اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پیارے پیارے عوام بس کچھ صبر اور۔۔۔حیدر جاوید سید

معاف کیجئے درمیان میں کچھ جبری مداخلت کی وجہ سے موضوع مسلسل نبھ نہیں پایا پھر بھی یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ عوام کو صبر اور شکر کا درس دینے کیساتھ ان کے دکھوں کے مداوے کیلئے اگر ٹھوس اقدامات پر توجہ بھی دی جائے تو سب کا بھلا ہوگا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی کچھ عرصہ قبل تو ہمارے انصافی مجاہدین سوشل میڈیا پر دعویٰ کر رہے تھے کہ میاں نواز شریف سے 9 ارب ڈالر کی ڈیل ہوئی اور زرداری بھی 12 ارب ڈالر کی پیشکش کر رہا ہے۔ زرداری نے شاید اپنی پیشکش واپس لے لی، بہت اُستاد بلکہ شرارتی بندہ ہے یہ آصف علی زرداری بھی، لیکن وہ میاں نواز شریف والے 9 ارب ڈالر کا کیا ہوا، اب کوئی بتاتا ہی نہیں۔
دونوں دعوے یوں یاد آئے کہ کہ کچھ دیر قبل وزیراعظم نے کہا ہے کہ اپوزیشن لوٹا ہوا پیسہ دے اور میرا استعفیٰ لے لے۔ فقیر راحموں اس پیشکش پر ایک تبصرہ کررہے ہیں مگر افسوس کہ لکھ نہیں سکتا۔
آپ کو یاد ہوگا جب پیپلز پارٹی حکومت میں تھی تو سوشل میڈیا کیساتھ نجی محفلوں میں نون لیگی دعویٰ کیا کرتے تھے کہ چین ڈیڑھ سو روپیہ ماہانہ/ فی گھر بجلی دینے کو تیار ہے مگر زرداری کا پیٹ ہی نہیں بھرتا۔ کل ہمارے دوست ملک سلیم نے یہ بات یاد دلائی تو عرض کیا پوری بات بتایا کیجئے
”زرداری نے چین سے کہا تھا کہ آپ پانچ سو روپیہ فی گھر کے حساب سے بجلی فراہم کریں، اڑھائی سو آپ کے اور اڑھائی سو میرے”
چینی چونکہ کرپشن نہیں کرتے اس لئے سودا نہ ہوسکا۔ ویسے موبائل کے سو روپے والے لوڈ میں زرداری کا 35 روپے کمیشن ہوتا تھا، نون لیگ کے دور میں اور اب اڑھائی برسوں سے اللہ جانے کون یہ کمیشن لے رہا ہے۔
آصف علی زرداری پر تو نوشہرہ کے ایک دودھ فروش نے بھی الزام لگایا تھا کہ زرداری نے مجھے فون پر کہا ہے کہ اگر نوشہرہ میں دودھ فروخت کرنا ہے تو مجھے پچاس ہزار روپیہ ماہوار دیا کرو، اب پچاس ہزار روپے ماہوار کون لیتا ہے، خدا جانے یا وہ دودھ والا۔
اچھا ایک سوال ہے وہ جو شرجیل میمن کے گھر سے 3 ارب روپے اور 200 کلو سونا اور اس کی دبئی جانے والی لانچ سے تین ارب ڈالر، 2 ارب پاکستانی، 80 کروڑ سعودی ریال اور 5 من سونا پکڑا گیا تھا وہ کس کے اکاؤنٹ میں جمع ہوا؟
ویسے پانچ ارب ملکی وغیر ملکی کرنسی کے بھرے سوٹ کیس آغا سراج درانی کے گھر سے بھی سوشل میڈیا کے جاسوسوں نے برآمد کئے تھے، وہ کدھر ہیں۔
اب حساب یہ ہوا 9 ارب ڈالر میاں نواز شریف والے، تین ارب ڈالر جمع دو ارب روپیہ، جمع 80کروڑ سعودی ریال، جمع 205 من سونا، جمع پانچ ارب کی ملکی و غیر ملکی کرنسی یہ سارا مال ہے کس کے پاس، سعودی عرب میں پاکستان کے نئے سفیر بلال اکبر کے پاس، نیب کے یا انصافی مجاہدین کے؟
جس کے پاس بھی ہے وزیراعظم فوری طور ایف آئی اے کو حکم دیں کہ یہ ساری رقم برآمد کر کے بنی گالہ پہنچائی جائے پھر وہ احتساب اکبر، مراد سعید اور چند دوسروں کیساتھ پریس کانفرنس کرکے عوام کو بتائیں کہ یہ رقم اب قومی خزانہ میں جمع کروائی جارہی ہے۔
ویسے اگر لگے ہاتھوں ادویات سکینڈل، چینی، آٹا اور گندم سکینڈلز کی رقوم بھی وصول کر لی جائیں تو قوم دعا کرے گی، چلیں چھوڑیں سکینڈلز کے علاوہ بالائی سطور میں لکھی رقوم کا ہی کچھ کر لیں، یہ رقم آڑے وقت میں ملک کے کام آجائے گی۔
کچھ رقوم اور بھی ہیں لیکن ان کے فوری مالکان کا ذکر کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ ڈر پر یاد آیا کسی زمانے میں جاوید شیخ اور نیلی کی ایک فلم آئی تھی ”جو ڈر گیا وہ مر گیا”
مہنگائی سے پیدا ہوئی بدحالی پر گفتگو کرتے ہوئے
(یہ گفتگو وزیراعظم نے گزشتہ روز عوام سے آن لائن بات چیت کے دوران کی) کہا ہے کہ مہنگائی تکلیف دہ ہے۔ بنیادی وجہ ڈالر کی قدر میں اضافہ ہے۔
مجھے احساس ہے کہ لوگ پریشان ہیں بس تھوڑا سا صبر اور کرلیں، اچھا ویسے کتنا اورصبر کرنا ہے کوئی مدت بتا دیتے تو اچھی بات تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس گفتگو سے چوبیس گھنٹے قبل وزیراعظم نے ارشاد فرمایا تھا کہ ”جب ہم نے اقتدار سنبھالا تھا اس کے مقابلہ میں آج مہنگائی کم ہے”
سیانے کہتے ہیں ناپ تول کر بولنے کے بہت فوائد ہیں، بندہ بشر ہے بھول چوک ہوسکتی ہے۔
ہم نے مان لیا کہ وزیراعظم کا دامن صاف ہے، انہیں بار بار اس کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ خود بھی کہتے تھے کہ اوپر بندہ ایماندار ہو تو سب اچھا ہوتا ہے۔
خیر ہم مہنگائی اور صبر کے مشورے پر بات کرتے ہیں۔ صبر وشکر ظاہر ہے ہمارے اور آپ کیلئے ہے، اشرافیہ کے معاملات اس سے سوا ہیں۔
باتیں اور بھی بہت ہیں مثال کے طور پر گزشتہ روز وزیراعظم نے روانی میں کہہ دیا
”سندھ ہمارا صوبہ نہیں ہے” غالباً وہ یہ کہنا چاہتے ہوں گے سندھ میں ہماری حکومت نہیں ہے، لیکن جتنی بات انہوں نے کی اس سے غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔
اس کا نتیجہ اسد عمر کی ایک پھڑکتی ہوئی جذباتی تقریر کی صورت میں برآمد ہوا۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے جو کچھ کہا وہ انہیں زیبا نہیں۔ ویسے اگر کوئی پلٹ کر ستمبر 1971 میں نیشنل بنک آف پاکستان ڈھاکہ میں ہوئے ایک معاملے کو بیان کرنے پر اُتر آئے تو انہیں بھی ناراض نہیں ہونا چاہئے کیونکہ باتیں پچھلی ہوں تو تاریخ کا حصہ ہوتی ہیں۔ آج کی باتیں کل تاریخ کا حصہ ہوں گی۔
تاریخ بڑی ظالم چیز ہے، سارے کردار اور واقعات اس میں درج ہوتے ہیں۔
معاف کیجئے درمیان میں کچھ جبری مداخلت کی وجہ سے موضوع مسلسل نبھ نہیں پایا پھر بھی یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ عوام کو صبر اور شکر کا درس دینے کیساتھ ان کے دکھوں کے مداوے کیلئے اگر ٹھوس اقدامات پر توجہ بھی دی جائے تو سب کا بھلا ہوگا۔
بھلا ہونا بھی چاہئے مہنگائی اور غربت نے مت مار رکھی ہے۔ کالم کے ابتدائی حصہ میں ان رقومات کا ذکر کیا تھا جو انصافی سوشل میڈیا مجاہدین نے پچھلے آٹھ دس سال میں برآمد کروائی تھیں۔ وہ رقم اگر اب وزیراعظم برآمد کروالیں تو اور کچھ نہیں ایک سال کیلئے پیٹرول اور بجلی کی قیمتیں کم ازکم اسی سطح پر رُک سکتی ہیں۔
حرف آخر یہ ہے کہ یہ سطور غالباً چار فروری کو شائع ہوں گی اس دن پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس بھی ہے۔ کیا ہم (ہم سے مراد عوام ہیں) یہ توقع کریں کہ پی ڈی ایم کی قیادت دسمبر اور جنوری میں پیٹرولیم اور بجلی کی چار اور تین بار بڑھائی گئی قیمتوں پر احتجاج کرتے ہوئے عوام سے یکجہتی کا اظہار کرے گی؟
اصولی طور پر تو پی ڈیم ایم کے قائدین کو عوام کا درد محسوس کرنا چاہئے تھا پتہ نہیں کیوں نہیں کیا۔
بہرطور ہم اُمید ہی کر سکتے ہیں کیونکہ ہمارے سیاستدانوں کی ترجیحات کچھ اور ہیں اور عوام کے مسائل اور، ڈر لگتا ہے کہیں پی ڈی ایم والے یہ نہ کہہ دیں کہ عوام ہمارے برسراقتدار آنے تک صبر کریں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: