مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نفرت سے بھری غیر جانبداری۔۔۔حیدر جاوید سید

ہماری دانست میں یہی بات اب بھی درست ہے۔ پاکستانی سیاست کا المیہ یہی ہے کہ روزاول سے عدم برداشت کی کھیتی جوش وخروش سے کاشت ہوئی، چار بار اس کی فصل طالع آزماؤں نے کاٹی تو کیا اب پھر کسی طالع آزما کا راستہ ہموار کرنا مقصود ہے؟

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لگتا یہی ہے کہ ترجمانوں کو ایک بار پھر بھٹوز اور پیپلزپارٹی کی کردارکشی کا ٹھیکہ عنایت کر دیا گیا ہے، جہادی ماحول سے خمیر اُٹھے تو یہی ہوتا ہے۔ ان جیسے دانشمند یہ تاثر دیتے پھرتے ہیںکہ اپوزیشن سینیٹ کا الیکشن رکوانا چاہتی ہے، پی ڈی ایم کے مختلف قائدین تو اس کی تردید کر چکے لیکن اسے اصرار ہے کہ ایسا ہی ہے۔
اچھا اگر ایسا ہے بھی تو کیا خسارے کا سودا صرف پیپلزپارٹی کرے گی؟نون لیگ بھی تو پنجاب اسمبلی سے اپنے سینیٹر جتوانے سے محروم رہے گی۔ اپوزیشن اصل میں چاہتی یہ ہے کہ وسط مدتی انتخابات کا انعقاد ہو،کیا اس کی یہ خواہش پوری ہو جائے گی؟
اصل سوال یہی ہے، پی ڈی ایم قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہو تی ہے تو کیا حکومت ہچکولے کھائے گی اور اسٹیبلشمنٹ بات کرنے پر آمادہ ہوگی؟ فی الوقت دونوں باتیں خواب لگتی ہیں لیکن اگر اپوزیشن کے ارکان قیادت کے اعلان کے مطابق مستعفی ہو جاتے ہیں تو نظام بند گلی میں پھنس جائے گا۔
اسے بند گلی سے کون نکالے گا، اس سوال کا حقیقی جواب پی ڈی ایم کی قیادت کے پاس ہے۔ پی ڈی ایم اگر کسی مرحلہ پر خود اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کا دروازہ کھولتی ہے تو اور اس مؤقف کو کہاں رکھے گی کہ اسٹیبلشمنٹ آئینی حدود میں رہے سیاسی عمل میں مداخلت نہ کرے۔
پی ڈی ایم کی تشکیل کے وقت جاری ہونے والے اعلامیہ اور بعدازاں مختلف مواقع پر دو ٹوک انداز میں کہا گیا عوام کی طاقت سے نظام بدلنے نکلے ہیں اب مذاکرات کا وقت نہیں رہا۔ ان سطور میں قبل ازیں بھی یہ عرض کرچکا کہ ”مروجہ سیاست عدم برداشت سے عبارت ہے جمہوریت میں مذاکرات کے دروازے بند نہیں کئے جاتے ہیں۔
پی ڈی ایم وہ راستہ اختیار نہ کرے جس سے نظام کے آگے بڑھنے میں مشکلات پیش آئیں”۔ یہ بھی تلخ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں حکومت اپوزیشن سے مذاکرات پر آمادہ نہیں، اس سے کڑوی حقیقت یہ ہے کہ جناب وزیراعظم حزب اختلاف کے قائدین کی شکلیں دیکھنے کے روادار نہیں۔ اس عدم برداشت کی درجن بھر مثالیں موجود ہیں لیکن اس کے باوجود پی ڈی ایم چونکہ جمہوریت کی علمبردار ہے اس لئے ایسا کوئی قدم نہ اُٹھائے جس سے جمہوریت پر حرف آئے۔
ہماری دانست میں یہی بات اب بھی درست ہے۔ پاکستانی سیاست کا المیہ یہی ہے کہ روزاول سے عدم برداشت کی کھیتی جوش وخروش سے کاشت ہوئی، چار بار اس کی فصل طالع آزماؤں نے کاٹی تو کیا اب پھر کسی طالع آزما کا راستہ ہموار کرنا مقصود ہے؟
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ایجنسیوں کی معرفت صحافت کوچے میں چھاتہ بردار کے طور پر اُترے سینئر تجزیہ نگار زمینی حقائق کو روند کر اپنی ناپسندیدہ جماعت کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں، ان میں ہمت ہے تو اپنے محبوب قائد سے یہ ضرور دریافت کریں کہ ملک سے باہر جانے کا ”سامان” کس نے کیا۔
قوی یقین ہے کہ یہ نہیں پوچھیں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی زندگی اور چھاتہ برداری سے عبارت تجزیہ نگاری ہر دو کے ایمان کا حصہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے چہرے پر کالک ملی جائے۔ اب یہ جو ارشاد ہوا کہ ”بلاول سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے وہ مستعفی نہیں ہوں گے” دلوں کے بھید جاننے والی بات ہے۔
کاش فقیر راحموں نے ہمیں نیتوں کا حال جاننے کا ”درس” دلوا دیا ہوتا تو آج ہم بھی جان پاتے کہ یہ تازہ ڈیوٹی اولین سرپرست نے لگائی ہے یا دل پشوری پروگرام والوں نے۔ خیر ہم اگلی بات کرتے ہیں، مثال کے طور پر ان سطور میں کئی بار عرض کر چکا کہ اہل صحافت ہوں یا چھاتہ بردار جماندر وسینئر تجزیہ نگار پسند وناپسند انسانی فطرت ہے، جو لوگ غیرجانبدار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ بھی اپنے محبوب کے مورچہ میں بیٹھے اس کے مخالفین پر چاند ماری میں جتے رہتے ہیں۔
یہ غیرجانبداری نہیں بلکہ کرائے کی جانبداری ہوتی ہے بس یہ حضرات مانتے نہیں۔ اچھا ویسے ایک بات اور ہے وہ یہ کہ پچھلے دس دنوں سے سول سپرمیسی کیساتھ خاموش سفارتکاری ہو رہی ہے اور اگر یہ سفارتکاری اس پر تمام ہو کہ ”من ترا حاجی بگویم تو میرا حاجی بگو” تو پھر کیا ہوگا۔
صاحبان اقتدار ہوں، اپوزیشن یا اسٹیبلشمنٹ کوئی بھی بات چیت کے دروازے بند کرتا ہے نا خاموش سفارتکاری کی ضرورت سے انکار، نظام آگے بڑھتے رہنا ضروری ہے۔ حکومت کا ناقد ہونے کے باوجود ہمیشہ یہی عرض کیا کہ جو سہولت 2013ء کے انتخابی نتائج چرانے والوں کو ملی تھی ویسی ہی موجودہ حکمرانوں کو ملنی چاہئے،
یا پھر پی ڈی ایم میں شامل وہ جماعتیں جو 2013ء سے2018ء تک اپوزیشن میں تھیں عوام کے سامنے اعتراف کریں کہ اُس وقت ان کی رائے غلط اور آج درست ہے یا پھر انتخابی نتائج چرانے والی ”اصل قوت” اور بنیفشری ہر دو کا مکمل بائیکاٹ ہونا چاہئے۔ ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کر کے آگے بڑھنا ہوگا
یہ نہیں ہو سکتا کہ جب مرضی ہو سوہن حلوہ کہیں جب دل چاہے ”نیلا تھوتھا”حرف آخر یہ ہے کہ ترجمان ٹائپ تجزیہ نگاروں کو ذاتی فطرت اور خواہشات کو بطور تجزیہ پیش کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ کسی دن کسی نے تجزیہ نگاروںکے پس منظر کا پول کھول دیا تو پھر کہتے پھریں گے دیکھیں ہماری پگڑیاں ٹوپیاں اُچھالی جارہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: