مئی 11, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈاکٹر لال خان اور پاکستان پیپلزپارٹی (آخری حصّہ)||عامر حسینی

سیاست معشیت کا عکس ہوتی ہے ناکہ معشیت سیاست کا۔ ہمارے سماج کا غالب طریق پیداوار سرمایہ دارانہ طریق پیداوار ہے اور اسی وجہ سے ہماری ریاست اس سے جڑے مفادات کے حامل طبقات کے تحفظ میں سرگرداں رہتی ہے

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے دانشوروں کی سوشلسٹ تنقید پر رائے
پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر اس وقت ایسے قابل دانشور موجود ہیں جو پاکستان پیپلزپارٹی کے آفیشل سوشل میڈیا ایکٹوسٹ تو نہیں ہیں لیکن وہ رضاکارانہ بنیادوں پر پاکستان پیپلزپارٹی کا دفاع کرتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک ہیں جنھوں نے قدرے سنجیدگی اور علمی طرز پر پاکستان پیپلزپارٹی کے قائدین ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو اور اب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی پاکستان میں معشیت کے میدان میں تنقید کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ ان میں میرے بہت ہی عزیز ساتھی رانا شرافت علی ایڈوکیٹ کا یو ٹیوب چینل "دوسرا رخ” ہے، اس پہ ان کا ایک وی لاگ آیا جس کا عنوان ہے: سوشل ازم کے ملاں ۔۔۔۔۔
انھوں نے اپنے اس وی لاگ میں پی پی پی کی قیادت کی مبینہ نیولبرل اصلاح پسندی پر تنقید کرنے والے سوشلسٹ ناقدین کو سوشلزم کے ملاں قرار دیا اور ان پر یہ الزام لگایا کہ وہ کارل مارکس وغیرہ کی دو چار کتابیں رٹ کر اور کچھ سوشلسٹ اصطلاحوں کو رٹ کر بالکل ویسا ہی کردار اپنا لیتے ہیں جیسا کردار مذہبی ملاں کا ہوتا ہے۔ ان کا کہنہ یہ ہے کہ سوشلسٹ ناقدین یہ جھوٹ بولتے ہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی کوئی انقلابی پارٹی تھی اور یہ خونی انقلاب کے زریعے سے سماج میں سوشلزم کا نفاذ چاہتی تھی۔( سوشلسٹ ناقدین پر یہ الزام پی پی پی کے ایک اور سینئر کارکن پروفیسر یوسف اعوان نے بھی لگایا اور ایسےہی کئی ایک نوجوان جن کو میں پاکستان پیپلزپارٹی میں لبرل قوم پرستی سے متاثرہ کہہ سکتا ہوں یہ الزام سوشلسٹوں پہ لگاتے ہیں بلکہ ایک نوجوان تو کمال کرتے ہوئے پی پی پی پہ تنقید کرنے والے سوشلسٹ ناقدین کو انارکسٹ قرار دے ڈالا اور اس نے ڈاکٹر لال خان کو بھی انارکسٹوں کی صف میں کھڑا کردیا۔
رانا شرافت علی اپنے وی لاگ میں کہتے ہیں کہ پی پی پی کی اصلاح پسندانہ نیولبرل معشیت کے ناقد سوشلسٹ ذوالفقار علی بھٹو پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ چونکہ جاگیردار تھے اس لیے انہوں نے جاگیرداروں کے مفادات کے لیے پارٹی کے اصل پروگرام کو پس پشت ڈال دیا جو سوشلسٹ نظام کا نفاذ تھا اور اس طرح سے انہوں نے محنت کش طبقات سے غداری کی۔ اور اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے وہ جاگیرداری کو ایک "ذہنی کیفیت” کا نام قرار دیتے ہیں اور بڑی لینڈ ہولڈنگ کے مالک کے لیے جاگیردار کی اصطلاح کو غلط قرار دے ڈالتے ہیں۔
کیونکہ میرا اس مضمون کا مقصد ڈاکٹر لال خان کی برسی کے موقعہ پر ڈاکٹر لال خان اور ان کے ساتھیوں پر پیپلزپارٹی پرتنقید کے جواب میں ان کو موقعہ پرست اور بالواسطہ طور پر اسٹبلشمنٹ کے ہاتھ مضبوط کرنے جیسے الزام پہ بات کرنا ہے تو میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہونا لازمی ہے کہ کیا ڈاکٹر لال خان اور 89ء کے بعد ہمارے ہاں جو لیفٹ کی نئی روایت پیدا ہوئی وہ ذوالفقار علی بھٹو جاگیرداروں کا ایجنٹ کہتی تھی؟ کیا اس کا یہ تجزیہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جن معاشی پالیسیوں کو رائج کیا ان کے نتیجے میں جاگیرداری مضبوط ہوئی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ان کے تمام لیفٹ و سوشلسٹ ناقدین یہ خیال کرتے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو جاگیرداری کو مضبوط کرنے کا سبب بنے تھے؟
جب میں طبقاتی جدوجہد کے گزشتہ 44 سال کے سالانہ کانگریسوں میں پیش کردہ انقلابی تناظر اور ڈاکٹر لال خان اور ان کے دیگر ساتھیوں کی پیپلزپارٹی پر تنقیدی مضامین کا جائزہ لیتا ہوں تو ان میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور کی معاشی پالیسیوں پر بہت کم تجزیہ و تنقید ملتی ہے اور جو تنقید ہے بھی وہ اس بات پہ نہیں ہےکہ بھٹو صاحب کی نیشنلائزیشن کا اصولی فیصلہ غلط تھا یا ان کی لیبر پالیسیز غلط تھیں یا زرعی اصلاعات کا فیصلہ غلط تھا بلکہ وہ نیشنلائزیشن پر بنیادی اعتراض یہ کرتے ہیں کہ جن شعبوں اور اداروں کو نیشنلائزڈ کیا گيا تھا ان کو پرانی نوکر شاہی کے ہاتھوں میں دینا غلط تھا بلکہ ورکرز پہ مشتمل بورڈ ہوتا اور ان کو ان کا کنٹرول دیا جاتا جبکہ تقسیم اور پرچون کا سیکٹر نجی شعبے میں ہی رہنے دیا جائے گا جبکہ ان کی نگرانی کے لیے مقامی نگران مزدور کمیٹیاں بنائی جاتیں۔(مجوزہ پارٹی منشور 2000 مطبوعہ اپریل 2000) ۔
میں بڑا حیران ہوا ہوں کہ رانا شرافت علی نے پرانے سوشلسٹ دانشوروں پہ یہ الزام مطلقا عائد کردیا کہ ان کی بھٹو کی سیاست کا تجزیہ کٹھ ملائیت پر مبنی تھا۔ میں اس سلسلے میں یہاں بطور ثبوت کے سوشلسٹ میگزین”پاکستان فورم” کی مثال پیش کرتا ہوں۔ اس رسالے میں بھٹو ، پی پی پی اور ان کی معاشی پالیسی پر درجنوں مضامین شایع ہوئے۔ یہ رسالہ نومبر 1977ء میں شایع ہونا شروع ہوا اور ضیاء الحق کے مارشل لا کے ابتدائی سالوں تک تواتر سے شایع ہوتا رہا۔ اس رسالے میں ڈاکٹر فیروز احمد کے جو مضامین اور لکھے اداریے شایع ہوئے ان کا مجموعہ چھپ چکا ہے۔ ڈاکٹر فیروز احمد کا ایک مضمون "عوام بھٹو سے محبت کیوں کرتے ہیں” اس مضمون میں ڈاکٹر فیروز احمد جاگیردار طبقے کے بارے میں پی پی پی اور بھٹو کی حکومت کے رویے کا تفصیلی جائزہ لیا اور انھوں نے اس جائزے میں ایک تو یہ بات ثابت کی:
"یہ غلط فہمی دور ہوجانی چاہیے کہ بھٹو نے اپنی فیوڈل طاقت کے سہارے اقتدار کی سیڑھی پر ترقی کی ہے۔ اس کی فیوڈل طاقت کسی عام سندھی زمیندار سے زیادہ نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے جاگیرداری کی بیساکھیوں کے سہارے نہیں بلکہ جاگیردارانہ نظام میں انتشار پیدا کرکے اقتدار حاصل کیا۔”(ص54)
"پاکستان میں جب کبھی نمائندہ حکومت غائب رہی ہے تو نوکر شاہی کے سیاسی و اقتصادی پاور میں اضافہ اور وڈیرہ شاہی کی طاقت میں کمی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وڈیرہ شاہی پارلیمانی جمہوریت کو اور درمیانہ طبقہ مختلف بہانوں سے فوجی حکومت اور "بنیادی جمہوریت” کو خوش آمدید کہتا ہے”
"جمہوری نظام میں جاگیردار طبقہ اپنے سماجی پاور کو جزوی سیاسی پاور میں منتقل کرکے اپنے مفادات پورے کرسکتا ہے لیکن درمیانے طبقے کے پاس ایسا سماجی پاور نہیں ہے جس کو وہ ووٹوں کے زریعے سیاسی پاور میں بدل سکے”
"بھٹو نے سندھ اور جنوبی و مغربی پنجاب کے جاگیرداروں کو ایک ایسی پارٹی فراہم کی جو بیک وقت مقبول بھی تھی اور جاگیرداروں کے لیے اقتدار کی سیڑھی کا کام بھی دے سکتی تھی، اس پارٹی کے دور اقتدار نے جاگیردار طبقے کو بہت فائدے پہنچائے لیکن جاگیرداری کو مستحکم نہیں کیا۔”
"ڈاکٹر فیروز احمد کے مضامیں” مطبوعہ 2009 ، پاکستان اسٹڈی سینٹر ،جامعہ کراچی
ڈاکٹر فیروز احمد نے بھٹو دور کی نیشنلائزیشن اور زرعی اصلاحات کا سماج واد سائنسی تجزیہ بھی کیا۔ ان کی ایک اور کتاب ہے جس میں انھوں نے عالمی مالیاتی سامراجی اداروں کے حوالے سے بھٹو دور حکومت کی پالیسیوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اور مجھے ان کا بھٹو بارے یہ تجزیہ سب تجزیوں پہ بھاری لگتا ہے:
” ہمارا ملک پاکستان ہے ناکہ فرانس ، چین، ارجنٹینا۔۔۔ یہ بیسویں صدی کی آخری چوتھائی ہے نہ کہ انیسویں صدی کا وسط یا بیسویں صدی کی شروعات۔ ہمارے ٹھوس اور منفرد سماجی حالات ٹھوس اور منفرد حل کے متقاضی ہیں۔ ان حالات نے ایک ایسی منفرد سیاسی شخصیت کو جنم دیا جس نے جدید نوآبادیاتی پسماندہ ملک کے تمام تر تضادات کو اپنے اندر سموکر اور اندرونی طفیلیہ ڈھانچہ سے مکمل ٹکر لیے بغیر اس میں ایک ترقی پسند سدھار وادی (اصلاح پسند) پروگرام پر عمل کرنے کی کوشش کی تاکہ اس ملک میں اقتصادی ترقی ہو، سامراجیوں سے آزادی ملے اور غریب و مفلس عوام کے حالات زار میں کچھ کمی ہو۔ لیکن اس پروگرام پر عمل کرنے کے لیے اقتدار کو باقی رکھنا لازمی تھا۔ چنانچہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے اسے ایک طرف سامراجیوں، ذیلی سامراجیوں اور مقامی رجعت پسندوں کے ساتھ مفاہمت اور سمجھوتہ کرنا پڑا۔ دوسری طرف اندرونی مخالفت پہ غالب آنے کے لیے اسے ریاستی تشدد پر انحصار کرنا پڑا۔ ریاستی مشینری کو جدید تر بنانا بھٹو کی محض ایک مجبوری نہیں تھی۔ وہ ہیگل کا ایک بگڑا ہوا پیروکار ہے جو ریاست کو انسان کی سماجی تخلیق کا اعلی ترین مظہر سمجھتا ہے ۔ چنانچہ اس نے بونا پارٹ کی طرح خود کو ریاست بنانے کی کوشش کی اور روزانہ ایک چھوٹا موٹا دھڑن تختہ کرکے اپنے مخالفوں، سرکاری اہلکاروں اور اپنے ساتھیوں تک کو ہراساں کرتا رہا۔”
"پاکستان جیسے جدید نوآبادیاتی ملک میں جب تک انقلاب نہیں آتا اور مارکس واد انقلابی قیادت نہیں ابھرتی اس وقت تک ایک مستقل مزاج ترقی پسند لیڈر کا پیدا ہونا ناممکن ہے۔”
"بھٹو کو مارکسی پیمانوں پہ ماپنے والوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس نے کبھی کمیونسٹ یا مارکسی ہونے کا دعوی نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
(عوام بھٹو سے محبت کیوں کرتے ہیں۔۔۔۔ ڈاکٹر فیروز احمد )
پاکستان فورم ایک ایسا رسالہ تھا جس کے ادارتی بورڈ میں سبط حسن بھی شامل تھے اور یہ پرانے لیفٹ کے سکّہ بند مارکس واد اور سماج واد دانشوروں کا نمآئندہ رسالہ تھا- دیکھ سکتے ہیں کہ اس پرانے سوشلسٹ لیفٹ کا بھٹو بارے کیا تجزیہ تھا۔ اس نے بھٹوکے خلاف شہری درمیانے طبقے، سول و ملٹری نوکر شاہی کی سوچ اور محنت کش طبقات کی سوچ کا کس طرح سے حقیقت کے انتہائی قریب تجزیہ کیا جس کا بہت ہی سادہ اور کسی حد تک درست تجزیہ ہمارے دوست رانا شرافت ایڈوکیٹ نے کیا لیکن وہ پی پی پی کے ناقد سوشلسٹوں کو ملاؤں کا خطاب دیتے ہوئے جو تجزیہ سوشلسٹوں نے کیا اسے ان کا کریڈٹ نہ دے سکے۔ مجھے نجانے کیوں یہ محسوس ہوتا ہے کہ رانا شرافت علی ایڈوکیٹ بھٹو پہ لبرل اور نیولبرل دانشوروں جن کو ہم کمرشل لبرل دانشور کہتے ہیں کی سوچ کو یا معاصر لبرل لیفٹ کے ایک سیکشن کی سوچ کو پرانے لیفٹ اور جدید مارکسی نقادوں جیسے ڈاکٹر لال خان ہے پر چسپاں کردیتے ہیں۔
کچھ باتیں رانا شرافت ایڈوکیٹ بنا کسی حوالے کے دے گئے مثال کے طور پر انھوں نے پی پی پی میں موجود سوشلسٹ عناصر پہ یہ الزام عائد کیا کہ انہوں نے اپنی عدالت لگائی اور ڈی سی کو سزائے موت سنائی۔ ایسا پی پی پی سے وابستہ کس سوشلسٹ نے کیا تھا۔ ہاں اس دوران کئی ایک کارخانوں اور فیکٹریوں پر مزدروں کے آزدخود قبضے اور زرعی جاگیروں پہ قبضوں کی اکا دکا مثالیں ضرور آئی تھیں جو بعد ازاں چھڑالیے گئے تھے۔
ڈاکٹر پروفیسر یوسف اعوان نے اپنی ایک پوسٹ میں لکھا پی پی پی کا تیسرا اصول "سوشلزم ہماری معشیت ” ہے۔ اس سے پی پی پی سوشلسٹ پارٹی نہیں بن جاتی ۔ حیران کن جواب ہے جبکہ پارٹی کی تاسیسی دستاویز نمبر 7 میں "پیداوار کے زرایع سوشلسٹ نکتہ نظر سے” کا عنوان اور اس کی تفصیل پی پی پی کو سوشلسٹ معشیت کی علمبردار پارٹی بتاتی ہے تو سوشلسٹ معشیت کے علاوہ اور کون سی چیز کسی سیاسی جماعت کو "سوشلسٹ پارٹی” مانتی ہے۔ اگر پی پی پی خود کو سوشلسٹ پارٹی نہیں سمجھتی تو یہ سوشلسٹ سیاسی جماعتوں کی عالمی چھاتہ تنظیم کی ممبر کیوں ہے اور اس کی سالانہ کانگریسوں میں شریک کیوں ہوتی ہے؟
پاکستان پیپلزپارٹی واقعی انقلابی سوشلسٹ یا انقلابی مارکسسٹ جماعت نہیں ہے یہ وہ بات ہے جسے پرانا اور نیا دونوں لیفٹ مانتا ہے۔ یہ جمہوری پارلیمانی سوشلسٹ پارٹی ضرور ہے۔ کیونکہ اتحاد عوام نامی دستاویز ہو یا ذوالفقار علی بھٹو کی اپنی تقاریر ہوں ان کے مطابق پی پی پی کا تصور جمہوریت عوامی جمہوریت ہے جس میں محنت کش طبقات کی بالادستی ایک آدرش ہے۔
ظفر اجن سابق شوہر فہیمدہ ریاض جو ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کے رکن رہے انھوں نے "بھٹو کی آواز” کے نام سے ذوالفقارعلی بھٹو کی تقاریر کے اقتباسات کا ایک مجموعہ شایع کیا ، اس مجموعے میں بھٹو صاحب کئی جگہوں پر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو جیل بھجوانے اور اور سرمایہ داروں کی صعنتوں کو قومی ملکیت میں لینے اور جاگیریں بے زمین کسانوں میں بانٹنے کا عہد دوہراتے ہیں تو اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ عوامی جمہوریت سے کیا مراد لیتے تھے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے دانشوروں کے سامنے کچھ بڑے سوالات ہیں جن کا جواب ان کو کھل کر دینےکی ضرورت ہے:
کیا پاکستان پیپلزپارٹی اپنی بنیادی تاسیسی دستاویز پر اب بھی یقین رکھتی ہے؟
کیا اس دستاویز میں جو پارٹی کا تیسرا اصول ” سوشلزم ہماری معشیت ہے (جسکے تحت وہ تمام صعنتوں، سروسز سیکٹر کی نیشنل لائزیشن کی قائل ہے) کیا اب بھی ان کا اصول ہے؟
اگر یہ پی پی پی کا اصول ہے تو اس نے 1988-1990، 1993-1997، اور 2008-2013 تک کسی ایک ادارے کو واپس نیشنلائز کیوں نہ کرپائی اور اس نے اپنے تینوں اداروں میں کئی درجن ادارے ڈی نیشنلائز کیے، کیوں؟
پی پی پی اگر سماجی خدمات کے شعبے کی نجکاری کی حامی نہیں ہے جیسے تعلیم اور صحت ہیں تو پھر اس نے صوبہ سندھ میں سندھ ایجوکیشنل فاؤنڈیشن، سندھ ہیلتھ فاؤنڈیشن، سندھ سولر پاور کمپنی کے نام پر پرائیویٹ-پبلک پارٹنرشپ کیوں متعارف کرائی ہے؟
پی پی پی اگر عالمی مالیاتی ادارروں کو اپنی بنیادی دستاویز میں سامراجیت اور نوآبادیت کی تجدید نو کرنے والے ادارے ہیں تو وہ صحت، تعلیم، زراعت سمیت سروسز سیکٹر میں ان عالمی مالیاتی اداروں سے لیے قرضوں کے عمل کو بتدریج کم کرتے ہوئے ختم کیوں نہ کرپائی؟
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا سوشلسٹ معشیت اور نیولبرل معشیت کا باہم کوئی جوڑ ثابت ہوسکتا ہے؟
پاکستان پیپلزپارٹی میں سرمایہ داروں ، سٹے بازوں، دہاڑی داروں سمیت بورژوازی (بڑی سرمایہ داری) اور پیٹی بورژوازی اور زمیندار اشرافیہ کی کافی بڑی تعداد ہے جو اس وقت پارٹی کے قریب قریب ہر ایک اہم عہدے پر قابض ہے۔ اور جو نچلے متوسط طبقے کے کارکن پارٹی کی مرکزی یا صوبائی یا ریجنل تنظیمی عہدوں پر ہیں وہ پارٹی میں شامل حکمران طبقات کے مینجرز کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ یہ سب کچھ پارٹی میں شفاف انتخابات کی روایت نہ ہونے اور محض نامزدگیوں کے سبب ہیں۔ کیا یہ صورت حال پارٹی کے عوامی جمہوریت کے نصب العین کے مطابق ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو پی پی پی کے اندر پارٹی کو اس کی بنیادی و تاسیسی دستاویز کے عین مطابق بنانے کے لیے کون سی لیفٹ اپوزیشن تعمیر ہوئی ہے؟
پاکستان پیپلزپارٹی کے سوشل میڈیا پر اس وقت جو نظریہ ساز و رجحان ساز دانشور ہیں ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کو پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے سب سے بڑے پالیسی ساز ادارے مرکزی کمیٹی (این سی) میں رکھا ہوا ہو اور وہ پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کے سامنے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیادی اور تاسیسی دستاویزات کے عین مطابق پالیسیوں کی تشکیل کا مقدمہ پیش کرسکے اور پاکستان پیپلزپارٹی میں نیچے سے اوپر تک جمہوری طریقے سے مشاورت کے فقدان پر سوال اٹھاسکے۔ کیا پاکستان پیپلزپارٹی میں محنت کش طبقات کی نمائندگی تنظیم میں اور سینٹ، قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں میں ان کی آبادی کے تناسب سے ہے؟ پی پی پی سندھ حکومت میں لیبر، تعلیم، ثقافت، صعنت، ایکسائز و ٹیکس، زراعت کی وزراتوں اور اس سے متعلقہ محکموں میں مشیر اور سربراہوں کے عہدے کس قدر ورکنگ کلاس کے اندر سے ہیں؟
اور سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ پی پی پی کے تنظیمی اجلاسوں میں یہ سب سوال کس قدر زیر بحث آتے ہیں؟ اور ان پہ کتنی ورکنگ کمیٹیاں آج تک تک بنیں اور بنیں تو ان کی رپورٹس کہاں ہیں؟ اور ان پہ عمل درآمد بارے بریف نوٹس کہاں ہیں؟
پی پی پی کے دانشوروں اور عام سیاسی کارکنوں کو دوستانہ تنقید اور دشمنانہ تنقید میں فرق جان کر جینا ہوگا۔ ان کے فتوے نما بیانات اور جھڑکیاں اس پارٹی کو اور سیکڑ کر رکھ دیں گی ۔ میرا مخاطب وہ دانشور ہیں جو خود کو محنت کش طبقات کے ترجمان سمجھتے ہیں۔ ہمارے دلوں میں پروفیسر تاج حیدر، این ڈی خان، اقبال یوسف، حیب اللہ شاکر، مولا بخش چانڈیو، حارث گزدر، مشتاق گزدر، رانا شرافت، پروفیسر یوسف اعوان، ضرار يوسف، سید طاہر عباس، مشتاق گاڈی، امام بخش، ملک سلیم، ریاض ملک جیسے عوامی دانشوروں کی انتہائی قدر و منزلت ہے۔ اور پی پی پی کے ان رضاکار دانشوروں سے یہ امید بھی ہے کہ کم از کم انتہائی سنجیدہ نظریاتی سوالات جیسے سوشلسٹ معشیت کا سوال ہے پر یہ سوئپنگ سٹیٹمنٹ دینے کی بجائے ٹھوس جواب کے ساتھ سامنے آئیں گے۔
میں پی پی پی کے نوجوان دانشورانہ رجحان رکھنے والے پڑھے لکھے تعلیم یافتہ جیالے کارکنوں سے بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ "اینگری یوتھیا جیالہ” بنکر سامنے آنے کی بجائے سنجیدگی سے اپنے خیالات سامنے لیکر آئیں۔ اگر وہ "سرخوں کا طریقہ واردات” اور "نام نہاد سرخے” ایسے مضامین سپرد قلم کریں گے اور ڈاکٹر لال خان ہو یا کوئی اور ان کو "انارکسٹ، نراجیت، خونی انقلاب کا علمبردار” بتلائیں گے تو یہ اپنی ہی ہنسی اڑانے کے مترادف ہوگا۔ ایسے میں آپ کیسے یاسر ارشاد، آفتاب اقبال، کمیانہ، آدم پال، پارس جان، انعم پتافی، سرتاج احمد خان، ڈاکٹر ریاض احمد،سہیل اقبال رائے،فاروق سلہریا، سید عظیم، قیصر بنگالی جیسے سوشلسٹ ماہرین معشیت سے مکالمہ کرپائیں گے؟ کم از کم سرمایہ داری اور سوشلسٹ جن اقتصادی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہیں اور سماجی طبقات کی جو تعریفات ان کے رائج ہیں ان کی شد بد تو لازم ہیں کہ نہیں؟
اب جیسے ہمارے پیارے دوست شرافت رانا نے "فیوڈل” کی اصطلاح کو کہا کہ اس سے مراد "ذہنیت” ہے تو کیا یہ "مائینڈسیٹ/سائیکی” بنا کسی سماجی مادی صورت حال کے کسی کے ہاں جنم لے سکتی ہے جبکہ یہ بات کرتے ہوئے شرافت رانا یہ بات بھی نظرانداز کرگئے کہ سماجی طبقے /سوشل کلاس کی تعریف مارکسی ماہرین کے نزدیک اس طبقے کے سماج کے طریق پیداوار میں پیدائش پیداوار کے دوران پیدا ہونے والے رشتے سے متعین ہوتی ہے اور سماجی کردار بھی اسی رشتے اور تعلق سے متعین ہوتا ہے۔ جاگیردار کی سماجی پاور اس کی زمین پر ملکیت سے ہی نمودار ہوتی ہے جیسے سرمایہ دار کی سماجی طاقت سرمایہ پر کنٹرول سے اور پھر یہی سماجی پاور وہ سیاسی طاقت میں بدلتے ہیں اسی لیے مارکس کا معروف قول ہے کہ سیاست معشیت کا عکس ہوتی ہے ناکہ معشیت سیاست کا۔ ہمارے سماج کا غالب طریق پیداوار سرمایہ دارانہ طریق پیداوار ہے اور اسی وجہ سے ہماری ریاست اس سے جڑے مفادات کے حامل طبقات کے تحفظ میں سرگرداں رہتی ہے۔
ایک اور بات جس کا تذکرہ کرکے میں اپنے اس مضمون کو یہیں پہ ختم کردوں گا اور وہ یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کے درمیان ایک واضح فرق بہرحال موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ پارٹی مکمل طور پر نیولبرل اکنامی کے آگے سجدہ ریز نہیں ہوئی اور یہ ریاست کے سماجی و فلاحی کردار کو بھی مکمل طور پر ختم کرنے کے حق میں نہیں ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ اس پارٹی کی ترکیب ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ریاست کی وردی بے وردی نوکر شاہی، شہری درمیانے طبقے کی اکثریت پرت اور مقامی تجارتی اور مالیاتی سرمایہ دار سیکشنز کی اکثریت اس سے نفرت کرتی ہے۔ اس پارٹی کی واضح طور پر غریب اور متوسط طبقے کے دیہی علاقوں کے ووٹر اس پارٹی کی طرف ہمدردانہ رویہ رکھتے ہیں۔ پاکستان کا (نیو) لبرل سیکشن کی اکثریت پی پی پی کو سمجھتی ہے کہ اس کے پاس گورننس کی صلاحیت نہیں ہے تو اس کا مطلب صاف صاف یہ ہوتا ہے کہ یہ ظالم ترین نجکاری اور کسان دشمن پالیسیاں کیوں تشکیل نہیں دیتی جیسے مسلم لیگ نواز کرتی رہی یا آج پی ٹی آئی کررہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

ڈاکٹر لال خان: انقلابی/موقعہ پرست/اسٹبلشمنٹ کا ایجنٹ (دوسرا حصّہ)||عامر حسینی

%d bloggers like this: