اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تھر،اسلام کوٹ میں بجلی مفت ہے۔۔۔رانا محبوب اختر

مقامی زبانوں کو بے وقعت کرنے کی کولونیل پالیسی پوسٹ کولونیل عہد میں جاری ہے۔مقامی ادب سامراجی پیراڈائم کو exposeکرتا ہے۔

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمر کوٹ کے ایک سرے پر محبت کی ایک چوکی ہے۔اس چوکی پر سلیمان راحموں کا پہرہ ہے۔مسافروں کو یہاں سے ہو گزرنا تھا۔ راحموں قبیلے کے ایک وجیہہ نوجوان اور سوشل ایکٹیوسٹ سلیمان سے بوئے دوست آتی ہے۔سندھی مہمان نوازی کی تجسیم نوجوان دلبری کرتا ہے۔

اس کے ہاں لیٹ ناشتے یا ارلی لنچ کا انتظام تھا ۔دسترخوان پر انواع و اقسام کی نعمتیں چنی تھیں۔سکول میں چھٹی تھی اور ان کا دس سالہ بیٹا ذوالفقار بھی میزبانی میں لگا تھا۔ہمارا پیٹ کرشن سویٹس کی مٹھائیوں، دودھ اور فالودے سے بھرا تھا۔ہم نے ذوالفقار کو ساتھ والی کرسی پر بٹھایا اور دو نوالے اپنے ہاتھ سے کھلائے۔

میرے بچے جب سکول جانے کی جلدی میں ناشتے کے بغیر جانے کی کوشش کرتے تو کبھی ہماری نیک طینت اہلیہ چند بڑے نوالے بنا کر ان کے منہ میں دیتیں اور وہ منہ بنا کر کھا لیتے تھے۔محبت تازہ روٹی ہے اور اس کے کئی روپ ہیں۔بنسی مالی عمر کوٹ کے ایک متحرک آدمی ہیں۔وہ دو رنگین راجپوت پگڑیاں لائے تھے۔یہ خلیل کمبھار کی محبت تھی۔آرین شاعر اور بے خانماں راجپوت کو مور کے رنگوں والی پگڑیوں سے پر لگ گئے تھے۔

سلیمان راحموں کے گھر کے اس پار وسیع و عریض تھر کے بھٹ اور ٹیلے سبز نباتاتی پگڑیاں پہنے ہمارا انتظار کرتے تھے۔منیر نیازی کا دل چار چپ چیزوں، بحرو بر، فلک اور کوہسار میں سے دہل جاتا تھا:
چار چپ چیزیں ہیں بحر و بر ، فلک اور کوہسار
دل دہل جاتا ہے ان خالی جگہوں کے سامنے
دل ہمارا دہلا نہ تھا ہُم ہُم کرتا تھا۔تھر پارکر ، دو لفظوں تھر اور پارکر کا مجموعہ ہے۔تھر کا مطلب تھل اور پار کر کا مطلب پار کرنا ہے۔یہ تھل مارو ہے۔کشمیر میں بھی ایک مرودھر ہے۔ تھر میں موت لوگوں کی منتظر رہتی ہے مگر لوگ بھاگ بھاگ وہاں جاتے ہیں، عجب بھید ہے۔ہمیںایک صحرا کو پار کرنا تھا۔صحرا جہاں ماروی کے ڈھاٹ اور مومل کے رانے بستے ہیں۔

تھر کے شمال میں عمر کوٹ ہے اور جنوب میں بھارت کے گجرات کا ضلع کچھ ہے۔مغرب میں بدین اور میرپور اور مشرق میں راجستھان کا جیسلمیر ہے۔26نباتاتی خاندانوں کے 89 قسم کے درخت اور پودے ہیں۔ان درختوں میں ایک پودے کا نام دیوی ہے۔تھر کی کاکریج گائے مشہور ہے۔یہ گجرات کے رن آف کچھ کی نسل ہے اور اسے کنک راج بھی کہا جاتا ہے۔سڑک پر کئی جگہوں پر اس نسل کی سینکڑوں گائیں سڑک پر بے ترتیب چلتی تھیں۔

ان کے سینگوں اور راجپوتوں کی مونچھوں میں تابداری مشترک ہے۔تھر میں سینکڑوں کلومیٹرز پر پھیلی چنکاری ہرن کی sanctuary ہے۔121 کے مقابلے میں سو عورتیں ہیں کہ غریب عورتیں زچگی کے دوران مر جاتی ہیں۔87 % آبادی خطِ غربت سے نیچے رہتی ہے۔کالی غربت میں دلگیر محبت ہے۔کبھی سوچتا ہوں، محبت اور غربت میں بے بسی کا اک رشتہ ہے۔

عاشق بھی غریب کی طرح بے بس ہوتا ہے!ڈھاٹکی، پارکری، مارواڑی اور مسحور کن سندھی تھر کی زبانیں ہیں۔ راجستھان اور سندھ میں کوئی بیس لاکھ لوگ ڈھاٹکی بولتے ہیں یہ زبان مارواڑی کے قریب تر ہے۔ماروی کے مارو ڈھاٹکی بولتے تھے!

ہم صحرا کے بیچ چھاچھرو آ گئے تھے۔ چھاچھرو تحصیل ہے۔یہ ایک چپ چاپ اور بے ترتیب بستی جہاں شو کے مندر ہیں ۔ ایک مندر کے باہر جب ڈاکٹر ماہی پال باہر جانے کا راستہ بتا رہا تھا تو میں اسے دیکھتا تھا کہ صحرا میں ماہی پال، لاشعور یا id میں کسی سمندر کا بھید تو نہیں کہ تھر کا صحرا پہلے سمندر تھا۔اسلام کوٹ کے پاس امام علی جنجھی منتظر تھے۔

اسلام کوٹ تھر کول کا دارالخلافہ ہے۔9600 مربع کلو میٹر پر کوئلے کی open pit mine ہے۔جس میں 175 ارب ٹن کوئلہ ہے اور یہ دنیا کا پانچواں بڑا کوئلے کا ذخیرہ ہے۔SECMC نے 660 میگاواٹ کا بجلی گھر لگایا ہے اور اسی کمپنی کا دوسرا 660 کا پاور پلانٹ تکمیل کے مراحل میں ہے۔تھر کول مائننگ اتھارٹی اور اینگرو بڑے سٹیک ہولڈر ہیں۔

شنگھائی الیکٹرک بلاک ون میں کام کر رہی ہے۔تھر کے کوئلے میں سلفر کم ہے مگر CV یا کلوریفک درآمد شدہ کوئلے کے مقابلے میں تقریبا آدھی ہے۔ایک میگاواٹ بجلی بنانے کے لئے دگنا کوئلہ جلانا پڑتا ہے جس سے آلودگی بھی دو گنا ہوگی۔ترقی اور ماحولیات میں توازن کا سوال پوسٹ ماڈرن آدمی کا آزار ہے۔جنگل کو واپسی کی بات کا پس منظر شور اور آلودگی ہے۔

محبت آپ کی میز پر تازہ روٹی ہے۔۔۔رانا محبوب اختر
اسلام کوٹ کا امام علی جنجھی ایک انقلابی شاعر اور باشعور سیاسی سوجھوان ہے۔ چوڑے سینے والے آدمی نے کھلی بانہوں سے استقبال کیا۔اس کی وجاہت مگر اس کی آنکھوں کی حیرت میں ہے۔کھلی آنکھوں والے شاعر کا چوڑا ماتھا اس کی بھاگ وندی کی خبر دیتا ہے۔کندھوں پر سردار کا سر ہے۔

اس کی زبان، بیان پر قادر ہے اور اونچی آواز اس کے اعتماد کی آئینہ دار ہے۔ تھر کا سینہ چیر کر بننے والے بجلی کے منصوبوں کے خلاف مقامی لوگوں نے جو مزاحمت کی ، امام علی مزاحمتی دستے کی پہلی صف کا آدمی ہے۔2008 میں لکھی گئی اس کی نظم تھر کا نوحہ ہے۔وہ نظم ، غزل اور بیت لکھتا ہے۔

اس کا ایک شعر ہے کہ "اے ڈوبتے سورج، آنے والی صبح سے کہنا ، کہ میں کسی کا غلام نہیں ہوں۔میری اپنی دنیا ہے اور میں اسی کا امام ہوں”۔اسلام کوٹ تحصیل کے ہر گھر کو ایک سو یونٹ بجلی مفت ملتی ہے۔تھر کے غریبوں کے لئے یہ انتظام سندھ کی حکومت نے کیا ہے۔تھر فاونڈیشن SDGs کے لئے کام کرتی ہے۔

مقاصد میں سو فیصد لٹریسی ریٹ بھی شامل ہے۔دعا ہے کہ وہ تھریوں کی خدمت میں کامیاب رہے۔پنجاب میں ایسا نہیں ہوتا۔مظفر گڑھ میں چار ہزار میگاواٹ سے زیادہ تھرمل بجلی بنتی ہے مگر ایک یونٹ بھی کسی مقامی کو نہیں ملتا۔کہ یہ بات مقامی سیاستدانوں کی سمجھ سے بالا تر ہے!

عمر کوٹ (تھر)وچ محبوبیں دا میلہ۔۔۔ رانا محبوب اختر
مجھے صحرا کی وسعت اچھی لگتی ہے۔آسمان صحرا کی چھت ہے۔فلکی گنبد جو افق تک افق نیل رنگ ہے۔ آسمان پر تارے اور صحرا میں پودے ایک ہی بھید میں بندھے ہیں۔بائبل میں لکھا ہے کہ خداوند نے دوسری دنیاوں کے بیج زمین پر بوئے اور زمین کو ایک گلشن بنا دیا۔

چنانچہ ہر اگنے والی چیز زمین کے سینے سے باہر آ گئی۔صحرا میں ریت کے ذرے تاروں کی طرح چمکتے ہیں۔پودے زمین میں جڑیں اتارنے کے باوجود آسمان کی طرف باہیں پھیلائے رکھتے ہیں۔صحرا، فطرت کا اک اسرار ہے جو کسی حسینہ کے عشق کی طرح سینے میں اگتا ہے۔

خوشبو، روشنی اور ہوا کی طرح روم روم میں بستا ہے!اسلام کوٹ سے ننگر پارکر کوئی 86 کلو میٹر ہے۔اسلام کوٹ میں سڑک کنارے کنٹینر کے اندر ایک ریستوران کسی کمپنی نے بنایا ہے۔وہاں چائنیز کھانا کھانے کے بعد ہمارا مختصر کارواں پھر جادہ پیما تھا۔سنگل سڑک شروع ہوگئی تھی اور موسلا دھار بارش کارونجھر کے راستے میں منتظر تھی۔

اردگرد کے لمبے، چوڑے، چھوٹے، بڑے،اونچے، نیچے، عمودی اور افقی ٹیلوں پر پودے بارش کی جلترنگ پر ناچتے تھے۔پتے تالیاں بجاتے تھے۔سبز رنگ کے درختوں اور پودوں کے سامنے صحرا کی سفید ریت اقلیت کی طرح پامال تھی۔

بارش، درخت اور ریت مگر ایک تھے۔وجود کی وحدت باقی تھی۔ موسم مسافروں پہ مہربان تھا۔زور دار بارش تھمنے کو نہیں آتی تھی۔دو شاعر یمارے ساتھ تھے اور شاعری سفر میں تھی۔بارش ہی بارش تھی۔

عدم بارش کو شراب ِعرش کہتے تھے اوربارش کے سب حروف کو الٹا کر پی لیا کرتے تھے۔مسافروں کو یہ سہولت عدم میں میسر تھی!چاروں طرف بارش کا شور تھا جیسے مومل کی پازیب سے بدلیاں ٹکرا کر ناچتی ہوں۔بادل بادل رستے پر بارش بارش موسم میں خواب خواب سفر تھا۔شام ہوتے ہی بارش رک گئی تھی اور بادل مختلف حیوانات کا روپ دھارے ہمارے سروں کے اوپر آوارگی کرتے تھے۔آوارہ مسافر بھی دائمی سفر میں تھے، سامان اٹھا کر نکل پڑے تھے!

ماروی کا عمر کوٹ یا اَمرکوٹ!۔۔۔رانامحبوب اختر
ننگر پارکر کا گلابی پہاڑ ہمارے سامنے نقاب الٹ رہا تھا تھا۔سورج ہماری پشت پر تھا۔بارش میں نہانے کے بعد پہاڑ کے دھلے ہوئے منہ پر سورج کی کرنوں کا غازہ تھا ۔ننگر پارکر سے ذرا پہلے روپلو کوہلی گیسٹ ہاوس سندھ سرکار نے بنایا ہے۔وہاں وفا کے پتلے روپلو کوہلی نے سامراج کے ظلم کو مضحکہ خیز اور گورے تریوٹ کو کارٹون بنا دیا تھا۔

سندھ سرکار نے گیسٹ ہاوس کو روپلو کوہلی کا نام دے کر نیکی کمائی ہے۔گیسٹ ہاوس سے چند کلومیٹر پر روپلو کی یادگار قائم ہے۔انقلابی بھگت سنگھ یاد آیا جس کی یادگار بنانے سے لاہور کے حاکم آج بھی شرماتے ہیں۔ ایک دوست ،روشن دماغ افسر اور مصنف، اکبر لغاری نے مسافروں کے قیام کا بندوبست روپلو کوہلی گیسٹ ہاوس میں کیا تھا۔

کمرے میں سامان رکھنے کے بعد ہم بارش میں بھیگے صحرا اور رنگ بدلتے گلابی پہاڑ کے بیچ تاروں بھری رات کا انتظار کرتے تھے۔اپنے رب کی بے شمار نعمتوں کا شکر کرتے تھے!

%d bloggers like this: