مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اُمت سیدِ لولاکؐ کے لئے لمحہ فکریہ!||حیدر جاوید سید

نجی املاک کو نقصان پہنچایا گیا، ملک میں چارسو سے زائد پولیس اہلکار وافسران بلوائیوں کے ہاتھوں زخمی اور لاہور میں دو پولیس اہلکار جاں بحق ہو گئے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ تین دنوں میں پنجاب اور سندھ سمیت بعض دوسرے علاقوں میں جو پرتشدد احتجاج ہوا اس پر خون کے آنسو بہانا بھی بیکار ہے۔
افسوس کہ سرکارِ دوعالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کی بجائے وہ راستہ اختیار کیا گیا جس سے مسائل پیدا ہوئے۔
نجی املاک کو نقصان پہنچایا گیا، ملک میں چارسو سے زائد پولیس اہلکار وافسران بلوائیوں کے ہاتھوں زخمی اور لاہور میں دو پولیس اہلکار جاں بحق ہو گئے۔
پرتشدد مظاہروں’ جلاو گھیراو اور وحشیانہ تشدد کی درجنوں ویڈیوز سوشل میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ بدقسمتی سے یہ سب اس مکتبہ فکر کے لوگوں کے ہاتھوں ہوا جو برصغیر میں بریلوی سنی مگر دنیا بھر میں مجموعی طور پر صوفی سنی کی شناخت رکھتے ہیں۔
صلح کل کی فہم پر استوار اس مکتب میں تشدد کا رجحان کیوں اور کیسے پروان چڑھا اس کے پس منظر پر بحث کیلئے کالم کے دامن میں گنجائش نہیں ہے۔
آزادی اظہار اور احتجاج ہر کس و ناکس کا حق ہے لیکن دونوں کی اخلاقی حد وہاں تمام ہوتی ہے جہاں دوسرے کی حد شروع ہو،
صوفیائے کرام و اولیا اللہ کی تعلیمات کو پڑھتے اور ان کے فیض کے موتیوں سے دامن بھرتے اس طالب علم نے پچھلے چار عشروں کے دوران ان کالموں میں وحدت کل’ انسان دوستی کی ان تعلیمات کے سینکڑوں اقتباسات پڑھنے والوں کے استفادے کیلئے تحریر کئے۔
اس سبب مجھے یقین ہے کہ ان بزرگوں کی روحیں تڑپ رہی ہوں گی کہ ہمارے نام لیوائوں نے وہ سب کام کیوں کئے جن سے ہم زندگی بھر منع کرتے رہے۔
مرشد کریم سید بھلے شاہ فرماتے ہیں
”محبت وہ واحد جذبہ ہے جس سے دو عالم فتح کئے جا سکتے ہیں”۔
حضرت سچل سرمست فرماتے ہیں
"زبان کی تلخی سے بھی بچ کر جیو کہ اس سے نہ صرف تم لوگوں سے دور ہو جائو گے بلکہ یہ تلخی ایک دن زہر بن جائے گی”۔
تین دن کے پرتشدد ہنگاموں کے بعد حکومت نے ٹی ایل پی پر پابندی لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے، وزیراعظم کی منظوری سے پابندی کی سمری وفاقی کابینہ میں پیش کی جائے گی، ہمارے قابل احترام دوست اور مہربان پیر قاری نورالحق قادری ان دنوں وفاقی وزیر مذہبی امور ہیں، انہوں نے قبل ازیں معاملات کو سلجھانے کیلئے بھرپور کوششیں کیں۔ احتجاجی جماعت اور حکومت کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے پھر معاہدے بھی، حالیہ واقعات سے ایسا لگتا ہے کہ ”کوئی” اس معاہدوں کو سبوتاژ کرنے پر تلا ہوا تھا
وہ کون ہے، مقاصد کیا ہیں، تحقیقات ہونی چاہئے لیکن یہ بھی بدقسمتی ہی ہے کہ اُڑتی چڑیا کے پر گن لینے کے دعویدار بعض ادارے اس بات سے بے خبر رہے کہ جو تنظیم حکومت سے مذاکرات کر رہی ہے وہ پرتشدد و احتجاج کی تیاریوں میں بھی مصروف ہے۔
وزیراعظم نے بدھ کو اس بات کا خود بھی اظہار کیا کہ حکومت سے بات چیت کرنے والے ہنگامہ آرائی کا منصوبہ بھی بنا رہے تھے۔ سچ یہ ہے کہ جو ہوا بہت برا ہوا۔
علاقائی اور عالمی منظرنامے سے بے بہرہ لوگوں نے ایک ایسے وقت میں پرتشدد احتجاج کا دروازہ کھولا جب فیٹف کی پابندیوں کی تلوار ہمارے سروں پر لٹک رہی ہے۔
اس طور اگر یہ کہا جائے کہ حالیہ واقعات سے پاکستان کیخلاف عالمی طور پر منفی پروپیگنڈے کرنے والوں کو رزق ملے گا تو یہ غلط نہیں ہوگا۔
یہ عرض کرنے میں بھی رتی برابر تامل نہیں کہ 94فیصد مسلم آبادی والے ملک میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہلبیت عظامؑ اور صحابہ کرام رضوان اللہ سے محبت واحترام کی نعمت سے ہر کس وناکس مالا مال ہے۔
کوئی بھی مسلمان آقائے کریم وصادقۖ کی ناموس پر آنچ نہیں آنے دے سکتا۔
آپ حکومت سے جتنا بھی اختلاف رکھیں مگر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ناموس رسالتۖ کے حوالے سے اہل پاکستان کے جذبات کی ترجمانی وزیراعظم نے ہر اس فورم پر کی جہاں انہیں گفتگو کا موقع ملا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے موقع پر انہوں نے عالمی رائے عامہ کے سامنے یہ مؤقف رکھا کہ مسلمانوں کے جذبات کا احترام کیا جائے، یہاں تک کہ ایک موقع پر وزیراعظم عمران خان نے کہا اگر ہولوکاسٹ پر سوال اُٹھانا جرم بن جاتا ہے تو اقوام مغرب کو یہ سوچنا چاہئے کہ ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے حوالے سے کچھ عناصر کا منفی رویہ اور اس رویہ کا اظہار ایک ارب سے زائد مسلمانوں کی دل آزاری کا سبب بنتا ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حکومتیں اپنی ذمہ داری سے غافل نہیں ہوتیں البتہ کوئی حکومت نابالغ بچے کی طرح رویہ نہیں اپنا سکتی، یہی بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔
وفاقی حکومت اور خود وزیراعظم تحریری طور پر فرانس سے گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر احتجاج کر چکے ہیں، مزید کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے اس پر غور وفکر جاری ہے لیکن گزشتہ تین دنوں کے دوران جو کچھ ہوا اس سے اسلام، پاکستان اور مسلم فہم کا چہرہ مسخ ہوا۔
ہمیں افسوس ہی کرنا چاہئے ان مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کی سوچ پر جنہوں نے صرف حکومت مخالفت میں پرتشدد مظاہروں اور جلاؤ گھیراؤ کی حمایت کی۔
حرف آخر یہ ہے کہ ہم کیوں بھول گئے کہ آقائے صادق وکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا
”تم میں سے بہترین مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے”۔
گزشتہ تین دن کے ہنگاموں اور بلووں کو اس ارشاد کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات نہ ہونے پائیں

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: