اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

درد دل کا مرض۔۔۔ اشفاق نمیر

"مجھے لگتا ہے اس کے پیٹ میں کیڑے ہیں ناشتہ کرنے کے باوجود وہ ایک روٹی چوری سے اپنے ساتھ سکول لے کر جاتی ھے. وہ بھی چوری سے" یہ اس کی بیوی کیآواز تھی

اشفاق نمیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ناشتہ تو کر رہی تھی مگر اس کی آنکھیں امی پر جمی ہوئی تھیں وہ اس انتظار میں تھی کہ امی ذرا ادھر ادھر دیکھیں اور وہ اپنا کام کر لے ادھر امی ذرا سا غافل ہوئیں ادھر اس نے ایک روٹی لپٹ کر اپنی پتلون کی جیب میں ڈال لی وہ اس غلط فہمی میں تھی کہ امی کو پتا نہیں چلا مگر وہ یہ بات نہیں جانتی تھی کہ ماؤں کی ہر پر نظر ہوتی ہے اور ان کو کو ہر بات کی خبر ہوتی ہے جیسے ہی وہ سکول جانے کے لئے گھر سے باہر نکلی ویسے اس کا والد اس کے پیچھے چلنا شروع ہو گیا

اسے نہیں پتا تھا کہ اس کا والد اس کےپیچھے تعاقب میں ہے وہ سب سے بے خبر کندھوں پر سکول بیگ لٹکائے اچھلتی کودتی چلی جا رھی تھی جب وہ سکول پہنچی تو دعا حاضری شروع ہو چکی تھی وہ بھاگ کر دعا میں شامل ھو گئی جیسے ہی وہ بھاگی بھاگنے کی وجہ سے روٹی سرک کر اس کی جیب میں سے باہر نکل آئی اس کی سہیلیوں نے جب اس کی جیب میں روٹی دیکھی تو وہ مسکرانے لگیں مگر وہ ان سب سے بے خبر اپنا سر جھکائے، آنکھیں بند کیے پوری توجہ سے جانے دعا مانگنے میں مگن تھی

اس کا والد اوٹ میں چھپا اس کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ھوئے تھا دعا ختم ہوئی تو وہ اپنی کلاس میں آ گئی سکول کا سارا وقت پڑھنے لکھنے میں گزرا .مگر اس کی جیب والی روٹی ویسی رہی اور نہ اس نے روٹی کھائی چھٹی کی گھنٹی بجنے کے ساتھ سکول سے چھٹی کا اعلان ہوا تمام بچے اپنی اپنی کلاس سے نکل کر باہر کی طرف لپکے اب وہ بھی اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئی روٹی اب بھی اس کی جیب موجود تھی گھر جانے کے لیے اس نے بار اب اپنا راستہ بدل لیا تھا

اس کا والد اب بھی اس کے پیچھے تعاقب میں تھا تھوڑی ہی دور جا کر اس کے والد نے دیکھا وہ بچی ایک جھونپڑی کے سامنے رکی جھونپڑی کے باہر ایک بچہ کھڑا تھا اور ایسا لگتا تھا جیسے وہ اس کا انتظار کر رہا تھا اس بچی نے اپنی پتلون کی جیب میں سے روٹی نکال کر اس بچے کو دی روٹی لیتے ہی اس بچے کی آنکھیں جگمگانے لگیں اور وہ بے صبری سے نوالے چبانے لگا روٹی دینے کے بعد بچی آگے بڑھ گئی مگر اس کے والد کے پاؤں یہ سب دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ پتھر کے ہو چکے تھے اور اس کے کانوں مختلف آوازوں کی باز گشت آنے لگی
"لگتا ھے کہ اپنی منی بیمار ھے”
"کیوں؟ کیا ھوا ہے”
"مجھے لگتا ہے اس کے پیٹ میں کیڑے ہیں ناشتہ کرنے کے باوجود وہ ایک روٹی چوری سے اپنے ساتھ سکول لے کر جاتی ھے. وہ بھی چوری سے” یہ اس کی بیوی کیآواز تھی
"کیا آپ کی بیٹی گھر سے کھانا کھا کر نہیں آتی؟ ”
"کیوں؟ کیا ھوا؟ ”
” روزانہ اس کی جیب میں ایک روٹی ہوتی ہے” یہ اس کی کلاس ٹیچر کی آواز تھی
اس کا والد جب اپنے گھر میں داخل ہوا تو اس کے کندھے جھکے ھوئے تھے
” ابو جی… ابو جی…” کہتے ہوئے منی اس کی گود میں سوار ہو گئی.
” کچھ پتا چلا…؟ "اس کی بیوی نے پوچھا
تو اس کے والد نے بڑے دھیمے لہجے میں کہا” ہاں… پیٹ میں کیڑا نہیں ہے بلکہ درد دل کا مرض ھے….” اور یہ کہتے ہی اس کے ابو کا دل بھر آیا مگرمنی کچھ نہ سمجھ پائی تھی

یہ بھی پڑھیں:

جمہوریت کو آزاد کرو۔۔۔ اشفاق نمیر

چچا سام اور سامراج۔۔۔ اشفاق نمیر

 

%d bloggers like this: