مئی 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میاں محمد شریف کی پوتی گڑھی خدابخش میں۔۔۔حیدر جاوید سید

اس خاندان نے بھٹو مخالف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کو بھرپور مالی امداد بھی فراہم کی تھی۔ نوازشریف کی سیاست کا آغاز بھٹو دشمنی سے ہوا اور پھر قدم قدم وہ اس دشمنی میں آگے بڑھے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آج کا دن (27دسمبر 2020) منفرد دن ہے، 4اپریل1979ء کی صبح کاذب سے کچھ دیر قبل سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھایا گیا۔ ملک میں جنرل ضیاء کے مارشل لاء کا آسیب مسلط تھا،پی این اے میں شامل جماعتیں (خصوصاً جماعت اسلامی والوں کے گھروں پر جشن کا سماں تھا) اپنا مشن مکمل کروا چکی تھیں۔
ماڈل ٹائون لاہور کے ایچ بلاک میں اتفاق گروپ کے مالک میاں محمد شریف کی قیام گاہ پرتین دن تک غربا میں کھانا تقسیم ہوتا رہا کیونکہ اتفاق فونڈری کو قومی تحویل میں لینے والی حکومت کے سربراہ کو ان کے محبوب قائد جنرل ضیاء الحق نے پھانسی دیدی تھی۔ میاں محمد شریف کے صاحبزادے محمد نوازشریف مارشل لاء کی چھتر چھایا میں غیرجماعتی سیاسی نظام کا حصہ بنے اور اگلے برسوںمیں وہ پنجاب کے وزیر خزانہ بنا دیئے گئے۔
اس خاندان نے بھٹو مخالف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کو بھرپور مالی امداد بھی فراہم کی تھی۔ نوازشریف کی سیاست کا آغاز بھٹو دشمنی سے ہوا اور پھر قدم قدم وہ اس دشمنی میں آگے بڑھے۔
سال1988ء کے انتخابات سے قبل پولنگ کے دنوں (اس وقت قومی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات الگ الگ دنوں میں ہوتے تھے) میں ان کی رہائش گاہ پر حسین حقانی کی سربراہی میں قائم میڈیا سیل نے جو مظاہرہ کیا، وہ ہماری سیاسی تاریخ کا بدنما حصہ ہے۔
1980ء سے شروع ہوئی بھٹو دشمنی سیاست کی تاریخ بہت طویل ہے، چند بالائی سطور فقط ریکارڈ کیلئے تحریر کی ہیں۔ آج27دسمبر 2020ء ہے (یہ سطور لکھتے وقت) بھٹو کی پھانسی پر خوشی سے تین دن لنگر تقسیم کرنے والے میاں محمد شریف کی پوتی مریم نواز نے شہید بینظیر بھٹو کی 13ویں برسی کے موقع پر گڑھی خدابخش میں بھٹوز کی قبروں پر فاتحہ خوانی کی اور ان سطور کے لکھے جانے کے چند گھنٹے بعد وہ شہید بینظیر بھٹو کی برسی کی مناسبت سے منعقدہ جلسہ سے خطاب کریں گی۔
آپ اسے تاریخ کا جبر کہیں، انصاف یا جمہوریت کا انتقام، مجھ طالب علم کی رائے یہ ہے کہ یہ سبق ہے اُن تمام افراد کیلئے جو سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنیوں کی طرح پالتے ہیں، بدزبانی کے ریکارڈ بناتے غلیظ پروپیگنڈے کا طوفان اُٹھواتے ہیں۔
ہمیں کم ازکم اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ انگنت کمزوریوں کے باوجود پیپلزپارٹی نے سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنیوں میں تبدیل کیا نہ اپنے مخالفین کی مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی بیہودہ تصاویر ہیلی کاپٹروں سے گروائیں۔
27دسمبر2020ء اس ملک کی تاریخ میں منفرد دن کے طور پر اپنے نقوش ثبت کرے گا۔ پیپلزپارٹی نے سیاسی اختلافات کو دشمنیوں میں بدلنے والوں کو پہلے بھی گلے لگایا اور درگزر سے کام لیا۔ بھٹو مخالف تحریک چلوانے والے قومی اتحاد کی بعض جماعتیں جب ایم آر ڈی نامی سیاسی اتحاد میں پیپلزپارٹی کیساتھ بیٹھیں تو اس موقع پر بیگم نصرت بھٹو صاحبہ نے اخبار نویسوں کے سوالات کے جواب میں تحمل وبردباری کیساتھ کہا تھا ”سیاست میں ذاتی نفرت اور دشمنیاں نہیں پالی جاتیں” دوسرا مظاہرہ اکتوبر1999ء کے بعد بننے والے سیاسی اتحاد اے آر ڈی کے قیام کے وقت پیپلز پارٹی نے کیا جب پیپلزپارٹی اپنے خون کی پیاسی نون لیگ کیساتھ مشرف کی فوجی حکومت کیخلاف اکٹھی ہوئی۔
آج پھر پیپلزپارٹی نے عملی طور پر ثابت کیا کہ سیاست میں اختلافات ہوتے ہیں، ذاتی دشمنیاں نہیں۔ بلاشبہ مریم نواز کا 27دسمبر کو گڑھی خدابخش جانا مناسب ترین ہے، نون لیگ کی قیادت کے اس فیصلے کی تحسین ہونی چاہئے۔
ہمارے وہ دوست اور عزیزان جو دونوں جماعتوں سے ہجرت کر کے پچھلے دس برسوں میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے 27دسمبر میں ان کیلئے بھی سبق ہے کہ نفرت، گالم گلوچ،کردارکشی کو دوام نہیں۔ سیاسی اقدار، سماجی روایات اور درگزر کو دوام ہے۔
انسانی سماج کو تحمل وبردباری ہی اکٹھا رکھتی ہے۔ نفرت بھری سیاست اور بدزبانیوں نے کل کچھ دیا اس ملک کو، آج کچھ ملے گا، نہ آنے والے کل میں۔ پیپلزپارٹی اسی سماج کے لوگوں کی جماعت ہے، اس کے بانی خاندان، رہنمائوں اور کارکنوں کا خمیر اس دھرتی سے اُٹھا ہے، آپ لاکھ اختلاف کیجئے لیکن آج نہیں تو کل اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے کہ پیپلز پارٹی افراد، محکموں اور عدلیہ سے ذاتی دشمنی نہیں پالتی۔
جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کیلئے وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ نون لیگ نے بھی ماضی سے بہت کچھ سیکھ لیا،جو فصل اس نے بوئی وہ کاٹی بھی، اب اگر اسے یہ احساس ہو ا ہے کہ ماضی میں جو کچھ اس نے پیپلزپارٹی اور بھٹو خاندان سے روا رکھا وہ قطعی طور پر غلط تھا تو اس نئی سوچ پر طعنہ بازی نہیں تحسین ہونی چاہئے۔
27دسمبر 2020کادن تحریک انصاف اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو بھی اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ نفرت، گالم گلوچ، فتوئوں، غداری کے الزامات، سیکورٹی رسک جیسے بھونڈے جملے سب وقت کی گرد میں دفن ہوتے ہیں۔ ہم آگے بڑھتے ہیں، مکرر عرض کئے دیتا ہوں سیاست میں اختلافات جمہوریت کا حسن ہیں، نفرتوں سے بھری اسٹیبلشمنٹی سیاست میں گردن پھنسا کر ہم سات دہائیاں گنواچکے۔ حرف آخر یہ ہے کہ اس ملک کا مستقبل جمہوریت میں ہے نفرتوں کے کاروبار میں نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: