اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اسٹبلشمنٹ اور اُن کے طفیلی۔۔۔عامر حسینی

اس دوران پی ٹی آئی کا سربراہ عمران خان کیا کررہا تھا؟ وہ طالبان، القاعدہ سمیت گلوبل جہادیو‍ں کو مزاحمت کار بنا کر دکھا رہا تھا اور آج بھی وہ اس کا کریڈٹ لیتا ہے-

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں شیعہ نسل کُشی کے حوالے سے بالعموم اور شیعہ ہزار نسل کُشی کے بارے میں بالخصوص ایسی تنظیموں اور جماعتوں
کے حامی جن کا جھکاؤ اسٹبلشمنٹ کی طرف ہے کا رویہ سیاسی جماعتوں کو الزام دینے کا ہے اور خاص طور پر پی پی پی کی قیادت کو-
مثال کے طور پر سندھ میں ایم کیو ایم، پی ٹی آئی، مجلس وحدت المسلمین سے تعلق رکھنے والے شیعہ خواتین و حضرات ہوں جن کی اکثریت اردو اسپیکنگ ہوتی ہے یا پنجاب میں مجلس وحدت کے لوگ ہوں یہ کہتے ہیں کہ پی پی پی حکومت زرداری شیعہ ہزارہ نسل کشی کی زمہ دار ہے-
لیکن یہ الزام جب ہم ہزارہ شیعہ پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی ٹائم لائن کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو سفید جھوٹ نکلتا ہے:
ہزارہ شیعہ کمیونٹی پر تباہ کُن دہشت گردانہ اور ٹارگٹ کلنگ حملے سب سے زیادہ لشکر جھنگوی کی بلوچستان تنظیم نے کیے جس کا سربراہ اُس وقت عثمان سیف اللہ کرد اور اُس کا دست راست داؤد بادینی تھا- عثمان سیف اللہ کرد ایک ٹرک ڈرائیور تھا اور یہ برین واش ہوکر سپاہ صحابہ میں شامل ہوا اور داؤد بادینی کا والد بھی سپاہ صحابہ میں تھا- عثمان سیف اللہ کرد سپاہ صحابہ کا ڈیتھ ونگ قائم کرنے والے ریاض بسرا کے بہت قریب تھا اور بعد ازاں یہ ملک اسحاق کے بھی قریب رہا بلکہ ملک اسحاق نے ہی لشکر جھنگوی بلوچستان کی تشکیل میں مدد کی-
داؤد بادینی القاعدہ کے نائن الیون کے. ماسٹر مائینڈ خالد شیخ اور یوسف رمزی کا رشتہ دار تھا اور اسے دوہزار چار میں کراچی رینجرز نے گرفتار کیا- اس نے انوسٹی گیشن کے دوران 2003ء سے 2004ء تک کوئٹہ میں شیعہ اور ہزارہ شیعہ کے خلاف ہوئی تمام بڑی چھوٹی وارداتوں کے پیچھے ماسٹر مائینڈ ہونے کا اعتراف کیا-
دسمبر 2006ء میں کریمنل انوسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ کراچی نے عثمان سیف اللہ کرد کو گرفتار کرلیا-
عثمان کرد نے بھی ہزارہ شیعہ اور نان ہزارہ شیعہ کے خلاف خود کش بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کی متعدد وارداتوں کی پلاننگ کا اعتراف کیا-
یہ دونوں دہشت گرد کینٹ کے علاقے میں انتہائی سخت سیکورٹی میں مچھ جیل میں رکھے گئے – اس دوران بلوچستان میں شیعہ ہزارہ پر حملوں میں کمی آئی- 2006ء سے 2008ء تک….
پھر 2008ء میں یہ دونوں دہشت گرد ایف سی، فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی موجودگی کے باوجود ایف سی کی ہی ایک گاڑی میں فرار ہوئے-
مچھ جیل سے عثمان کرد اور بادینی کا فرار اسقدر حفاظتی اقدامات کے ہوتے ہوئے کئی سوال کھڑے کرگیا کیونکہ 2008ء سے 2015ء تک ان دونوں دہشت گردوں کے مارے جانے تک لشکر جھنگوی بلوچستان نے 14 سو وارداتیں ہزارہ شیعہ کمیونٹی کے لوگوں کے خلاف ہوئیں جن میں جنوری 2013ء کی واردات بھی تھی جس کے بعد مجلس وحدت المسلمین سمیت دھرنا کمیٹی کے کہنے پر بلوچستان سمیت کوئٹہ کی مکمل سیکورٹی فوجی قیادت کے سپرد کردی گئی تھی- کوئٹہ میں گورنر راج لگنے کے ایک ماہ بعد ہی فروری 2013ء میں قرنی روڈ ہزارہ ٹاؤن میں پھر خودکش بم دھماکہ ہوا جس میں 74 ہزارہ شیعہ قتل ہوئے اور یہ سلسلہ مسلسل جارہ رہا-
اس دوران یہ خبریں بھی آنی شروع ہوئیں کہ لشکر جھنگوی بلوچستان کے سربراہ عثمان کرد، داؤد بادینی وغیرہ کے شفیق الرحمان مینگل، حفیظ بروہی اعر دیگر سے بھی روابط استوار ہوئے اور لشکر جھنگوی بلوچستان نے اپنی کاروائیوں کا سلسلہ بلوچستان کی سرحد سے ملحق سندھی علاقوں تک بڑھادیا جن میں عثمان کرد نے سب سے بڑی واردات شکارپور کی امام بارگاہ میں کی تھی-
اگر لشکر جھنگوی بلوچستان کی ہزارہ کمیونٹی کے خلاف کاروائیوں کی ٹائم لائن کو دیکھا جائے تو یہی وہ دورانیہ بھی ہے جب شفیق مینگل کی تنظیم ابھری اور اسی دور میں ایران-پاکستان سرحد کے ساتھ کیچ جیسے علاقوں میں لشکر رسول اللہ، الفرقان، العدل جیسے عسکریت پسند یونٹ سامنے آئے، اس دور میں بلوچستان میں سپاہ صحابہ پاکستان کی سربراہی رمضان مینگل، ظہور شاہوانی و دیگر کے ہاتھ آئی-
اگر آپ اس دوران غیر جانبدار دفاعی تجزیہ کاروں اور کانفلکٹ زون پر مہارت رکھنے والوں میں چل رہی
Faith based violence
پر بحث دیکھیں تو اکثر تجزیہ نگار یہ کہتے پائے جاتے تھے کہ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ میں یہ جو اچھے اور بُرے عسکریت پسند سٹریتجک اثاثوں کی تقسیم ہے یہ بہت بڑا سبب ہے پاکستان میں شیعہ نسل کُشی کی-
ایسے میں اُس زمانے میں جہاں ایک طرف تو ہماری عسکری اسٹبلشمنٹ جہادی تزویراتی اثاثے بچا رہی تھی جس کا فائدہ تکفیری بھی اٹھاتے تھے تو ہماری عدلیہ پی پی پی کی حکومت پر سوموٹو گن تانے کھڑی تھی- یہی وہ دور تھا جب ملک اسحاق کو سپریم کورٹ نے ضمانت پہ رہا کردیا- کیا یہ رہائی بھی پی پی پی کی حکومت یا زرداری نے کرائی تھی؟ اور اس دور میں چاروں صوبوں کی ہائیکورٹس سے ہائی پروفائل دہشت گرد ماسٹر مائینڈ رہا کیے گئے اور کئی ایک جیلیں توڑ کر فرار ہوگئے-
یہی وہ دور بھی ہے جب پی پی پی کی حکومت پر چیف آف آرمی اسٹاف اور جنرل شجاع پاشا نے میمو گیٹ اسکینڈل بنایا اور صدر و وزیراعظم سمیت پی پی پی کے حکومتی عہدے داروں کو غدار ٹھہرایا گیا-
یہاں ایک اور تضاد بھی سامنے رکھیں جب اسٹبلشمنٹ کے اشارے پر پاکستانی الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پی پی پی کی حکومت پر یہ الزام عائد کررہا تھا کہ وہ امریکہ کے ساتھ مل کر پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کو کمزور کرنے کی کوشش کررہی ہے تو یہ وہ وقت تھا جب پی پی پی کی حکومت فوج اور آئی ایس آئی کو سویلین کنٹرول میں لینے اور ان میں تزویراتی گہرائی اور ڈیپ اسٹیٹ کے عناصر کو نکال باہر کرنا چاہتی تھی، وہ امریکہ اور یورپ سے بہت بڑا مالیاتی پیکج لیکر دہشت گردی سے بدحال ملک کو خوشحال بنانا چاہتی تھی لیکن آمریت سے جمہوری بالادستی کے اس پرامن سفر کو خون میں نہلادیا گیا-
کیا عجیب بات ہے کہ لشکر جھنگوی بلوچستان کا چیف فرار ہوتا ہے فوجی سیکورٹی سے اور اس کی پھیلائی تباہی اور شیعہ نسل کشی کا الزام اُس حکومت پر لگتا ہے جس کے سبھی عہدے دار اور اس حکومت میں شامل دو بڑی جماعتوں کے سب چھوٹے بڑے سیاست دان تکفیری دہشت گردوں کے نشانے پر ہوتے ہیں-
پی پی پی اور اے این پی جن کی قیادت پر مجلس وحدت المسلمین، ایم کیو ایم، پی ٹی آئی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی و دیگر شیعہ نسل کُشی کا الزام لگاتیں اور یہاں تک کہ پی پی پی کی حکومت کو یزیدی حکومت کہتی رہیں کے خلاف تحریک طالبان، لشکر جھنگوی، القاعدہ سب سرگرم ہوتی ہیں اور ان دو جماعتوں کو الیکشن کمپئن بھی چلانے نہیں دی جاتی، لشکر جھنگوی بلاول بھٹو زرداری کو پنجاب میں حملوں کی دھمکی دیتی ہے اور اے این پی الیکشن کمپئن کے دوران اپنے دو سو کارکنوں کی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے اور بشیر بلور کی جان چلی جاتی ہے-
کہا اس سے بڑی ستم ظریفی کوئی اور ہوسکتی ہے کہ جو حکومت ضیاء الحق کے دور سے شروع ہونے والی جہادی تزویراتی پالیسی اور اس کے حامی اسٹبلشمنٹ میں بیٹھے نیٹ ورک سے جان چھڑانے کا منشور لیکر آئی ہو اُسے ہی اُن چیزوں کا سزاوار ٹھہرایا جائے جن کی مخالفت کی سزا اُس حکومت میں شامل پارٹیوں نے اپنی قیادت کی قربانی کی سزا میں بھگتی ہو؟
اس دوران پی ٹی آئی کا سربراہ عمران خان کیا کررہا تھا؟ وہ طالبان، القاعدہ سمیت گلوبل جہادیوں کو مزاحمت کار بنا کر دکھا رہا تھا اور آج بھی وہ اس کا کریڈٹ لیتا ہے-
پاکستان میں آج بھی سب جانتے ہیں کہ تکفیری اور جہادی نیٹ ورک کی طاقت کہاں چھپی ہے اور اُن کو نیست و نابود کون سے گروہ نہیں ہونے دیتے؟ اعجاز شاہ کا بیان ابھی پرانا نہیں ہوا ہے- دفاع اسلام و دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم کو کس نے تشکیل دیا تھا؟
اسٹبلشمنٹ اور مختلف فرقوں کے نام پر بنی کئی ایک مذھبی سیاسی جماعتوں اور اُن کی قیادتوں کا باہمی رشتہ ماسٹر-کلائنٹ کا ہے
اور یہ اپنے آقاؤن کے جرائم اپنے آقاؤں کے حریفوں کے سر تھونپنے کے ماہر ہیں

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

%d bloggers like this: