اپریل 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کارِ سرکار (4) ۔۔۔ احمد علی کورار

خاوند بخش سر کھجانے لگا جس سے اس کے سر پر رکھی ٹوپی ٹیڑھی ہوگئی وہ ٹوپی سیدھی کر کے گہری سوچ میں پڑ گیا کہ کیا یہ سسٹم اس طرح سے چلتا رہے گا.

جب جمعہ خان نے چوہدری کو ڈیٹا والی بات بتائی تو چو ہدری نے زور سے قہقہہ مارا جمن تو بھی

ڈیٹا مانگا ہے رشتہ تھوڑی مانگا ہے

اس میں کون سی بڑی بات ہے..

ڈیٹا دے دینا اور اپنے صاحب کو گوش گزار کر دینا کہ یہ بندے چوہدری پیرل کے ہیں

باقی تفصیل ہم آ کر بتا دیں گے لگ پتا جائے گا کہ چوہدری پیرل کون ہے.اچھا خدا حافظ کل ملاقات ہوگی یہ کہہ کر چوہدری نے کال کاٹ دی.

خاوند بخش پاس کھڑا یہ سب باتیں سن رہا تھا

خاوند بخش جانتا تھا کہ کل چوہدری پیرل چند لوگوں کے ساتھ مٹھائی اور اجرک کے ساتھ آئے گا جو ہمیشہ ایسا کرتا رہا ہے اور ہر بار ہر افسر کو چکنی چپڑی باتوں سے یا دھمکی دھونس کہہ لیں کسی بھی طرح سے منا لیتا ہے یہ اس کا شیوہ رہا ہے.

لیکن جمعہ خان اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی بو کھلاہٹ کا شکار تھے وہ کل صاحب کے تیور دیکھ چکے تھے اور اسے معلوم تھا کہ معاملہ اتنی آسانی سے سلجھنے والا نہیں.

خاوند بخش سر کھجانے لگا جس سے اس کے سر پر رکھی ٹوپی ٹیڑھی ہوگئی وہ ٹوپی سیدھی کر کے گہری سوچ میں پڑ گیا کہ کیا یہ سسٹم اس طرح سے چلتا رہے گا.آخر اس محکمے کو کیوں یر غمال بنایا گیا ہے ان چوہدریوں میروں معتبروں وڈیروں کا اس محکمہ پہ حاوی ہونا روز اول سے اس کا مقدر بن چکا ہے کیوں اس کو ان لوگوں نے اپنی میراث سمجھا رکھا ہے کیوں وہ اپنے ووٹرز کو خوش کرنے کے لیے میرٹ کی دھجیاں اڑا کر اپنے ہی لوگوں کو نوکریوں سے نوازتے ہیں اور اس محکمے کا ہر آفسر کیوں ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے

نہیں نہیں یہ تو ہر محکمہ میں اس طرح ہوتا ہے

پھر خیال آیا شاید اس میں زیادہ بلکہ بہت زیادہ ایسا ہوتا ہے.

لیکن خاوند پر امید ہے کہ ایک دن کرن پھوٹے گی اور گھٹا ٹوپ اندھیروں کے سائے ختم ہو جائیں گے.

خاوند بخش انھی خیالوں میں گم تھا اچانک کان پہ زور دار آواز پڑی نامراد چائے بنانے کا ٹائم ہو گیا کن خیالوں میں ّ گم ہو گلاب نے اسے جھٹک کر کہا.

خاوند بخش نے سائیکل نکالی اور دودھ لینے کےلیے چلا گیا.

ادھر آفیس کی طرف آتے کچھ لوگوں کا جمگھٹا نظر آیا یہ اس علاقے کے صحافی حضرات تھے جو نئے صاحب کا سن کر ان سے انٹرویو کرنے آئے تھے یہ روایتی صحافی حضرات تھے جنھیں پتا تھا کہ صاحب کی تعریف میں چند کلمات لکھ دیں گے تو روزی روٹی کا سامان ہو جائے گا جو وہ ہمیشہ ایک عرصہ سے کرتے آرہے تھے اور انھیں معلوم تھا کہ صاحب لوگ فوٹو سیشن سے کتنے خوش ہو جاتے ہیں.

(جاری)

یہ بھی پڑھیے:

کار سرکار(1) ۔۔۔ احمد علی کورار

کار سرکار(2) ۔۔۔ احمد علی کورار

گریڈز کی تعلیم ۔۔۔ احمد علی کورار

ماہ ِ اکتوبر اور آبِ گم ۔۔۔ احمد علی کورار

”سب رنگ کا دور واپس لوٹ آیا ہے“۔۔۔احمد علی کورار

مارٹن لوتھر کا ادھورا خواب اور آج کی تاریخ۔۔۔احمد علی کورار

%d bloggers like this: