اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خواجہ جلال الدین رومی کا جائز مطالبہ!!||سارہ شمشاد

خواجہ جلال الدین رومی جو سرائیکی خطے میں ایک مثالی کاشتکار کے طور پر شہرت رکھتے ہیں، کے تجربے سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے اور زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی راہ ہموار کی جانی چاہیے
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنوبی پنجاب کے معروف صنعت کار و مثالی کاشتکار اور حکومت کی طرف سے قائم پنجاب ایگری کلچر کمیٹی کے رکن خواجہ جلال الدین رومی کا کہنا ہے کہ اس سال حکومت پاکستان تقریباً 3ارب ڈالر کی کاٹن، چینی اور گندم درآمد کررہی ہے۔ اس حوالے سے پنجاب ایگری کلچر کمیٹی نے وزیراعظم کو چند سفارشات مرتب کرکے بھیجی ہیں جو وزیراعظم کو مل چکی ہیں۔ جلال الدین رومی کا کہنا ہے کہ کپاس 4500 روپے میں، مکئی، چاول کی پیداواری قیمت کا بھی تعین ہونا ہے۔ انہوں نے حکومت سے غیرملکی کمپنیوں کی بجائے پاکستانی کاشتکاروں کو 20سے 30 سالہ لیز پر دینے کا مطالبہ کیاہے۔ خواجہ جلال الدین رومی کا وزیراعظم کی جانب سے جلد زرعی پیکج کے اعلان سے وسیب کے باسیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے کہ چلو کہیں سے تو سیاسی اس گھٹن کے ماحول میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیاکیونکہ ہر طرف سے تکلیف دہ، مشکل اور سخت خبریں سن کر عوام پہلے ہی تنگ آچکے ہیں ایسے میں اگر اب انہیں کوئی اچھی خبر سننے کو مل جائے وہ اسے ہی غنیمت سمجھتے ہیں تاہم دوسری طرف یہ امر بھی تسلی بخش ہے کہ پنجاب ایگری کلچر کمیٹی کی سفارشات کی منظوری کے بعد توقع ہوچلی ہے کہ ایک زرعی ملک میں زراعت کے بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ پچھلے برس گندم، چاول، چینی کے بحران نے زرعی ملک کے دعویدار ہونے کی قلعی کھول کر رکھ دی کہ ملکی ضرورت کو پوری کرنے کیلئے بھی زرعی اجناس منگوانا پڑیں جس کے باعث ایک طرف تو عوام کو بدترین بحران کا سامنا کرنا پڑا تو دوسری طرف عالمی سطح پر بھی وطن عزیز کو سبکی کا سامناکرنا پڑا۔
پچھلے کچھ عرصے سے وزیراعظم کی جانب سے زرعی پیکیج کے جلد اعلان کی نوید سنائی جارہی ہے لیکن تاحال معاملہ جوں کا توں ہے۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ آج ہمارا کاشتکار اور کسان جس اضطراب میں مبتلا ہے یہ وہ اور اس کا خدا ہی جانتا ہے اور وہ ان مشکل حالات میں کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ ملکی کھاد، بیج اور مڈل مین کے چکروں نے غریب کاشتکاروں کو ایک گھن چکر کی طرح پھنسادیا ہے مگر کوئی اس کی سننے کو تیار نہیں یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں ایک بڑی تعداد میں کسان اور کاشتکار زراعت کا پیشہ ہی چھوڑ گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب چھوٹے کاشتکار کو کوئی بچت نہیں ہوگی تو وہ کیونکر اگلے برس کپاس، گندم اور گنا اگائے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کسمپرسی کے شکار کاشتکاروں کی داردرسی کی جاتی مگر ہمارے ہاں غریب کی سنتا ہی کون ہے کے مصداق چھوٹے کاشتکاروں اور کسانوں کو ان کے حال پر چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی گئی اور اب جبکہ پنجاب ایگری کلچر کمیٹی کی سفارشات منظور کرلی گئی ہیں تو ہونا یہ چاہیے کہ ان پر جلدازجلد عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے خاص طور پر اس وقت جب کسانوں کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
وزیراعظم عمران خان جو ہر وقت کسان دوستی کے بڑے لمبے چوڑے دعوے کرتے تھے افسوس کہ ان کی حکومت میں کسان جس طرح بے یارومددگار ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صرف وزیراعظم ہی زراعت سے لاپروائی برتنے کے ذمہ دار نہیں بلکہ پنجاب بالخصوص جنوبی پنجاب کے منتخب نمائندے اس کے اصل ذمہ دار ہیں جنہوں نے اس خطے کی مجبوریوں اور محرومیوں کے لئے آواز اٹھانا ضروری نہیں سمجھا۔ اسی لئے تو آج معاملات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ کسانوں کو فصلوں کے اخراجات پورے کرنے کیلئے اپنی جمع پونجی تک بیچنا پڑرہی ہے۔ ان حالات میں وزیراعظم کی جانب سے زرعی پیکج کا اعلان خوش آئند ہے لیکن کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک کے مصداق اگر حکومت کے اعلانات کی فہرست مرتب کی جائے تو کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اس میں حکومت کو فصل آنے سے قبل ہی اس کے سرکاری نرخ مقرر کرلینے چاہئیں تاکہ کسان کو اس کی اجرت مل سکےیہی نہیں بلکہ غریب کاشتکار سے لے کر اس کی فروخت تک تمام مرحلوں پر نظرثانی کرنی چاہیے لیکن اس کو کیا کہا جائے کہ تمام فائدہ مڈل مین اٹھالیتا ہے اور غریب کاشتکار کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا۔ ادھر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جب سے کیمیکل کا استعمال زراعت میں بڑھا ہے اس کے بعد سے خالص فصل کی تیاری جہاں ایک خواب بن کر رہ گئی ہے تو وہیں اس کا اضافی بوجھ بھی غریب کاشتکار پر آگیا ہے۔تاہم پنجاب ایگری کلچر کمیٹی کی سفارشات کی منظوری کے بعد امید ہوچلی ہے کہ معاملات کو درست سمت لے جایا جائے گا۔ ان سفارشات کی منظوری میں اہم کردار ادا کرنے والے خواجہ جلال الدین رومی کی تعریف نہ کرنا بڑی زیادتی ہوگی کہ وہ اپنی دھرتی کی خدمت میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں اور ان سے اپنے تئیں جو کچھ بن پارہا ہے وہ کررہے ہیں اس لئے حکومت کو ان کی سفارشات کی جانب سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے اور خواجہ جلال الدین رومی کے اس مطالبے پر ہمدردانہ طریقے سے غور کرنا چاہیے کہ سرکاری زمین غیرملکی کمپنیوں کی بجائے پاکستانی کاشتکاروں کو 20سے 30سال کے لئے لیز پر دے تاکہ غریب کاشتکاروں کا بھی کچھ بھلا ہوسکے۔ درحقیقت یہ غریب کاشتکار ہی اس دھرتی کا اصل جھومر ہیں جو خود گارے مٹی میں رہ کر ہمارے لئے خوراک کی فراہمی کا بندوبست کرتے ہیں اس لئے لازم ہے کہ اس اہم کردار کو نظرانداز کرنے کی روش کو پس پشت ڈال کر وزیراعظم ذاتی طور پر غریب کسانوں کے اصل مسائل سنیں اور ان کے حل کے لئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں۔
خواجہ جلال الدین رومی جو سرائیکی خطے میں ایک مثالی کاشتکار کے طور پر شہرت رکھتے ہیں، کے تجربے سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے اور زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی راہ ہموار کی جانی چاہیے۔ جہانگیر ترین ہمارے سامنے بہترین مثال ہیں کہ انہوں نے زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا اور کم قیمت میں وہ زیادہ اور بہتر پیداوار حاصل کررہے ہیں بالکل اسی طرح غریب کاشتکاروں کو حکومت بلاسود قرضوں کی فراہمی کے علاوہ اجناس اور نمبرون زرعی کیمیکل کی مفت فراہمی کو یقینی بنائے اور غریب کاشتکاروں کو ان کی محنت کا صلہ ان کا پسینہ خشک ہونے سے قبل اچھے داموں میں دلوائے تاکہ ان کی عزت نفس کو کسی کو مجروح کرنے کی جرات نہ ہوسکے۔ زراعت ملکی ترقی میں 70فیصد کردار ادا کرتی ہے اس لئے حکومت پر لازم ہے کہ وہ اس خطے پر اس کی آمدن کے مطابق خرچ کرنے کی حکمت عملی اپنائے تبھی جاکر یہاں کا کسان خوشحال اور مضبوط ہوگا لیکن اس کے لئے حکومت کو ایک صاف شفاف نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ دوسروں کو نوازنے کی بجائے اپنوں کی خدمت کی پالیسی اختیار کی جائے اس کے لئے ضروری ہے کہ وزیراعظم کاشتکار اور صنعت کار خواجہ جلال الدین رومی سے اس ضمن میں مزید تجاویز لیں اور زرعی شعبے میں بہتری لانے کیلئے خواجہ جلال الدین رومی کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس تشکیل دیں جس میں کھاد اور معیاری بیجوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے وسیب کی یونیورسٹیوں کے پروفیسرز کو بھی اس کمیٹی کا حصہ بناکر ان کی تعلیم و تحقیق سے مستفید ہونے کی سبیل کی جائے۔

یہ بھی پڑھیے:

%d bloggers like this: