اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کُوک۔۔۔گلزار احمد

کتاب کا آخر سرائیکی وسیب کی کُوک کا منظر پیش کرتا ھے یہ ایک ہستی بستی خوبصورت زندہ ثقافت کے لُٹنے کی داستان ھے ایک تہذیب کا سقوط بغداد ھے۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔

جب میں نے یہ کتاب پڑھنی شروع کی تو مجھے یہ ایک شخص کی آپ بیتی لگی ۔ کچھ چیپٹر آگے بڑھا تو مجھے یہ ڈیرہ اسماعیل کی تاریخ کی کتاب لگنے لگی جو گلی گلی کوچے کوچے مجھے گھماتی رہی ۔اچانک آگے جا کر اس کتاب نے ہیرالڈ رابن کے ناول ۔۔Never Love a strangerکی شکل اختیار کرلی جس کا اردو ترجمہ انڈیا کے ایک گیت میں کیا گیا ھے ۔
پردیسیوں سے نہ اکھیاں ملانا۔۔ میں بڑھتا رہا اور کتاب کبھی مجھے دہلی کے کوچوں میں لے جاتی کبھی دریاۓ سندھ کی لہروں پر بٹھاتی کبھی واپس ڈیرہ شھر پہنچا دیتی ۔ میری حالت اس کتاب کو پڑھتے پڑھتےکھڑکی کے ساتھ بیٹھے چھتیس ھزار فٹ پر اڑتے ہوائی جہاذ کے ایک مسافر کی ھو گئی جسے دور کہیں روشنیاں نظر آتی ہیں اور وہ ایک ہستے بستے شھر کو کراس کر رہا ھوتا ھے ۔
وہ اس روشنی کا حصہ بننا چاہتا ھے مگر بن نہیں سکتا۔ دور دور سے حسرت بھری نگاھوں سے یہ منظر دیکھتا ھے اور پھر وہ منظر دھندلا کر ختم ھو جاتا ھے۔ شاکر شجاع آبادی کا سرائیکی شعر شاید اس تحریر کی عکاسی کرتا ھے۔
شعر یہ ھے؎
کَل شاخ تے بیٹھے دو پکھیاں بھلے ویلے یاد ڈِوا چھوڑے ۔۔۔
کدی اُتلی ٹہنی کدی تلویں ٹہنی انہاں کی کی روپ وَٹا چھوڑے۔۔
انہاں چونج دے نال چونج لا کے ساڈے دل دے زخم ڈُکھا چھوڑے۔
۔سَاکوں شاکر نہ برداشت ہویا اَساں تاڑی مار اُڈا چھوڑے۔۔
کتاب کا آخر سرائیکی وسیب کی کُوک کا منظر پیش کرتا ھے یہ ایک ہستی بستی خوبصورت زندہ ثقافت کے لُٹنے کی داستان ھے ایک تہزیب کا سقوط بغداد ھے۔
اگرچہ اس اُتھل پتھل سے آزادی کا سورج طلوع ہوا مگر اس میں بڑی قربانی دینی پڑی ۔ جس جس نے یہ قربانی دی اسکو یہ حق بھی حاصل ھے کہ وہ نئی نسل کو یہ بتاۓ کہ جس چمن کے گلابوں کی خوشبو میں تم سانس لے رھے ہو اس کی جڑوں کی آبیاری ہمارے خون سے کی گئی۔
پاکستان اور انڈیا کے دونوں جانب وہ لوگ موجود ہیں جن کو آگ کے دریا پار کرنا پڑے۔ ۔ بہر حال میرے سامنے غلام عباس سیال کی لکھی ہوئی کتاب ھے جس کا نام ھے ۔۔۔ گُلی کملی کے دیس میں ۔۔ میری غلام عباس سیال سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی ۔ ان کی کتاب میں ان کا پتہ سڈنی ۔
آسٹریلیا لکھا ہوا ھے شاید وہ وطن چھوڑ کے وہاں شھریت اختیار کر چکے ہیں۔ کتاب کا ٹائٹل گُلی کملی کے دیس میں ۔۔۔سے ہی ظاہر ہوتا ھے یہ ایک سماج کے ظلم کے خلاف لاٶڈ قسم کا احتجاج ھے ۔
گلی کملی کے دیس میں کے عنوان سے مصنف نے صفحہ 78 پر پورہ چیپٹر باندھا ھے جس سے معلوم ہوتا ھے کہ گلی کملی ایک مجزوبہ سید ذادی تھی جو اب وفات پا چکی ہیں ۔اسی چیپٹر میں ڈیرہ کے کئی اور اللہ لوک قسم کے افراد کے نام اور تفصیل درج ھے۔
عباس کا خیال ھے کہ یہی لوگ ہمارے ارد گرد کا حسن ہیں کیونکہ انہوں نے مصنوعی ماسک نہیں چڑھاۓ ھوتے اور اپنی اصل شکل میں نظر آتے ہیں۔پھر میری غلام عباس سیال سے وقفیت ایک فیس بک گروپDera Ismail Khan old photoesکے ذریعے ہوئی کیونکہ میں اس کا ممبر ھوں اور غلام عباس بھی۔
یہ گروپ ایک ڈیرہ سے محبت کرنے والے نوجوان ڈاکٹر حفیظ الحسن کا brainchild ہے۔میں بھی اس میں لکھتا رہتا ھوں اورکبھی کبھی عباس بھی اس میں لکھتے ہیں ۔
پھر ہماری واٹس ایپ پر ملاقاتیں شروع ہوئیں اور اس گروپ میں غلام عباس سیال آسٹریلیا سے ۔وجاہت علی عمرانی نوشھرہ سے۔ ڈاکٹرحفیظ الحسن کوپن ہیگن اور میں خود ڈیرہ سے بیٹھ کے ڈیرہ کی تاریخ ۔کلچر اور رسم ورواج پر لائیو پروگرام کرنے لگے۔
پھر عباس اور حفیظ نے ڈیرہ کا چکر لگانا تھا کہ کرونا وائیرس آ گیا اور پروگرام منسوخ ہو گیے ورنہ ڈیرہ میں رنگ برنگی محفلیں منعقد ہوتیں۔ اب ڈاکٹر حفیظ الحسن پیرس میں ہے اور عباس سیال سڈنی میں۔ بس موبائیل پر رابطہ ہے۔ ۔
گلی کملی کے دیس میں جو کتاب میرے ہاتھ میں ھے یہ 240 صفحات پر محیط ایک عجیب داستاں ۔اس کے عنوانات سے جو چیپٹر علیحدہ لکھے گئے وہ چونکا دینے والے ہیں۔البتہ عباس نے ہر عنوان کے ساتھ انصاف کیا اور اسے دلکش تحریر بنا دیا۔
یادوں کے کھرنڈ۔۔۔جانے کہاں گئے وہ دن۔۔ڈیرہ کی برسات۔۔ میں تھال مہندی دا چائی کھڑی ہاں ۔۔۔ چھوڑ آۓ ہم وہ گلیاں ۔یہ داغ داغ اجالا۔ دل کو لبھانے والی تحریریں ہیں۔
سرسیدِ ڈیرہ نواب اللہ نواز خان پر عباس سیال نے جس تفصیل سے روشنی ڈالی ھے وہ قابل تحسین ھے بلا شبہ نواب صاحب کی ڈیرہ والوں کے لئے بہت خدمات ہیں اور یہ ہم پر ایک قرض تھا جو عباس سیال نے لکھ کر تمام لوگوں کی جانب سے ادا کیا۔
اسی طرح دیرہ وال ہندوٶں کے متعلق بھی بڑی معلومات جمع کی ہیں۔ ایک دیرہ وال اسلم چکڑیال کے دہلی میں دورہ کر کے اپنے پرانے ہندو دوستوں سے ملاقات کی کہانی تو رلا دینے والی ھے کہ دیرہ سے انڈیا ھجرت کرنے والے ہندوٶں کے دل سے ڈیرہ کی یاد نہیں نکلی کیونکہ مادر وطن کے نقش بڑے گہرے ھوتے ہیں ۔
شاید آج کی نسل اس درد کو نہ سمجھ سکے۔ پروفیسر ڈاکٹرغلام فرید مرحوم اکثر غلام عباس سیال کی کتاب ۔۔گُلی کملی کے دیس میں ۔۔۔کا حوالہ دیا کرتے تھے۔ پروفیسر فرید ڈیرہ کی تاریخ کی اتھارٹی تھے میرے خیال میں عباس سیال کے لئے اس سے بڑا فخر نہیں ہو سکتا کہ ڈاکٹر غلام فرید کے زیرِ مطالعہ یہ کتاب رھی ہو۔۔۔

%d bloggers like this: