اپریل 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لوگ اپنے اصل سے کیوں کٹتے ہیں؟||حیدر جاوید سید

یہ ممکن ہے بس ایک تاریخ کمیشن بنادے ریاست جو اصل سے کٹ گئے لوگوں کو ان کی اپنی زمین، تاریخ، تہذیب اور کلچر سے جوڑے اور لوگ اپنے انسان ہونے پر فخر کرسکیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تاریخ کے طالب علم کے طور پر ہمیشہ یہ رائے رہی کہ تاریخ کا مذہب نہیں ہوتا، مذاہب و عقیدوں کی تاریخ ضرور ہوتی ہے۔
منقسم برصغیر کے مسلمانوں کا بنیادی المیہ یہی ہے کہ وہ زمین زادہ (سن آف سائل) ہونے سے انکار کرتے ہوئے مسلم قومیت کے تصور کے اسیر ہیں۔ یہ سودا یہاں خوب بکا بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ منافع بخش سودا ہے۔
حیرانی ہوتی ہے ان لوگوں پر جو یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب کی تبدیلی سے قومی شناخت تک تبدیل ہوجاتی ہے۔ اصولی طور پر یہ فریب لوگوں کو ان کی تاریخ اور زمین سے کاٹ کر انجانی سمتوں کا مسافر بنانے کے لئے ہے۔
پچھلے ہزار بارہ سو سال کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیجئے آپ ایک دلچسپ حقیقت سے آگاہ ہوں گے کہ حملہ آوروں کیلئے تو تقدس ہی تقدس ہے اور زمین زادے رائندہ درگاہ۔
سادہ لفظوں میں مکررعرض کئے دیتا ہوتا ہوں کے برصغیر کے بٹوارے نے ایک ہی رات میں حملہ آوروں کو ہیرو بناکر ہماری تاریخ کے ماتھے کا وہ جھومر بنادیا جو اتارتے ہیں تو تقدس کی پامالی کا شور مچتا ہے۔ رہنے دیتے ہیں تو اصل تاریخ تک رسائی نہیں ہوتی۔
عرض کرنے کا مطلب یہی ہے کہ تاریخ و تہذیب اور کلچر یا قومی شناخت کا دھرم و عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ آپ انڈس ویلی میں آباد قومیتوں میں شامل مختلف مذاہب و عقائد کے لوگوں کو کیسے الگ کریں گے۔
مزید آسان انداز میں یہ کہ سرائیکی قوم صرف مسلمانوں پر مشتمل نہیں، وسیب میں آباد دیگر مذاہب کے لوگ بھی اس قومی شناخت کا حصہ ہیں۔
یہ بات البتہ وہ نہیں سمجھ پائیں گے اولاً وہ جو مذہب سے قوم، تہذیب، کلچر اور تاریخ کشید کرتے ہیں ثانیاً وہ جن کے ہیرو حملہ آور ہیں۔
پچھلی صدی کی آخری دہائی میں جب بابری مسجد کے سانحہ کے بعد ملتان میں دانش کدہ پرہلاد کو تباہ کیا گیا تو عرض کیا تھا کہ
’’انتہا پسندی کی لہر اگر بھارت میں غلط تھی تو پاکستان میں بھی غلط ہے۔ پرہلاد کا دانش کدہ پانچ سے سات ہزار سال کی تاریخ کی یادگار تھا۔ حملہ آوروں نے دانش کدہ نہیں گرایا بلکہ ملتان کی تاریخ کا سر کاٹ لیا ہے‘‘۔
لگ بھگ تیس برس بعد بھی یہی رائے ہے کہ تاریخ کی نشانیوں کو مذاہب و عقیدے کی آنکھوں سے دیکھنے کی بجائے مطالعہ اور شعور کی آنکھ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
اب اسے بدقسمتی ہی کہیں گے کہ مطالعہ اور شعور کی آنکھ کو تعصبات، نفرت اور عدم برداشت سے بھرے مناظر دیکھنے پڑتے ہیں۔
اصلاح احوال کیسے ہو؟ اس سوال کے جواب میں تواتر کے ساتھ عرض کرتا رہتا ہوں کہ ایک سیکولر ریاست ہی اپنی جغرافیائی حدود میں آباد لوگوں کے مذاہب و عقائد کے احترام اور حقوق کو یقینی بناسکتی ہے۔
جب بھی کہیں ریاست کو مذہبی بنانے کی کوشش کی جائے گی یا ریاست اپنے مذہبی ہونے کا اعلان کرے گی تو بگاڑ یہیں سے شروع ہوگا۔
دنیا میں ایک بھی مذہب ایسا نہیں جس میں فرقے نہ ہوں۔ مذہبی ریاست کا بھی ظاہر ہے کوئی خاص عقیدہ ہوگا یہیں سے عدم توازن جنم لے گا۔
ایک خاص مذہب یا عقیدے پر یقین رکھنے والی ریاست دیگر مذاہب تو کیا خود اپنے مذہب کے ان عقیدوں سے مساوی سلوک نہیں کرپائے گی جو ریاست کے عقیدے سے مختلف ہوں گے۔ مثال کے طور پر ہم دوباتوں پر غور کرسکتے ہیں
اولاً قرارداد مقاصد جس نے محمدعلی جناح صاحب کی 11اگست 1947ء والی تقریر کے بیانیہ کو تبدیل کرکے رکھ دیا
ثانیاً جنرل ضیاء الحق کا دور جس میں افغان جہاد سے ہوئی عقیدہ سازی نے سماجی وحدت کو توڑپھوڑ دیا۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے لاکھ انکار کریں لیکن تلخ ترین حقیقت یہی ہے کہ اس عقیدہ سازی کی وجہ سے نہ صرف مسلم سماجی وحدت متاثر ہوئی بلکہ دیگر مذہبی برادریاں بھی خوف کا شکار ہوئیں۔
یوں کہہ لیجئے کہ ہم نے بطور انسان سوچنا اور عمل کرنا چھوڑدیاہے اب حالت یہ ہے کہ ہم کسی شخص کے بارے میں ابتدائی معلومات حاصل کرتے وقت اس کا عقیدہ دریافت کرتے ہیں یہ دراصل ہمیں فیصلہ کرنے کا حق دیتا ہے کہ وہ عقیدے کے اعتبار سے ہم سے کم تر ہے۔ اب مراسم کی نوعیت کیا ہوگی۔
مذہب و عقیدہ کو بطور تاریخ پیش کرنے کے یہ نقصانات ہیں۔
اس پر ستم یہ ہے کہ مقدسات کی فہرست بڑھتی جارہی ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ ریاست اس سوچ کی حوصلہ شکنی کرے مگر کیسے کرتی یہ سارے فساد ریاست نے ہی تو پروان چڑھائے۔ عجیب بات یہ ہے کہ منقسم برصغیر کے ممالک سے مقامی حالات، گھٹن، تعصبات اور دوسری خرابیوں کی وجہ سے منہ اٹھاکر ترقی یافتہ ممالک کی طرف نکلنے والوں کو کچھ برسوں بعد اپنا مادری عقیدہ یاد آنے لگتا ہے۔
پھر ہم وہاں عقیدے کی بنیاد پر حقوق طلب کرتے ہیں لیکن اگر کوئی ہمارے یہاں مذاہب و عقائد کی بنیاد پر حقوق مانگے تو ہمارے چہرے سرخ ہوجاتے ہیں دہنوں سے آگ نکلنے لگتی ہے۔
اصلاح احوال کی واحد صورت یہی ہے کہ ایک حقیقی قومی جمہوری سیکولر نظام ہو جو فرد اور ریاست میں اعتماد سازی کو پروان چڑھائے۔ ریاست ہی نہیں بلکہ کوئی بھی شخص عقیدے کی بنیاد پر کسی کو کم تر نہ سمجھے سب مساوی حقوق کے شہری ہوں۔
یہ ممکن ہے بس ایک تاریخ کمیشن بنادے ریاست جو اصل سے کٹ گئے لوگوں کو ان کی اپنی زمین، تاریخ، تہذیب اور کلچر سے جوڑے اور لوگ اپنے انسان ہونے پر فخر کرسکیں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: