مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عرش صدیقی، جاتا دسمبر اور نیا سال۔۔۔رانا محبوب اختر

دسمبر،حال کے ماضی بننے کے رومانس سے جڑا ہوا ہے۔تقویم کا اسرار جو آگے بڑھتے ہوئے ہمیں پیچھے دھکیل رہا ہے۔عیسی علیہ السلام کا جنم دن 25 دسمبر ہے ۔ بانء پاکستان قائداعظم رح بھی اسی دن پیدا ہوئے تھے۔یادش بخیر! میاں نواز شریف بھی 25 دسمبر کو پیدا ہوئے تھے۔

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوگوں کے درمیان وقت بدلتا ہے۔حال ماضی کی طرف رخ کئے الٹے پاؤں مستقبل کی طرف چلتا ہے۔گئے زمانوں اور بچھڑے ہوئے لوگوں کو ہم یاد کرتے ہیں!ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا:
"Time present and time past are both perhaps present in time future, And time future contained in time past”
حال اور ماضی شاید مستقبل میں چھپے بیٹھے ہیں اور مستقبل ماضی میں موجود ہے۔پیڑک موڈیانو فرانس کا نوبیل انعام یافتہ ناولسٹ ہے۔اس کے ناول ” گمشدہ آدمی” کا ہیرو ماضی کا سفر کرتا ہے۔ماضی کے طلسم کدے میں اپنے آپ کو ڈھونڈتا ہے:
"You were right to tell me that in life it is not the future which counts, but the past.”
تم نے سچ کہا تھا کہ زندگی میں مستقبل سے زیادہ ماضی قیمتی ہوتا ہے!
دسمبر،حال کے ماضی بننے کے رومانس سے جڑا ہوا ہے۔تقویم کا اسرار جو آگے بڑھتے ہوئے ہمیں پیچھے دھکیل رہا ہے۔عیسی علیہ السلام کا جنم دن 25 دسمبر ہے ۔ بانء پاکستان قائداعظم رح بھی اسی دن پیدا ہوئے تھے۔یادش بخیر! میاں نواز شریف بھی 25 دسمبر کو پیدا ہوئے تھے۔

اتفاقات ہیں زمانے کے!27دسمبر 2007کو راولپنڈی میں سندھو کی لالڑی خون میں نہا کر امر ہوئی، شاہ لطیف کی آٹھویں سورما جو زندگی بھر موت سے انکھ مچولی کھیلتی رہی، شہادت سے امر ہو گئی تھیں۔27دسمبر2014کو میری اماں کی وفات ہوئی، ایک بہادر ماں جو شیرنی کی طرح زیست کرنے کا قرینہ جانتی تھیں۔

دسمبر کے گھاو جو بھرتے نہیں۔2020کا دسمبر مگر زیادہ سرد ، دھندلا اور اداس ہے۔کورونائی دہشت گردی سے کئی دوست زمین سے زیرِزمین چلے گئے۔ذاتی حوالے سے قیوم خوگانی اور حیدر عباس گردیزی داغِ مفارقت دے گئے اور ادبی حوالے سے شمس الرحمن فاروقی سا عبقری چل بسا۔اس کے علاوہ لاکھوں لوگوں کی موت کا غم ہمارا غم ہے۔

دعا ہے کہ2021میں کورونا کا قہرکم ہو۔ زندگی کی مضحکہ خیزی معمول کی لایعنیت کا لباس پہن لے اور غناسطی عفریت پسپاء ہو جائیں!
دسمبر کے مہینے میں کون ہے جو استادِمن عرش صدیقی کی نظم نہیں پڑھتا۔ یہ نظم ہمارے مرحوم استاد نے اپنی بیٹی کی وفات پر لکھی تھی۔
"اُسے کہنا، دسمبر آگیا ہے
دسمبر کے گزرتے ہی،برس اک اور ماضی کی گھپا میں ڈوب جائیگا
اُسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا
مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جاگے گا
اُسے کہنا ہوائیں سرد ہیں
اور زندگی کُہرے کی دیواروں میں لرزاں
شگوفے ٹہنیوں میں سو رہے ہیں
اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے
اُسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا
تو کیسے برف پگھلے گی
اُسے کہنا کہ لوٹ آئے
دسمبر آگیا ہے
عرش صاحب جامعہ ملتان میں شعبہ انگریزی کے پہلے سربراہ تھے۔درمیانہ قد، گول چہرہ، گورا رنگ،داڑھی مونچھ صاف، موٹے شیشوں والی عینک اور کوٹ پینٹ پہنے وہ جامعہ ملتان کی بجائے آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر لگتے تھے۔زندگی کو مارکسی شیشوں والی عینک سے دیکھتے تھے۔

ان کی شخصیت ہم جیسے پینڈووں کو مسحور کرتی تھی وہ غریب الدیار پینڈو جن کو لاہور جانے کی توفیق نہ تھی اورذوالفقار علی بھٹو کی بنائی جامعہ میں غلام، آقا کی زبان انگریزی پڑھنے آ دھمکے تھے۔ عرش صاحب استاد ہونے کے علاوہ افسانہ نگار، محقق اور شاعر تھے۔نثر سے زیادہ مگر ان کی شاعری مقبول ہوئی۔شاعری میں بھی غزلوں سے زیادہ ان کی نظمیں زباں زدِعام ہیں۔ ان کی ایک مقبول نظم”محبت لفظ تھا میرا”اس طرح ختم ہوتی ہے:”
میں کہنا چاہتا تھا
عمر گزری جس کی چاہت میں
وہی جب مل گیا تو اور اب
کیا چاہیے مجھ کو
مگر تقریر کی قوت نہ تھی مجھ میں
فقط اک لفظ نکلا تھا، لبوں سے کانپتا، ڈرتا
محبت لفظ تھا میرا
مگر اس نے سنا روٹی”!
عرش صدیقی کی نظم کا امتیاز یہ ہے کہ وہ نظم کو افسانے کی طرح abrupt طریقے سے ختم کرتے ہیں ۔غیر متوقع نتیجے سے قاری کو شاک لگتا ہے۔ایک نظم میں وہ محبوبہ کے دئیے تحفے کو گندم اور چاول خریدنے کو بیچ آتے ہیں۔کلائمکس اور اینٹی کلائمکس کی جدلیات سے نظم کی عمومی فضا کو صدمے سے دوچار کرتے ہیں اوراینٹی کلائمکس کو بالعموم ایک جملے میں سمو دیتے ہیں۔

یوں پوری نظم کو یکدم الٹی سمت میں گھما دیتے ہیں۔نظم کا نامیاتی وجود توڑ دیتے ہیں اور وحدتِ خیال ڈرامائی موڑ مڑ جاتی ہے۔”اسے کہنا دسمبر آگیا ہے”ان کی عام نظموں سے مختلف ہے کہ اس میں خیال کی وحدت قائم رہتی ہے اور اسے کہنا کہ لوٹ آئے کی چوٹ روح پہ پڑتی ہے۔

اس نظم کے پیچھے ایک باپ کا دیدۂ یعقوب ہے۔یہ نظم ان کی کم سن اور پیاری بیٹی منزہ کی موت کا نوحہ ہے۔عرش صاحب کے دوست اور ملتان سے جڑے ہوئے شاعر، افسر ساجد نے بیادِعرش صدیقی ایک نظم لکھی ہے جو ہمارے محبوب شاعر انور جمال نے شیئر کی۔دیکھئے، کیا اچھی نظم ہے:
"اسے کہنا دسمبر آگیا ہے
دسمبر نام ہے سوئی ہوئی خواہش کی
حُرمت کا
دسمبر نام ہے ُالجھی ہوئی سوچوں کی ُغربت کا
دسمبر درد کے بیدار ہونے کا مہینہ ہے
دسمبرمنتشر ہوکر بکھرنے کا قرینہ ہے

دسمبر میں ہمارے خواب بھی ُروئی کے
گالوں کی طرح
ُاڑکر فضامیں پھیل جاتے ہیں
دسمبر میں زمانے کے گزرنے کا’
لہو کے سرد ہونے کا
عجب احساس ہوتا ہے

ُاسے کہنا دسمبرجا رہا ہیاور
اب تک تم نہیں آئے
ُاسے کہنا دسمبر جا ُچکا تو پھر’
نیا اک سال ہو گا اور
ُاس میں کون جیتا ہے!”
نئے سال کی آمد پہ شوکت علی کا شعر دیکھئے:
مجھے کیا دیا ہے تضادِ علمِ جہاں نے
تیرا چہرہ میری کتاب ہو نئے سال میں
شوکت علی ہمارے بیچ میٹ تھے۔شاعر تھے اور افسر ہوکر ” خوشبو ” کی خالق ، پروین شاکر کے محکمے میں گئے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ افسری سے مقابلے میں شاعر کھیت ہوا، افسر نہ جانے کدھر ہے!

اداسی کے دبستاں کے معتبر حوالوں کو لیلائے سول سروس کا سفر درپیش ہو تو شوکت نہیں، پروین کی روشنی معتبر کرتی ہے!کہ افسری بھی وقت کی طرح اضافی ہے۔ آئن سٹائن نے اضافیت دریافت کی تھی۔ اس نے کہا، حقیقت تین ابعادی نہیں اور زمان و مکاں چوتھی dimensionہیں۔کافکائی کائنات میں زندگی وقت کے اسرار سے بندھی ہے۔نہ آغاز کی خبر نہ انتہا معلوم۔پروین طاہر کی نظم وقت کی اضافیت کو سمجھنے میں مددگار ہے:
"ویران ہو جاتی ہیں وہ آنکھیں
جو ایک ہی چہرہ دیکھنے پر
اصرار کرتی تھیں
ہاتھ سے وعدوں کا پیالہ چھوٹ جاتا ہے
روپہلے،سنہری ،سُرخ، سبز اور زرد خواب
سب کیسب مٹی میں مل کر
بے وقعت ہو جاتے ہیں
حاصل،لاحاصل، قدردانی اور رائیگانی
تنہائی کی قبر میں ایک ساتھ اتر جاتے ہیں
سارے رنگین ورق
قرطاس ابیض بن کر
نوشتہ دل وجاں
کا منہ چڑاتے ہیں
عشق، خواب اور شاعری
سب اضافی ہیں
اضافت کا ایک ہی پیمانہ ہے
وقت…..!”
وقت کی تہ میں اترتے انسانوں کے لئے جہاں دسمبر کئی درد بیدار کرتا ہے وہاں کرسمس کی خوشیاں اور نئے سال کا سندیسہ لاتا ہے۔”زمانے کے گزرنے کا، لہو کے سرد ہونے کا عجب احساس ہوتا ہے۔”سات عشق ” رائیگاں جاتے ہیں۔وقت بدلتا ہے۔لوگ مگر سارے عذابوں کے باوجود خوشی کے خواب دیکھتے آئے ہیں اور نجومی نئے سال کو اچھا کہتے آئے ہیں۔کہ زندگی ہر دن نئی امنگ کے ساتھ دھنک پر قدم رکھتی ہے!

یہ بھی پڑھیے:

محبت آپ کی میز پر تازہ روٹی ہے۔۔۔رانا محبوب اختر

عمر کوٹ (تھر)وچ محبوبیں دا میلہ۔۔۔ رانا محبوب اختر

ماروی کا عمر کوٹ یا اَمرکوٹ!۔۔۔رانامحبوب اختر

%d bloggers like this: