مئی 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خواجہ آصف کی گرفتاری۔ اب ’’زبانِ غیر‘‘ سے ’’شرحِ آرزو‘‘ ہو گی۔۔۔ نصرت جاوید

کامل اداسی کے رواں موسم میں کبھی کبھار شیخی بگھارتے ہوئے جی کو خوش کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔ خواجہ آصف سے ذاتی تعلقات میرے بہت دیرینہ ہیں۔ دوستوں کی محفل میں ہمارا باہمی پھکڑپن وہاں موجود’’مہذب‘‘ افراد کو اکثر ناگوار گزرتا ہے۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کامل اداسی کے رواں موسم میں کبھی کبھار شیخی بگھارتے ہوئے جی کو خوش کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔ خواجہ آصف سے ذاتی تعلقات میرے بہت دیرینہ ہیں۔ دوستوں کی محفل میں ہمارا باہمی پھکڑپن وہاں موجود’’مہذب‘‘ افراد کو اکثر ناگوار گزرتا ہے۔

اس تمہید کے بعد غالباَ یہ لکھنے کی ضرورت نہیں رہی کہ منگل کی شام ان کی گرفتاری کی بابت خود کو  رنجیدہ محسوس کیا۔ ہر انسان کی طرح لیکن میرے اندر بھی کمینگی شاید دیگر لوگوں کے مقابلے میں زیادہ مقدار میں پائی جاتی ہے۔ تسلی محض یہ سوچتے ہوئے خود کو دیتا رہا کہ ان کے ضمن میں بالآخر درست ثابت ہوا۔

میرے ایک بہت ہی مہربان صحافی دوست ہیں۔ فاروق نائیک سے بھی ان کی گہری دوستی ہے۔ اکثر اوقات وہ انہیں اپنے گھر کھانے کو مدعو کرلیتے ہیں۔ مجھے شمولیت کو اُکساتے ہیں اور ہم دونوں باہم مل کر نائیک صاحب سے مختلف قانونی معاملات کی نزاکتوں اور باریکیوں کو سمجھنے میں مشغول رہتے ہیں۔

آج سے تقریباََ چار ماہ قبل بھی ایسی ہی ایک محفل کا اہتمام ہوا تھا۔ فاروق نائیک اور خواجہ آصف خالہ زاد ہونے کے علاوہ ایک دوسرے کے بہنوئی اور سالے بھی ہیں۔ نائیک صاحب کو خواجہ صاحب سے میری دوستی کا بخوبی علم ہے۔ اس روز میں نے نائیک صاحب کی وساطت سے ’’اپنے دوست‘‘ کو پیغام پہنچانا چاہا کہ عمران خان صاحب کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے ’’چاہے ایک ہی رات کو‘‘ مگر وہ کسی نہ کسی مقدمے میں جیل ضرور بھیجے جائیں گے۔

نائیک صاحب کو میری بڑھک یاوہ گوئی محسوس ہوئی۔ ان کی دانست میں خواجہ صاحب کو ’’ہاتھ ڈالنا‘‘ ناممکن تھا۔ اس ضمن میں ان کے کامل اعتماد کے ’’منبع‘‘ سے میں بخوبی آگاہ تھا۔ اس کے باجود اپنے دعوے پر ڈٹا رہا اور منگل کی رات خواجہ صاحب نیب کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے۔

اپنے طویل سیاسی کیرئیر میں خواجہ آصف پہلی بار نیب کی تحویل میں نہیں گئے۔ جنرل مشرف نے اکتوبر 1999 میں اقتدار سنبھالتے ہی ’’بدعنوان سیاست دانوں‘‘ کو عبرت کا نشان بنانے کے لئے جو ادارہ بنایا اس کے پہلے سربراہ جنرل امجد تھے۔  وہ بہت سخت گیر آدمی تھے۔ ان کے حکم سے گرفتار ہوئے نامی گرامی اور ’’خاندانی‘‘ سیاست دانوں کو حراست کے دوران ان سہولیات سے بھی محروم رکھا جاتا تھا جو جنیوا کنونشن کے تحت جنگی قیدیوں کا ’’حق‘‘ شمار ہوتی ہیں۔

انور سیف اللہ بھی ان کے طیش کی زد میں آئے تھے۔ وہ سابق صدرغلام اسحاق خان کے داماد ہیں۔ غلام اسحاق خان نے صدارت سے استعفیٰ دینے کے بعد حکمرانوں اور اعلیٰ سطحی افسروں سے رابطے توڑ لئے تھے۔ اپنے پشاور والے گھر میں تنہا بیٹھے رہتے۔

اپنی بیٹی کی دورانِ حراست انور سیف اللہ خان سے ملاقات کو ممکن بنانے کے لئے تاہم جنرل مشرف سے فون کے ذریعے درخواست کرنے کو مجبور ہوئے۔ جنرل امجد جیسے سخت گیر چیئرمین نیب نے مگر خواجہ آصف کو گرفتاری کے چند ماہ بعد رہا کردیا۔ ان کے ساتھ ہوئی ’’زیادتی‘‘ کی بابت برسرعام معذرت کا اظہار کیا۔ خواجہ صاحب نے وہ دن بھی گزار لئے ہیں۔ شاید یہ وقت بھی گزر ہی جائے گا۔

ان کی گرفتاری مگر نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے ’’سنجیدہ اور تجربہ کار‘‘ رہنمائوں کو حیران و پریشان کردے گی۔ چند ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر وہ ہمیشہ اس گماں میں مبتلا رہے کہ عمران حکومت انہیں گرفتار کرنے کا ’’رسک‘‘ نہیں لے گی۔

اس گماں کو تقویت پہنچاتی جو وجوہات ہیں ان کا تفصیلی علم ہونے کے باوجود میں انہیں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ سخت سردی اور کرونا کے موسم میں ’’بے باک‘‘ صحافی ہونے کی جرأت نہیں دِکھاسکتا۔ کونے میں بیٹھ کر دہی کھانے ہی میں عافیت ہے۔

عمران خان صاحب نواز شریف کے ’’درباری‘‘ خواجہ آصف سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ خواجہ صاحب بھی اپنی ’’خوش گفتاری‘‘ سے وزیر اعظم کے دل میں موجود غصے کو بھڑکاتے رہتے ہیں۔ کسی نہ کسی مقدمے میں خواجہ صاحب کی گرفتاری لہٰذا لازمی تھی۔ منگل کی شام متوقع واقعہ ہوگیا۔

نیب کے ہاتھوں گرفتار ہوئے افراد کو ضمانت کے حصول کے لئے کئی ماہ درکار ہوتے ہیں۔ پرانے قصوں میں بادشاہ اپنے چند مخالفین کو کسی تہہ خانے میں پھینک کر بھول جایا کرتے تھے۔ دورِ حاضر میں نیب چیئرمین کو بھی ویسے ہی اختیارات میسر ہیں۔ عمران حکومت کو مگر ان کا ذمہ دار ٹھہرایا نہیں جاسکتا۔

2008 کے انتخابات کے بعد آئین کو حقیقی معنوںمیں ’’جمہوری‘‘ اور بنیادی انسانی حقوق کا احترام یقینی بنانے کے لئے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) کو اٹھارویں ترمیم مرتب کرنے کا سنہری موقعہ نصیب ہوا تھا۔ مسلم لیگ (نون) کے کئی سرکردہ رہ نمائوں کو اپنی ’’صداقت اور دیانت‘‘ پرکامل اعتماد تھا۔ انہوںنے نیب قوانین کو زیر غور لانے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ اب ان کی زد میں آئے ہوئے ہیں۔ ’’مکافاتِ عمل‘‘ کا حقیقی ا ظہار ہورہا ہے۔

منگل کی شام ہوئی خواجہ آصف کی گرفتاری کو زیر بحث لاتے ہوئے ہمیں اس حقیقت کو ایک بار پھر نگاہ میں رکھنا ہوگا کہ عمران حکومت روایتی اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلے بیانیے اور Optics کو بہت اہمیت دیتی ہے۔ گزشتہ ہفتے طویل گمنامی کے بعد ایک ’’کائیاں‘‘ اور طاقت ور حلقوں کے بہت قریب شمار ہوتے محمد علی درانی ’’اچانک‘‘ منظر عام پر آگئے۔ ان دنوں وہ پیرپگاڑا کی مسلم لیگ سے وابستہ ہیں۔

پنجاب حکومت سے انہوں نے نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف سے ملاقات کی درخواست کی۔ شہباز شریف ان دنوں نیب کی جانب سے بنائے مقدمات کے تحت جیل میں ہیں۔ ان سے ملاقات کی سہولت ان کے خاندان والوں کو بھی بہت مشکل سے نصیب ہوتی ہے۔

درانی صاحب کو تاہم اس ضمن میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ شہبازشریف سے ملاقات کے بعد درانی صاحب نے اپنی گفتگو سے تاثر یہ پھیلایا کہ وہ عمران حکومت اور اس کے سیاسی مخالفین کے مابین ’’تخت یا تختہ‘‘ والے معرکہ کو ٹالنے کے لئے ’’مقتدرحلقوں‘‘ کی پشت پناہی سے ’’قومی مذاکرات‘‘ کی راہ نکال رہے ہیں۔

درانی صاحب کی شہبازشریف سے ملاقات اور اس کے بعد میڈیا سے ہوئی گفتگو کی بدولت میڈیا میں قیاس آرائی شروع ہوگئی کہ عمران حکومت کی ترجیحات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہماری ریاست کے چند دائمی ادارے اپوزیشن جماعتوں کے ’’معتدل‘‘ رہنمائوں کو ’’قومی مذاکرات‘‘ کی میز پر لانا چاہ رہے ہیں۔

عمران خان صاحب کی جگہ کوئی اور شخص بھی ان دنوں پاکستان کا وزیر اعظم ہوتا تو مذکورہ تاثر کو برداشت نہ کرپاتا۔  عمران خان صاحب تو ویسے بھی کسی صورت ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو NRO نہ دینے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اب تو انہوں نے یہ اعلان بھی کردیا ہے کہ ’’چوروں ‘‘ کو معاف کرنا وطنِ عزیز سے ’’غداری‘‘ کے مترادف ہوگا۔

وزیر اعظم کی جانب سے NRO نہ دینے کا عہد مگر ’’کھوکھلا‘‘ سنائی دینا شروع ہوجاتا اگر محمد علی درانی اپنے ’’مشن‘‘ کی تکمیل کے لئے مزید ملاقاتوں میں مصروف رہتے۔ درانی صاحب کی پیش قدمی کو ’’بے وقعت‘‘ دکھانے کے لئے لہٰذا شہبازشریف کے خواجہ آصف جیسے بااعتماد مصاحب کی گرفتاری لازمی تھی۔ اس گرفتاری نے واضح طورپر یہ پیغام دیا ہے کہ ہمارے ہاں جاری سیاسی گیم کا کامل Command and Control وزیر اعظم کے ہاتھ ہی میں ہے۔

وہ اپوزیشن جماعتوں میں موجود ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو کوئی رعایت دینے کے لئے ہرگز تیار نہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) کو اپنے لئے آسانیاں ڈھونڈنے کے لئے ’’کسی اور ‘‘ سے رجوع کرنے میں وقت ضائع نہیں کر نا چاہیے۔

شہبازشریف اور خواجہ آصف کے ’’تعلقات‘‘ کا ہمارے ہاں بہت چرچا رہاہے۔ ان کی بدولت نوازشریف ’’سزا یافتہ مجرم‘‘ ہوتے ہوئے بھی جیل سے پہلے ہسپتال اور پھر لندن روانہ ہوتے ہوئے نظر آئے۔ ’’انہونی‘‘ دِکھی اس رعایت نے گزشتہ برس کے اختتام میں ایک اہم ترین قانون کی تاریخی عجلت میں منظور کروانے کی راہ بنائی۔

خواجہ آصف نے مذکورہ قانون کو منظور کروانے میں ’’کلیدی پیغامبر‘‘ کا کردار ادا کیا تھا۔ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ کے ’’سنجید ہ اور تجربہ کار‘‘ رہ نما خواجہ آصف کی گرفتاری کے بعد ’’پیغامبر‘‘ سے محروم ہوگئے ہیں۔ اب ’’زبانِ غیر‘‘سے ’’شرح آرزو‘‘ کو مجبور ہوں گے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

 

%d bloggers like this: