مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سوشل میڈیا کے ’’نیٹ فلیکس‘‘ کا دور ۔۔۔ نصرت جاوید

اجتماعی طور پر نہایت ڈھٹائی سے ہم ایک مہذب اور دین دار معاشرہ ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ ہماری روزمرہّ زندگی کے حقائق اور رویے اگرچہ ہماری ’’اصلیت‘‘ کو مسلسل عیاں کرتے رہتے ہیں۔ خود کو دھوکا دینے ہی میں تاہم عافیت محسوس ہوتی ہے۔ حقائق کو تسلیم کرلینا زندگی کو اذیت ناک بناسکتاہے۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اجتماعی طور پر نہایت ڈھٹائی سے ہم ایک مہذب اور دین دار معاشرہ ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ ہماری روزمرہّ زندگی کے حقائق اور رویے اگرچہ ہماری ’’اصلیت‘‘ کو مسلسل عیاں کرتے رہتے ہیں۔ خود کو دھوکا دینے ہی میں تاہم عافیت محسوس ہوتی ہے۔ حقائق کو تسلیم کرلینا زندگی کو اذیت ناک بناسکتاہے۔

ذہنی کوفت اور اذیت سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے مثال کے طور پر گزشتہ دو روز سے اپنا ٹویٹر اکائونٹ دیکھنے سے گریز کو ترجیح دے رہا ہوں۔ اسے کھولیں تو سکرین پر “Top Trend” والی اطلاع نمودار ہوجاتی ہے۔

اس کے ذریعے ’’خبر‘‘ ہمیں یہ دی جاتی ہے کہ ٹویٹر استعمال کرنے والوں کی اکثریت ان دنوں کون سے موضوعات پر ہیجان خیز بحث میں اُلجھی ہوئی ہے۔ پاکستان میں ان دنوں مقبول ترین ہوئے Trendsہمارے سیاسی فریقین کی خواتین کو غلیظ القاب اور رکیک فقروں کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔

ان پر ڈالی سرسری نگاہ مجھ جیسے ڈھیٹ شخص کا خون بھی کھولا دیتی ہے۔ سوشل میڈیا پر واہی تباہی روکنے کا مؤثر نظام فقط چین اور ایران جیسے ممالک کو میسر ہے۔ یہ نظام اگرچہ ’’اخلاقی اقدار‘‘ کی حفاظت کے بجائے حکمرانوں کو عوام کے حقیقی مسائل سے بے خبر رکھنے کے کام آتا ہے۔ ’’اظہارِ رائے‘‘ کے عادی افراد کو یہ نظام ’’آمرانہ‘‘ محسوس ہوتا ہے۔

پاکستان میں ویسا ہی نظام متعارف کروانے کو ہمارے حکمران بہت بے چین ہیں۔ سوشل میڈیا چلانے والی عالمی کمپنیوں کو للکارنے کی سکت ہم میں لیکن موجود ہی نہیں۔ حکمران جماعت کے پالے غول بلکہ ٹویٹر جیسی Apps کو غلاظت بھرے پیغامات کی بھرمار سے اپنے مخالفین کی بھد اُڑانے کے لئے استعمال کرنے میں بسا اوقات پیش قدمی لیتے نظر آتے ہیں۔

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

گزشتہ دو برسوں سے دُنیا بھر میں انسانی نفسیات کے مستند ماہرین طویل تحقیق کے بعد مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ سوشل میڈیا کا ضرورت سے زیادہ  استعمال نشے جیسی علت ہے۔ ہمارے دلوں میں اُبلتے غصے کو مزید بھڑکاتا ہے۔ دِلوں کو Toxic یعنی زہر آلود بنا دیتا ہے۔

مذکورہ تحقیق مگر صارفین کی بے پناہ اکثریت کو فیس بک یا ٹویٹر سے گریز کی جانب مائل کرنے میں قطعاََ ناکام رہی ہے۔ کرونا کی وباء نے دُنیا بھر میں بے تحاشہ دھندوں کا بھٹہ بٹھادیا ہے۔ ٹویٹر اور فیس بک چلانے والی کمپنیوں نے مگر کسادبازاری کے اس موسم میں بھی ریکارڈ ساز منافع کمایا ہے۔

کرونا کی وجہ سے Work From Home کا رویہ بھی فروغ پارہا ہے۔ اس رویے کے ہوتے ہوئے Toxic Apps سے اجتناب مزید دشوار ہوتا جارہا ہے۔ انٹرنیٹ کے البتہ بے شمار مثبت پہلو بھی ہیں۔ اس کی بدولت مثال کے طورپر ہم Live Streaming سے روشناس ہوئے ہیں۔

کرونا کی وجہ سے سینما ہائوسز کی بندش سے چند سال قبل ہی Netflix نے اس کے ذریعے تخلیقی فلم سازی کی حوصلہ افزائی کی۔ اس کی بدولت باکس آفس پر کھڑکی توڑ رش لینے والے فلم ڈائریکٹر اور لکھاری بھی چند ایسی فلمیں بنانے کے قابل ہوئے جنہیں وہ اگر سینما ہائوسز کے لئے تیار کرتے تو ’’ڈبہ‘‘ ہوجانے کے خوف سے کوئی فلم ساز ان پر سرمایہ لگانے کو تیار نہ ہوتا۔

میڈیا کے دھندے پر نگاہ رکھنے والے محققین اصرار کررہے ہیں کہ کرونا کے خاتمے کے بعد سینما ہائوسز دوبارہ کھلے تب بھی لوگوں کی بے پناہ تعداد اپنے گھروں میں بیٹھ کر Live Streaming والی فلمیں دیکھا کرے گی۔ کرونا کے نمودار ہونے سے قبل فلم سازی کے دھندے پر چھائے اجارہ دار اس امر کو یقینی بناتے تھے کہ فلم کو انٹرنیٹ کے ذریعے Live Stream کرنے سے قبل کم از کم تین مہینوں تک اسے محض سینما ہائوسز میں دکھایا جائے۔

اس شرط پر عملدرآمد اب ناممکن نظر آرہا ہے۔ اس ہفتے کے آغاز سے میں اپنے میڈیا پر چھائے اینکر خواتین وحضرات کی جانب سے ہوئی’’ذہن سازی‘‘ کے عمل کو سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

یہ حقیقت واقعتا غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ کے روبرو خود کو ’’صادق اور امین‘‘ ثابت کرنے میں ناکام رہنے کی وجہ سے کسی بھی عوامی عہدے کے لئے ’’نااہل‘‘ قرار پائے نواز شریف ان دنوں لندن میں براجمان ہوئے بھی ہمارے عوام کی ایک مؤثر تعداد کو اپنے سوشل میڈیا کے ذریعے ہوئے خطاب سے ’’گرمانے‘‘ میں کامیاب کیوں ہو رہے ہیں۔

مریم نواز صاحبہ کی پذیرائی ’’موروثی سیاست‘‘ کی اہمیت بھی اجاگر کررہی ہے۔ ’’اچھی حکومت‘‘ اور ’’صاف ستھری سیاست‘‘ کے فروغ پر دل و جان سے مامور میرے کئی محترم اور عوام میں بے پناہ مقبول ساتھی اس ضمن میں قطعاََ بے بس و ناکام نظر آرہے ہیں۔

میڈیا کے ذریعے عوام کی ’’ذہن سازی‘‘ والے عمل پر غور کرتے ہوئے مجھے حال ہی میں Netflix کے ذریعے ریلیز ہوئی ایک تازہ ترین فلم کو دوبارہ دیکھنا پڑا۔ Mank نامی یہ فلم درحقیقت ایک ایسے لکھاری کی داستان ہے جس نے Citizen Kane نامی شہرئہ آفاق فلم لکھی تھی۔

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

1940میں بنی اس فلم کے ڈائریکٹر Orson Welles اور لکھاری Herman Mankiewicz کو آسکر ایوارڈ بھی ملا تھا۔ نظر بظاہر Herman Mankiewicz جسے ہالی ووڈ میں Mank پکارا جاتا تھا کی زندگی پر فوکس کرنے والی اس فلم میں زندگی کے بے شمار پہلوئوں کو کمال مہارت سے اجاگر کیاگیا ہے۔

دورِ حاضر میں 1930 کی دہائی کے ابتدائی برسوں والے امریکہ کو مؤثر اور حقیقت پسندانہ انداز میں دکھانے کے لئے مذکورہ فلم بلیک اینڈ وائٹ میں بنائی گئی ہے۔ اس فلم کا ہیرو یعنی مانک ایک بہت ہی ذہین لکھاری ہے۔ اس دور کساد بازاری کی وجہ سے نازل ہوئی اذیتوں کو اس کا حساس دل بہت شدت سے محسوس کرتا ہے۔

اپنے دُکھ پر ماتم کنائی کے بجائے مگر وہ پھکڑپن والا رویہ اختیار کرلیتاہے۔ اپنے کاٹ دار فقروں کی وجہ سے وہ فلم سازی اور اخباری صنعت کے اجارہ دار سیٹھوں میں بہت مقبول ہو جاتا ہے۔

وہ اپنی پارٹیوں کو ’’پُررونق‘‘ بنانے کے لئے اسے ’’درباری مسخرے‘‘ کے طورپر مدعو کرتے ہیں۔ اس ضمن میں اس دور کی اخباری صنعت کا اہم ترین اجارہ دار William Randolph Hearst مانک کا سب سے بڑا مداح بن جاتا ہے۔

عمومی طور پر یہ فرض کیا جاتا ہے کہ Citizen Kane نامی فلم درحقیقت اس نے مذکورہ اجارہ دار کی بابت لکھی تھی۔ْ مانک فلم نے تاہم مجھے میڈیا کے ذریعے عوام کی ’’ذہن سازی‘‘ والے عمل کو سمجھنے میں حیران کن مدد فراہم کی۔ اس فلم کے Subplot میں امریکی ریاست کیلیفورنیا کے گورنر کا انتخاب بھی دکھایا گیا ہے۔

1929میں نازل ہوئی کساد بازاری کی وجہ سے ان دنوں امریکی عوام کا جینا دوبھر ہو چکا تھا۔ عوامی پریشانیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک دردمند ناول نگار Sinclair گورنر کا انتخاب لڑنے کا فیصلہ کرتا ہے۔

اپنی انتخابی مہم میں وہ اصرار کرتا ہے کہ عوامی مسائل کا واحد حل سوشلزم جیسے نظام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ عوام میں اس ناول نگار کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ’’نظام کہنہ‘‘ کے حامی اجارہ داروں کو پریشان کردیتی ہے۔

وہ یکجا ہوکر فلم سازوں اور مختلف ریڈیو اسٹیشن چلانے والے سیٹھوں کو اس امر پر اُکساتے ہیں کہ وہ ’’ذہن سازی‘‘ والے ہنر کو بروئے کار لاتے ہوئے Sinclair کو امریکی نظام کے لئے ’’خطرہ‘‘ دکھائیں۔ لوگوں کو قائل کریں کہ Sinclair عوامی دُکھوں کے ازالے کے بجائے امریکہ میں ہٹلر کی متعارف کردہ ’’فسطائیت‘‘ یا سوویت یونین میں موجود ’’لادینی کمیونزم‘‘ مسلط کرنا چاہ رہا ہے۔

سینما ہائوسز میں ان دنوں کسی فلم کی نمائش سے قبل ’’نیوز ریلیز‘‘ کے ذریعے ناظرین کو ’’حالاتِ حاضرہ‘‘ سے باخبر رکھنے کی کاوش بھی ہوتی تھیں۔ میرے بچپن میں بھی ہمارے سینما ہائوسز میں فلم کی نمائش سے قبل ’’پاکستان کا تصویری خبرنامہ‘‘ دکھایا جاتا تھا۔

فلمی صنعت کے اجارہ دار سیٹھ اپنے تنخوا ہ دار ڈائریکٹروں اور لکھاریوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ایسے ’’خبرنامے‘‘ تیار کریں جو عوام کو قائل کردیں کہ Sinclair ایک ’’دونمبری‘‘ شخص ہے۔ماہانہ تنخواہ لینے والوں کی اکثریت مگر ’’جھوٹے‘‘ خبرنامے تیار کرنے کو دل سے آمادہ نہیں۔

وہ سیٹھوں کو بتاتے ہیں کہ ’’خبرنامہ‘‘تیار کرتے ہوئے ’’عوام کی رائے‘‘ گھڑی نہیں جا سکتی۔ بہت رعونت سے مگر ان کے سیٹھ تنخواہ دار ’’تخلیق کاروں‘‘ کو یاد دلاتے ہیں کہ وہ اپنے ہنر کے ذریعے کسی 42 سالہ خاتون کو بیس برس والی دوشیزہ بناکر دکھاتے ہیں۔Sinclair کو وِلن ثابت کرنے میں ان کا ’’ہنر‘‘ کیسے ناکام رہ سکتا ہے۔

فضول بحث کو چھوڑو۔ ماہانہ تنخواہ چاہئے تو Sinclair کو امریکہ کے لئے ’’خطرہ‘‘ بناکر دکھائو۔ کوئی ایک لکھاری بھی کساد بازاری کے اس موسم میں بے روزگار ہونے کی اذیت و ذلت برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ وہ سب ویسے ہی ’’خبرنامے‘‘ تیار کرنا شروع ہوجاتے ہیں جن کا حکم دیا گیا ہے۔ ان کے ’’ہنر‘‘ کی بدولت بالآخر Sinclair بھاری اکثریت سے ناکام ہوجاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

%d bloggers like this: