ ڈگری استعمال کرنا بھی غیرقانونی ہے-
سوشل میڈیا پہ سول سوسائٹی کے اشراف مذھبی جنونیت کے نظریہ سازوں کی طرف سے نوجوان نسل کی برین واشنگ کرنے پہ لمبے لمبے بھاشن دیتے ہیں اور ہر دوسرا تیسرا فرد ماہر نفسیات بنا ہوتا ہے اور کہہ رہا ہوتا ہے کہ مذھبی انتہاپسند ذہنی بیمار ہوتا ہے، اُس کی برین واشنگ کی گئی ہوتی ہے، اُس کو رہاب سنٹر کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب اس طرح کے اقدام اٹھانے کا موقعہ آتا ہے تو پھر یہ سب غائب اور بلوائی تشدد کے مقابل ریاستی تشدد کی حمایت کی جاتی ہے –
تحریک لبیک کی طرف سے جو ہجومی تشدد سامنے آیا اُس دوران سوشل میڈیا پہ خود کو لبرل/ترقی پسند/ لیفٹ/اعتدال پسند مسلمان بتلانے والے کئی ایک تو ریاست اور حکومت سے مطالبہ کررہے تھے کہ ان لوگوں پہ توپ، ٹینک، زرہ بکتر گاڑیاں چڑھادیں اور گولیوں سے بھون ڈالیں – اب جب پولیس نے آپریشن کرکے مبینہ بلوائیوں کو پکڑا ہے تو پولیس کی تحویل میں قیدیوں کے ساتھ غیرقانونی اور غیرانسانی سلوک پہ احتجاج کرنے کی بجائے اور پولیس سے قانون کے دائرے میں رہنے کا مطالبہ کرنے کی بجائے شرمناک تشدد، غیرانسانی سلوک ہونے پہ اظہار مسرت کیا جارہا ہے-
مجھے سب سے زیادہ حیرت اُن لبرل لوگوں پہ ہے جو کل تک طالبان کے خلاف فوجی آپریشنز کے دوران انسانی حقوق کی پامالی پہ سراپا احتجاج تھے وہ آج قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک پہ تالیاں پیٹ رہے ہیں –
میرا تو یہ مطالبہ ہے کہ جن نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے اُن کی کونسلنگ کے لیے ماہرین نفسیات کو ہائر کیا جائے اور اُن کے لیے رہاب سنٹر قائم کیا جائے – روشن خیال اسلامی اسکالرز ان کو تعلیم دیں اور پھر ان کو معاشرے میں بھیج دیا جائے – انتہا پسندی کا جواب انتہاپسندی نہیں ہوا کرتا ہے-

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: