اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملتان وسوں کے روشن فکر چہروں کا ایک کٹھ||حیدر جاوید سید

میراحمد کامران مگسی سرائیکی وسیب اور علمی دنیا کے بڑے نام علامہ رحمت اللہ طارقؒ کے صاحبزادے ہیں۔ ترقی پسند رجحانات کے علمبردار علامہ رحمت اللہ طارق نے نصف صدی سے زائد عرصہ علمی حلقوں پر راج کیا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو تین دن اُدھر ملتانی وسوں کے صاحبان علم، کارکن صحافی، ادیب و دانشور اور معروف سیاسی کارکنوں کا ایک کٹھ ہمارے عزیز دوست اور ترقی پسند سوچ کے حامل میر احمد کامران مگسی کی اقامت گاہ پر منعقد ہوا۔ مل بیٹھنے کی یہ تقریب میر صاحب کے لائق فرزند احمد عبداللہ مگسی کی میرٹ پر نشتر میڈیکل یونیورسٹی میں داخلہ کی مبارکباد کے لئے تھی۔
میراحمد کامران مگسی سرائیکی وسیب اور علمی دنیا کے بڑے نام علامہ رحمت اللہ طارقؒ کے صاحبزادے ہیں۔ ترقی پسند رجحانات کے علمبردار علامہ رحمت اللہ طارق نے نصف صدی سے زائد عرصہ علمی حلقوں پر راج کیا۔
انہوں نے رجعت پسندی اور تکفیریت کے مقابل اسلام کے روشن افکار پیش کئے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور مولانا کوثر نیازی ان کے علمی مرتبہ کے قدر دان تھے۔
جنرل ضیاء کے عہد ستم میں انہیں مادر وطن چھوڑ کر بلاد عرب میں روزگار تلاش کرنا پڑا کہ ضیاء حکومت ان کی جان کے درپے تھی۔
علامہ رحمت اللہ طارقؒ کی علمی، ادبی، تحقیقی خدمات صدیوں تک انہیں زندہ رکھنے کے لئے کافی ہیں، میر احمد خان مگسی اپنے بلند مرتبہ والد کے علمی ورثے کے وارث ہیں، اپنی ترقی پسند سوچ کی بدولت رجعت پسندوں کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں۔
پیپلزپارٹی سے مضبوط سیاسی تعلق ہے مگر اصل شہرت ان کی اپنی فکر اور پرعزم جدوجہد ہے۔ اپنے جواں سال صاحبزادے کی کامیابی پر وہ خوش تھے اس خوشی میں انہوں نے دوستوں کو یاد کیا۔
ملک نسیم لابر، رانا نیک محمد زاہد، پروفیسر ڈاکٹر سید مقبول گیلانی، حارث اظہر، سید خالد جاوید بخاری ایڈووکیٹ، ارشد اقبال بھٹہ، عامر شہزاد صدیقی برادرِ عزیز شاکر حسین شاکر ، خواجہ ضیاء صدیقی، ریاض بخاری، ملک امجد سعید اور متعدد دوسرے احباب ان کے مہمان ہوئے۔
سیاست، علم و ادب اور صحافت کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے ملتانی وسوں کے نامور لوگوں کے کٹھ میں علم و ادب، سیاست، تاریخ اور سماجی موضوعات پر خوب تبادلہ خیال ہوا۔
ملک نسیم لابر اور خالد بخاری ایڈووکیٹ نے وسوں کی تاریخ و تہذیب کے ساتھ ثقافتی روایات پر اپنے مطالعہ اور یادداشتوں سے دوستوں کو استفادے کا موقع دیا۔
برادر عزیز شاکر حسین شاکر نے ایک معروف شادی کا حوالہ دیا تو
عرض کیا،
"نیا کام کیا ہوا، پوری تاریخ مسلمانان اس طرح کی شادیوں سے بھری پڑی ہے”۔
ماحضر تناول کرچکے تو احباب نے پروفیسر ڈاکٹر سید مقبول گیلانی کو اپنی خوش الحانی کے مظاہرہ کی دعوت دی۔
دو سرائیکی نغموں کے ساتھ ایک اردو غزل انہوں نے ترنم سے سناکر سماں باندھ دیا۔ تقریب کے اس حصے میں ملک نسیم لابر نے سرائیکی گیتوں اور اردو غزل کے اشعار کی جس طرح تشریح کی اس سے شرکائے محفل خوب محظوظ ہوئے۔
بلاشبہ یہ تشریحات ان کے مطالعہ کی وسعت کا منہ بولتا اظہار تھا۔
نیک محمد زاہد سے ایک طویل عرصہ بعد ملاقات ہوئی۔ ملتانی وسوں کے قدیم خاندانوں سے تعلق رکھنے والے اہل علم کی اس محفل میں ہماری امڑی جان (والدہ مرحومہ) کا بطور خاص احترام و عقیدت کے ساتھ ذکر کیا گیا۔ قدیم ملتانی خاندانوں کے اہل علم کا کہنا تھا کہ بی بی جی (وعظ والی بی بی) نے اپنے علم اور کردار سے ہزاروں خاندانوں کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ ان کی رہنمائی بھی کی۔ امڑی جان کے اس محبت و احترام بھرے تذکرے سے آنکھیں بھر آئیں۔
20سال ہوتے ہیں وہ اپنے رب اور سرکار دوعالمؐ سے ملاقات کےلئے دنیا سرائے سے رخصت ہوئیں مگر اہل ملتان انہیں نہیں بھولے یہ ان کی اولاد کے لئے بھی فخر اور سعادت کی بات ہے۔
سیاسی گفتگو کے مرحلہ میں پچھلے 40سالوں کی سیاست اور پامال ہوتی سماجی روایات پر خوب نکتہ آفرینیاں ہوئیں۔ اکثریت اس بات پر متفق تھی کہ سماجی اقدار کی پامالی کی دو بڑی وجوہات ہیں
اولاً جنرل ضیاء الحق کے دور سے معاشرے میں در آئی تنگ نظری اور تعصبات
ثانیاً علم کی بجائے طلب دنیا کی اسیری۔
سچ یہی ہے کہ چار پانچ عشروں قبل کا ملتان اپنی مثال آپ تھا اور رہے گا۔ حارث اظہر کی یہ بات بھی بڑی حد تک درست تھی کہ ملتان اب بھی دیہاتی مزاج کا شہر ہے لوگ دوسرے بڑے شہروں کی طرح پاس پڑوس سے لاتعلق نہیں ہوئے بلکہ اب بھی ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کرتے ہیں۔
عرض کیا آپ کی بات بجا ہے لیکن جس تیزی کے ساتھ طلب دنیا بڑھ رہی ہے ملتان کا ’’اصل‘‘ گم ہورہا ہے۔
شاکر حسین شاکر کے خیال میں بہت ضروری ہوگیا ہے کہ ملتانی وسوں کی قدیم روایات کو زندہ کیا جائے۔ سیاسی کارکنان، ادیب و شاعر اور اہل دانش اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر مجلس آرائیاں کریں تاکہ نئی نسل نہ صرف قدیم روایات سے آگاہ ہو بلکہ اہل علم سے استفادہ بھی کرے۔
ہمارے دوست عزیز پروفیسر ڈاکٹر سید مقبول گیلانی بھی اس خیال کے حامی تھے کہ گاہے گاہے مختلف الخیال دوستوں کو جمع ہونا چاہیے۔
لاریب ان محفلوں اور مجلسوں کی ضرورت ہے۔ ایک وقت تھا جب استاد مکرم سید حیدر عباس گردیزی مرحوم کے آبائی گھر کے علاوہ کیفے عرفات، فاران ہوٹل، کیفے شاہد، عام خاص باغ، عمر علی خان کے سرائیکی ادب والے دفتر باغ لانگے خان والی لائبریری اور متعدد دوسرے مقامات پر روزانہ محفلیں برپا ہوتی تھیں جہاں علم و ادب اور سیاسی نظریات پر بحثیں اٹھائی جاتی تھیں مگر کیا مجال کہ کوئی شرف انسانی سے منہ موڑنے پائے۔ سید مقبول گیلانی کی سنائی غزل کا ایک شعر:
سجدہ کروں تجھے تو کافر کہیں گے لوگ
یہ کون سوچتا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: