اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلوچ قوم کیا چاہتی ہے؟۔۔۔عامر حسینی

پہلے ہم گاڑی کے ذریعے (تربت سے) ڈی بلوچ پہنچے وہاں گاڑیوں کو آگے جانے کی اجازت نہیں دی گئی پھر ہم چھوٹے چھوٹے بچوں و بچیوں کے ساتھ پیدل کَلاتُک پہنچے ـ

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلوچی زبان کے ادیب و فلم ساز ڈاکٹر حنیف شریف کی والدہ بی بی نسیمہ بلوچ اُن خواتین میں شامل تھیں جنھوں نے دشوار گزار راستوں سے پیدل چل کر کریمہ بلوچ کے آبائی گاؤں میں پہنچے اور اس دوران پھر وہی مناظر کہ ایک طرف ریاستی اداروں کا جبر تو دوسری طرف ڈرے ہوئے، سہمے ہوئے اور دل میں ظالم کی نفرت رکھنے کے باوجود اپنے گھروں کو بچانے کی جھوٹی آس لیے ہوئے بلوچ مرد کہ انھوں نے جبر کے ڈر سے بلوچ عورتون کو لفٹ دینے سے انکار کردیا… بلوچی زبان کے ادیب ڈاکٹر محمد حنیف بلوچ کی والدہ کی جرآت اور ہمت کا ایک زمانہ گواہ ہے کہ جب 2007ء میں ان کے بیٹے کو جبری گمشدہ بنا ڈالا گیا تو یہ اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے سڑکوں پہ نکل آئیں، ان کا بیٹا بازیاب ہوا تو تب سے یہ گھر نہیں بیٹھیں، ان کا عزم ہے کہ بلوچ قوم پہ جبر و استحصال کے چھائے تاریک سائے ختم کرکے دَم لیں گی-
انہوں نے کریمہ بلوچ کے جنازے اور تدفین کے بعد کیا گفتگو کی اُس کا اردو ترجمہ میری درخواست پہ ہم سب کے جگت ماما زوالفقار علی ذلفی بلوچ نے کیا ہے :
پہلے ان (بانک کریمہ بلوچ) کو قتل کیا پھر ہمیں ان کی میت بھی نہیں دی ـ
ہمارے ساتھ ظلم ہوا ہے ـ
کل ہم نے کافی پیدل سفر کیا ـ
پہلے ہم گاڑی کے ذریعے (تربت سے) ڈی بلوچ پہنچے وہاں گاڑیوں کو آگے جانے کی اجازت نہیں دی گئی پھر ہم چھوٹے چھوٹے بچوں و بچیوں کے ساتھ پیدل کَلاتُک پہنچے ـ
کلاتک کا راستہ بند تھا ـ ہمیں (فوج نے) لوٹا دیا ـ
پھر ہم نے پہاڑوں اور جنگلوں کا راستہ اختیار کیا ـ
ہم شدید تکالیف برداشت کرتے ہوئے یہاں (تُمپ) پہنچے ـ
ہمیں کسی بھی گاڑی نے لفٹ نہیں دی ـ کسی بھی بلوچ نے ہمت اور غیرت کا مظاہرہ نہیں کیا ـ سب فوج سے ڈر رہے تھے ـ
ہماری بانک کے جنازے پر ہمیں صعوبت برداشت کرنی پڑی ، یہ نہیں ہونا چاہیے تھا ـ
فوجی ہم پر ہنس رہے تھے کہ تم لوگ کیسے جنازے کے مقام پر پہنچو گے؟
لیکن ہم نے عزم کرلیا تھا جب تک ہمارے پیر ساتھ دیں گے ہم پہنچ کر رہیں گے ـ
فوج ہماری مالک نہیں ہے ، وہ ہمارے پیروں پر اختیار نہیں رکھتی ـ وہ گاڑیوں کا راستہ روکے گی تو ہم پیروں کا استعمال کریں گے ـ
یہ ہمارا راستہ نہیں روک سکتے ـ ہم بالآخر پہنچ گئے ـ ہم نے اپنی بانک کی میت کو بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا پرچم بھی اوڑھایا اور انہیں پھول بھی چڑھائے ـ
ہم نے قرآن پاک کی تلاوت بھی کی ـ
ہمارے پیروں کی حالت دیکھو!
چھالے پڑ گئے ہیں ـ
فوج نے اپنی پوری طاقت استعمال کی ـ
فوج کو شرم آنی چاہیے کہ اس نے ہم عورتوں پر ظلم ڈھایا ـ
بعض عورتوں کے پیر بھاگنے کی وجہ سے زخمی ہوگئے ـ
ہم نے فوج کی نظروں سے بچنے کے لیے پہاڑوں اور جھاڑیوں سے جلدی جلدی گزرنے کے لیے دوڑ لگائی ـ
بعض ضعیف عورتوں کے پیروں سے خون نکل گیا ـ
یہ سراسر زیادتی ہے ـ ہم اپنے وطن میں فوج نہیں چاہتے ـ
ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے ان فوجیوں کی ـ
ہم مرنے سے نہیں ڈرتے ـ ایک بانک کو ماردیا تو کیا ہوا ہم سب بانک ہیں ـ
ہم اپنے وطن کو نہ ان کے ڈر سے چھوڑیں گے اور نہ ہی اپنے وطن پر ان کو قبضہ برقرار رکھنے دیں گے ـ
(بندوبست پنجاب میں رہنے والی عوام، پاکستان کے شہری علاقوں میں کارپوریٹ میڈیا کے زیر اثر رہنے والے لوگو! بلوچ بلوچی زبان میں بولنا اور لکھبا پسند کرتے ہیں، اُن کی اکثریت کو یہ لگتا ہے کہ اردو میں بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس زبان میں اُن کی بات سمجھ کر اُن سے اظہار یکجہتی کرنے والے چند لوگ ہوں گے، لیکن ہم جیسے لوگ چاہتے ہیں کہ بندوبست پنجاب میں رہنے والے عوامی طبقات تک یہ بات پہنچے کہ وہاں بلوچستان میں کیا ہورہا ہے؟ بلوچ عوام اپنے علاقوں سے فوج کی واپسی چاہتے ہیں جس کا اظہار برملا ڈاکٹر حنیف بلوچ کی والدہ نسیمہ بلوچ نے کردیا ہے-)

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

%d bloggers like this: