اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گھئی منڈی المعروف گھاس منڈی۔۔۔وجاہت علی عمرانی

یاد رہے سیٹھاں والا بازار بھی موجودہ میدان حافظ جمال سے تھوڑا آگے جا کر ختم ہو جاتا تھا، کیونکہ آبادی انہی بازاروں کے ارد گرد تھی۔ اس کے علاوہ باقی ارد گرد کا علاقہ مضافات تصور کیا جاتا تھا۔

وجاہت علی عمرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دریائے سندھ کے 16میل کے چوڑے پاٹ میں شدید طغیانی کے باعث سیلاب نے جب سردار سہراب خان ہوت بلوچ کے بیٹے سردار اسماعیل خان کے بسائے پندرویں صدی کے پرانے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کو مکمل غرق کر دیا تو 1824 میں منشی لکھی مل اور تیج بھان نندوانی نے نواب آف ڈیرہ کے حکم پر بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ نئے شہرڈیرہ اسماعیل خان کا نقشہ ڈیزائن کیا۔
نقشے کے مطابق گلی محلوں اور بازاروں کی تعمیر شروع کر دی گئی۔ مسلمان اکثریتی آبادی کو شمال میں جبکہ ہندو اقلیتی آبادی کوجنوبی حصے میں آبا د کیا۔ شہر کے اردگرد 9دروازوں پہ مشتمل ایک حفاظتی فصیل قائم کی۔ آغاز میں شمالی و جنوبی طرف آبادی کے ساتھ ساتھ ان سے منسلک صرف تین بازار بھاٹیہ بازار، کلاں بازار اور سیٹھاں والا بازار موجودہ مسلم بازار ہی خرید و فروخت اور دکانوں کے لیئے قائم ہوئے۔
یاد رہے سیٹھاں والا بازار بھی موجودہ میدان حافظ جمال سے تھوڑا آگے جا کر ختم ہو جاتا تھا، کیونکہ آبادی انہی بازاروں کے ارد گرد تھی۔ اس کے علاوہ باقی ارد گرد کا علاقہ مضافات تصور کیا جاتا تھا۔
اوائل ماضی میں موجودہ پاوندہ بازار تا ٹانک اڈہ اور آس پاس کا علاقہ بستی عالمشیر تھا۔ موجودہ گرلز سکول نمبر 1 تا اسلامیہ کالونی و عیدگاہ کلاں اور کنیراں والا گیٹ وغیرہ کا یہ سارا علاقہ بستی گھائیاں والی تھی۔ امامیہ گیٹ سے محلہ جوگیاں والا تا لیاقت پارک و جہازاں والی پریڈ تک کا یہ علاقہ بطور مضافات تھے اور یہاں صرف کھیت اورسنسان میدان تھے یا اکا دکا گھر یا آبادی تھی۔
کنیراں والے دروازے کے اندرونی اور موجودہ گرلز ڈگری کالج کے بیرونی علاقے میں اس وقت والیء ڈیرہ نواب شیر محمد خان نے اپنے فوجی وذاتی گھوڑوں کا اصطبل قائم کیا۔ کیونکہ زیادہ تر گھوڑوں کے سائیس یہی گھئی تھے (گھاس کے پیشے سے منسلک افراد کو سرائیکی میں گھئی کہتے ہیں)۔
انہیں گھائیوں کو نواب نے اسی علاقے میں آباد کیا اور انہی کی وجہ سے آج تک بستی گھائیاں والی مشہور ہے۔ اسی اصطبل والے علاقے سے منسلک درب، تلڑ، جو، برسین اوردوسرے کھیتوں سے گھوڑوں اور جانوروں کے لیئے گھاس و چارہ وافر مقدار میں مل جاتا تھا۔
جب نواب شیر محمد خان والی ڈیرہ اپنی افادیت کھوچکا اور انتظامیہ امور نہیں سنبھال سکا تو 1834 میں راجہ رنجیت سنگھ کے پوتے اور کھڑک سنگھ کے بیٹے نونہال سنگھ نے ڈیرہ کا کنٹرول سنبھال لیا۔ نواب صاحب برائے نام رہ گئے۔
نواب شیر محمد خان کا کنٹرول جاتے ہی اس کی اردگردکے تمام فوجی گھو ڑوں کو اسی اصطبل میں منتقل کردیا گیا۔ ذاتی و فوجی گھوڑوں کی تعداد میں اضافے کے باعث اب اصطبل میں گھاس رکھنے کی گنجائش بہت کم ہو گئی تو نواب شیر محمد خان نے موجودہ گھاس منڈی کے میدان میں گھاس کے کھلے گودام کے لیئے جگہ مختص کر دی۔ گھئی کچھ گھاس اسی اصطبل میں پہنچاتے اور کچھ گھاس کو اسی گودام میں پہنچاتے۔
1835,36 میں جب نو نہال سنگھ نے قلعہ اکال گڑھ کی تعمیر مکمل کی تو اس نے ہزاروں کی تعدا د میں اپنی گھڑ سوار فوج کو ڈیرہ اسماعیل خان بلا کر اس قلعہ اکال گڑھ کی بیرکوں میں رکھا اور ساتھ ہی اسی قلعے کے احاطے میں گھوڑوں کی دیکھ بھال کے لیئے وسیع و عریض اصطبل بھی قائم کیا۔ نواب صاحب اور نونہال سنگھ کی وجہ سے جب ڈیرہ میں گھوڑوں اور دیگر جانوروں کی تعداد زیادہ ہو گئی تو گھاس بھی زیادہ استعمال ہونے لگا۔
اب یہ گھئی تمام گھاس براہ راست نواب صاحب کے اصطبل اور قلعہ اکال گڑھ میں پہنچاتے۔ اسی وجہ سے موجودہ گھاس منڈی میں قائم گھاس کا کھلا گودام ختم ہو گیا۔ سردار نونہال سنگھ نے نواب صاحب کے لگائے گئے درجنوں قسم کے ٹیکس مثلا پٹکا ٹیکس، متھا پاڑ ٹیکس، ٹوپی ٹیکس، جھجری ٹیکس وغیرہ کا خاتمہ کر کے جہاں مقامی افراد کے لیئے اچھا کام کیا وہاں ان گھائیوں کے گھاس سپلائی کرنے پر گھاس کی قسم کے مطابق ٹیکس لگا دیا۔
جب بھی یہ گھئی قلعہ اکال گڑھ کی طرف اپنا گھاس کا” ترنگڑ یا پَنڈ” لے جاتے تو قلعہ کے باہر باقاعدہ ایک فوجی ان سے ٹیکس (چونگی کی طرح)وصول کر کے قلعہ کے اصطبل تک جانے دیتا (بعد میں موجودہ اسلامیہ سکول کی چوک اور امامیہ گیٹ پر باقاعدہ چونگیاں قائم کی گئیں)
نونہال سنگھ کے بعد انگریزوں نے جب 1848 میں ڈیرہ کا کنٹرول سنبھالا تو انہوں نے بھی اپنی فوج کو اسی قلعہ اکال گڑھ کی کی بیرکوں میں رکھا۔ نونہال سنگھ کے ہزاروں فوجی اور گھوڑے واپس جانے کے بعد ایک بار پھر گھاس کا مسئلہ ہو گیا۔ کیونکہ اب پیداوار زیادہ تھی اور کھپت کم۔ انگریز فوج کے پاس ابھی اتنے گھوڑے نہیں تھے بلکہ زیادہ تر پیادہ (زمینی) فوج تھی۔
بہرحال ایک بار پھر انہی گھائیوں نے موجودہ گھاس منڈی کے میدان میں پرانے کھلے گودام کو استعمال کرنا شروع کیا اور مقامی آبادی نے بھی اپنے پالتو جانوروں کے لیئے یہاں سے ہر قسم کا گھاس خریدنا شروع کردیا۔ تازہ و سرسبز گھاس جب کچھ عرصہ اسی کھلی جگہ پر پڑا رہتا تو وہ سوکھ جاتا۔
یہ گھئی اس سوکھے گھاس کو تازہ گھاس کی نسبت سستا بیچتے۔ ہر قسم کی سوکھی و خشک درب، تلڑ، برسین، سانوا، بانسی گھاس کو زیادہ تر اسی میدان میں موجود کمہار اپنی بھٹیوں کے لیئے خریدنے لگے۔
کیونکہ اسوقت یہ علاقہ رہائشی آبادی سے دورسنسان اور شہر سے باہر تصور کیا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے یہاں پر کمہاروں نے اپنے مٹی کے برتن پکانے کے لیئے بھٹیاں اور چونے ساڑوں نے چونے کے پتھر کو پکانے کے لیے چونے کی بھٹیاں لگائی ہوئیں تھیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں شمالی طرف سے مختلف بستیوں، علاقوں اور شہروں سے سامان لانے والے تاجر اونٹوں پر اپنا سامان لاتے اور موجودہ امامیہ گیٹ و فوارہ چوک والے خالی میدان میں اپنے اونٹ ٹھہراتے اور سامان اتارتے۔ ان تاجروں کو بھی اپنے اونٹوں اور دوسرے جانوروں کے لیئے ہر قسم کا گھاس وغیرہ ان گھائیوں سے آسانی سے مل جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اردگرد کے مضافات کے کسان بھی یہاں اپنا گھاس بیچنے کے لیئے آنے لگ گئے۔
آہستہ آہستہ یہاں پر لوگوں کی اور جانوروں کی آمد زیادہ ہونے کی وجہ سے اسی موجودہ گھاس منڈی والے میدان میں خصوصی طور پرجمعہ کے روز نے میلہ اور منڈی کا روپ دھار لیا۔
گھوڑوں، اونٹوں اور دوسرے پالتو جانوروں کی خرید و فروخت کا سلسلہ شروع ہونے کی وجہ سے گھاس بیچنے والوں کے ساتھ ساتھ اسی میدان میں نعل بند، اونٹوں والے جت، جانوروں کے بال کاٹنے والے نائی و کاتری۔ زینیں، لگامیں، رکابیں، کچاوے و بودے اورسجاوٹی سامان بیچنے والے۔ گھوڑوں، اونٹوں، بیلوں کو نتھ و لگامیں ڈالنے والے۔
جانوروں کا علاج کرنے والے جوگی وطبیب، کندر اور چرخوں سے رسیاں بنانے اور بان بیچنے والے کنیرے اور خاص کر کچے کے مہانڑے ملاح اور خلاصی مشکوں و سندھاریوں میں اپنا لایا گیا دیسی گھی، گُڑ اور دودھ بیچنے کے لیئے اپنی عارضی دکانیں سجانے لگے۔
وقت کے ساتھ ساتھ تانگہ اور بگھیاں بنالے والے ماہر افراد نے بھی یہاں پر اپنا فن دکھانا شروع کردیا۔ اب یہ علاقہ گھاس کی وجہ سے جانوروں اور ان سے منسلک اشیاء کی خریدو فروخت کی منڈی کا روپ دھار نے کے ساتھ ساتھ ایک بڑا تجارتی مرکز بن گیا۔ مقامی لوگ اس تجارتی مرکز کو ان گھائیوں کی وجہ سے "گھئی منڈی” بلانے لگے۔
دیہاڑی دار مزدور وں نے بھی اسی میدان کو اپنا مسکن بنا لیا جو اسی منڈی سے اُس وقت کے صاحب ثروت لوگوں کی خریدی گئیں اشیاء ایک چھبے یا ٹوکرے میں رکھ کر اپنے سر پہ اٹھائے اجرت کے بدلے ان کے گھروں تک پہنچا تے۔
فوجی گوداموں، اصطبل اور مقامی لوگوں کے گھروں میں گھاس کی پہنچائی، اونٹوں سے لکڑیوں کے بھار، چونے کے پتھر، کمہاروں کی بھٹیوں میں بنے ہوئے مٹی کے برتن وغیرہ اتارنا چڑھانا یہی مزدور سر انجام دینے لگے۔ یہی وجہ تھی کہ ماضی سے لے کر تقریبا2010-11 تک شہر کے تمام مزدور صبح اسی جگہ پر اکٹھے ہوتے اور لوگ اپنے اپنے کاموں کے مطابق مطلوبہ اجرت کے بدلے مزدور لے جاتے۔
آپ ماضی کی "گھئی منڈی” کی بطور تجارتی مرکز کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ایک نہایت ہی غریب ہندو "بالو رام” نے اسی "گھئی منڈی” میں گڑ، شکر، چنے اور پرچون کا سامان فروخت کر کے اسی گھاس منڈی میں اپنی باقاعدہ دکان کھولنے کے ساتھ ساتھ اتنا پیسہ کمایا کہ وہ 1884تک کے عرصے میں بالو رام سے سیٹھ بالو رام بن گیا اور اس وقت کے امیر ترین لوگوں میں اسکا شمار ہونے لگا۔
1901 میں فوت ہونے والے ڈیرہ کے دریا دل سپوت سیٹھ بالو رام اور اسکا دریائے سندھ پہ بنایا جانے والا شاندار باغ "سیٹھ بالو رام دا تھلہ” کے نام سے ڈیرے وال ہمیشہ یاد کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
1858کے بعد انگریز فوج کا گھوڑوں پہ مشتمل ایک خصوصی دستہ ڈیرہ اسماعیل خان بھیجا گیا۔ جسکو مقامی آبادی "رسالہ فوج” کہتی تھی، اس رسالہ فوج میں زیادہ تر تعداد ملتانی پٹھانوں، علیزئی اور خاکوانیوں کی تھی۔ جو کہ اپنی ٹریننگ اور گھڑ دوڑ موجودہ جہازوں والی گراؤنڈ میں کرتی۔
اسی وجہ سے یہ اس وقت رسالہ پریڈ گراؤنڈ مشہور ہوگئی (فوج کی موجودہ باقاعدہ چھاؤنی کا قیام 1894 میں ہوا، تب فوج کی رہائش قلعہ اکال گڑھ میں تھی لیکن ٹریننگ اور گھڑدوڑ اسی رسالہ گراؤنڈ میں ہوتی تھی)۔ گھاس منڈی اور اس رسالہ پریڈ گراؤنڈ کی حد بندی کے لیئے (موجودہ فوارہ چوک کے ساتھ)ایک مسجد تعمیر کی گئی جو وقت کے ساتھ ساتھ "رسالہ مسجد ” مشہور ہوگئی (ماضی میں اس مسجد کے آس پاس کے کھلے میدانوں میں بڑے بڑے مذہبی جلسے بھی منعقد ہوتے تھے)۔
انگریز فوج کے گھوڑوں اور دوسرے جانوروں کے لیئے بھی ہر قسم کا گھاس اور چارہ یہیں سے سپلائی ہونے لگا اور فوجی بھی مختلف سامان کے لیئے یہاں آنے جانے لگ گئے۔ 1867 میں ڈیرہ اسماعیل خان میں باقاعدہ میونسپل کمیٹی قائم ہونے کے چند عرصے بعد اس وقت میونسپل کمیٹی کے سیکریٹری دیوان جگن ناتھ کے حکم پر ان گھائیوں پر ایک بار پھر ٹیکس عائد کر دیا گیا۔ جو کہ ماضی میں نونہال سنگھ کے جانے کے بعد ختم ہو گیا تھا۔
1890کے آس پاس تب ان گھائیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جب اس رسالہ فوج کے رسالدار نواب بہادر حافظ محمد نواز خان علیزئی کی ذاتی کوششوں سے اس گھاس منڈی کے زریعے سپلائی ہونے والے ہر قسم کے گھاس پر میونسپل کمیٹی نے ٹیکس لینا ختم کر دیا۔
اس منڈی کا اصل قدیم سرائیکی نام گھائیوں کی وجہ سے "گھئی منڈی” تھا، جبکہ تعلیم و ترقی کے مسافروں نے وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ اس کا نام گھاء منڈی یا گھاس منڈی میں تبدیل کر دیا۔
1830-32 میں قائم کی گئی اور ایکڑوں پہ پھیلی قدیم "گھئی منڈی” سکڑتے سکڑتے آج ایک گلی تک محدود ہو گئی ہے۔ پورے شہر اور فوج کو ہر قسم کا گھاس سپلائی کرنے والی درجنوں دکانوں اور گوداموں کی بجائے آج کل صرف ایک قسم کے گھاس کی ایک یا دو دکانیں رہ گئی ہیں۔
چونے ساڑوں کی کئی بھٹیوں کو اپنے میدان میں جگہ دینے والی منڈی میں شاید اب چونے کی ایک دکان بھی نہیں۔ کمہاروں کی درجنوں بھٹیوں والی جگہ پر اب ایک ہی بھٹی کے باقیات اور دو تین دکانیں ہی ملتی ہیں۔ خالص دیسی گھی، گڑ اور دودھ بیچنے والے درجنوں مہانڑوں کی دکانوں کی بجائے اس منڈی میں صرف ایک مقامی دودھ فروش کی ایک دکان نظر آتی ہے۔
گھوڑوں کی نعل بندی اور تانگہ و بگھیاں بنانے والوں کی قطاروں کی بجائے اب صرف ایک ہی دکان رہ گئی۔ لگامیں، رکابیں، کچاوے اور جانوروں کے سجاوٹی سامان بیچنے والے تو اب اس منڈی میں ناپید ہو چکے ہیں۔ سانپ کے منکوں سے اور حشرات الارض کے کاٹنے کا علاج کرنے والے جوگیوں و طبیبوں کا نام و نشان نہیں ملتا۔ اسی میدان کے کونے میں جہاں جتوں کی اور اونٹوں کی قطاریں ہوتی تھیں، وہاں آجکل جت ڈھونڈے نہیں ملتے بلکہ ایک اونٹ کے گزرنے کا راستہ بھی مشکل سے ملتا ہے۔جلانے والی لکڑیوں کے بھار کی بجائے چندفرنیچر کی دکانیں نظر آتی ہیں۔
وقت کی رفتار اور ترقی کے ساتھ ساتھ قدیم منڈی کا میدان اپنا ہنردکھانے والے اور چیزیں بیچنے والوں میں تقسیم ہوتا گیا اورمختلف گلیاں، محلے اور کوچے بنتے گئے اور آباد ہوتے گئے۔ جیسا کہ اسی "گھئی منڈی” میں کمہاروں کی جگہ کو محلہ کمہاراں والا۔ مہانڑوں کی جگہ کو گلی مہانڑیاں والی۔
اونٹ والے (جت) کو محلہ پھلا جت۔ حکیموں اورجوگیوں والی جگہ کو محلہ جوگیاں والا۔ گائے بھینسوں کے تاجران والی جگہ کو دھنڑیاں والی گلی، گھوڑوں والی جگہ کو گھوڑاں آلی گلی اور چونے کی بھٹیوں والوں کو چونے ساڑوں سے یاد کیا جانے لگا اور قدیم "گھئی منڈی” انہی گلی محلوں کی دیواروں میں گم ہوگئی۔
یاد رکھیں، شہر کے گلی، محلوں اور چوکوں کی مستند تاریخ کوئی مورخ نہیں بتائے گا۔ کسی کتاب میں نہیں ملے گی بلکہ اسی علاقے کے بزرگ یا رہائشی ہی بتائیں گے جو کہ سینہ بہ سینہ روایات پر مشتمل مستند تاریخ ہوتی ہے۔
پھر انہی بزرگوں کی بتائی ہوئی تفصیلات کو جب مختلف تاریخی کتابوں اور ادوار کے تناظر میں دیکھا اور پرکھا جاتا ہے تو وہ سو فیصد درست تاریخی معلومات و روایات نظر آتی ہیں۔ یہ عمر رسیدہ بزرگ انہی سینہ بہ سینہ روایات کی بدولت اپنی ذات میں ایک مکمل مستند تاریخ کی کتاب ہوتے ہیں۔
میں اس تحقیقی مضمون کی تیاری کے سلسلے میں تاریخ ِ ڈیرہ کی مختلف مستند کتب کے ساتھ ساتھ خصوصا غلام عباس سیال (سڈنی) کی کتاب ” دیرہ مکھ سرائیکستان” کے علاوہ ان تمام عمر رسیدہ بزرگوں خاص کر استادِ محترم سید ریاض انجم صاحب، استاد محترم سید شبیر حسین شاہ (حسینہ چوک)، مشہور شاعر جناب عبداللہ یذدانی صاحب، جناب محمد صدیق صاحب (محلہ چوڑیگراں)، سید رجب شاہ ہاشمی قریشی (محلہ قریشیاں والا)، جناب گلزار احمد خان(کالم نگار و ادیب، ریٹائرڈ ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان) اور 98 سالہ بزرگ الہی بخش کمہار کا ممنون ہوں جنہوں میری رہنمائی فرمانے کے ساتھ مستند و محکم معلومات فراہم کیں۔

یہ بھی پڑھیے:

%d bloggers like this: