مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’ہم‘‘اور شاہ زادہ ۔۔۔حیدر جاوید سید

یہ شاہ زادہ تو اپنی امڑی کے شہر ملتان سے واپس تخت لہور جانے کا نام ہی نہیں لے رہا ادھر ہم ہیں کہ اپنی لائبریریوں کے لئے اداس ہیں۔ وہی فقیر راحموں لائبریری، جسے ایک بار ستم ظریف پڑوسی نے منہ بھر کے گودام کہتے ہوئے دریافت کیا تھا،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ شاہ زادہ تو اپنی امڑی کے شہر ملتان سے واپس تخت لہور جانے کا نام ہی نہیں لے رہا ادھر ہم ہیں کہ اپنی لائبریریوں کے لئے اداس ہیں۔ وہی فقیر راحموں لائبریری، جسے ایک بار ستم ظریف پڑوسی نے منہ بھر کے گودام کہتے ہوئے دریافت کیا تھا، صوفی جی! آپ کی دکان کہاں ہے۔ جی چاہا اس کے سر پر پانچ دس کتابیں دے ماروں۔ اس کتابی حملے کے لئے سیڑھیاں چڑھ کر واپس جانا پڑنا تھا اس لئے وہ ارادہ ملتوی کردیا۔
خیر اب صورت یہ ہے کہ اپن پچھلے چھبیس ستائیس دنوں سے ملتان میں ہے۔ کیوں ہے یہ میں بتاتا ہوں۔ شاہ زادہ پچھلے سال سوا سال سے گھر پر پڑا صوفے اور کرسیاں توڑنے، سگریٹ پھونکنے اور فقیر راحموں لائبریری میں تصویریں بنواکر فیس بک و ٹیوٹر پر لگانے کے علاوہ کچھ کرتا کراتا نہیں تھا۔
اس کے ’’نکمے پن‘‘ کی وجہ سے شاہ زادی دن میں دوتین بار گاڑھی اردو میں ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے کہتی تھیں، ارے گھر پر ہی پڑے رہو گے باہر نکلو نوکری تلاش کرو۔ اس ڈانٹ ڈپٹ کے دوران اگر انہیں ہماری موجودگی کا احساس ہوجاتا تو پھر سمجھ لیں کہ ایٹمی حملہ سے کم پر بات نہیں رکتی تھی۔
شاہ زادی کا خیال بلکہ یقین ہے کہ ان کے مجازی خدا کی بیکاری کی وجہ ہم ہیں۔ یہ ہم ہی ہیں جو انہیں الٹی سیدھی پٹیاں پڑھاتے رہتے ہیں اس لئے اکثر روزگار کے لالے پڑجاتے ہیں۔
خدا لگتی بات یہ ہے کہ مجھ فقیر کو گمراہ اسی شاہ زادے نے کیا ورنہ ہم تو اصلی سچے اور کھرے محب وطن اور باعمل مسلمان ہیں۔ اس کی وجہ سے لوگ ہمیں سکہ بند کافر اور پرلے درجہ کا غیرمحب وطن سمجھتے ہیں۔
کبھی کبھی جی چاہتاہے کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ کر مرشد بلھے شاہؒ کی خانقاہ پر مستقل ڈیرہ ڈال لیا جائے۔ اس پروگرام کو بننے سے قبل ملتوی کرنے کی وجہ ہمیشہ یہ بنی کہ وہ منت ترلوں پر اتر آتا ہے۔
اب اخلاق بھی کوئی چیز ہے سو اسی اخلاق کے مارے ہم اس کے ساتھ ہیں۔
شاہ کو گھٹی پتہ نہیں کس نے دی ہے کسی کی سنتا ہی نہیں بڑا آیا صحافت کا نوابزادہ نصراللہ خان، ہر حکومت کی مخالفت کرنی اور پھر دربدر رہنا۔
ایک بار تو ایسا ہوا کہ شاہ زادے نے اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری کے بارے میں پتہ نہیں کیا لکھ دیا، بدلہ فیصل رضا عابدی نے یوں چکایا کہ اس کے بھائی کو پی آئی اے میں بحال نہ ہونے دیا۔ یقین کیجئے دیگر چند مواقع کے ساتھ یہ موقعہ بھی ایسا تھا جب میرا دل چاہا اس کا گلا دبادوں۔
اپنے حالات کا ذمہ دار ہمیں ٹھہراتا ہے حالانکہ کئی بار سمجھایا بھی کہ شاہ زادے زمانے کے ساتھ چلنے کے اسباق کہیں سے پڑھ لو، اسباق پڑھے بھی تو ایسے اساتذہ سے جن کے گھروں میں استانیاں (بیگمات) ہمیشہ یہی کہتی سنائی دیں
’’ارے میاں یہ صحافت وہافت چھوڑ کر کوئی ڈھنگ کا کام ہی کرلو‘‘۔
سچی بات یہ ہے کہ شاہ کوئی ڈھنگ کا کام کربھی نہیں سکتا۔
اماں ابا دونوں کا خاصا احترام کرتے ہیں ملتان والے، تعویذ دھاگہ ہی شروع کردیتا تو حالات بہتر ہوسکتے تھے مگر عجیب مٹی کا بنا ہوا ہے، اس پر ستم یہ ہے کہ مشکل آئے تو ذمہ دار فقیر راحموں ہے۔ خیر ہو تو یہ دعائے شب کا نتیجہ ہے یا دوستوں کی مہربانی۔
یعنی ہم کسی شمار میں ہی نہیں جو ساٹھ برسوں سے اس کے ساتھ کھجل ہوتے پھر رہے ہیں۔
اب بھی اسے ملتان میں نوکری ملی تو سرپٹ بھاگتا چلا آیا مجبوراً ہمیں بھی ساتھ آنا پڑا۔ کچھ حالات اچھے نہیں اور کچھ شاہ کا بھی پتہ نہیں چلتا کیا کہہ لکھ دے اور لینے کے دینے پڑجائیں۔
خود تو اپنی تحریروں میں اچھی بھلی باتیں لکھتا ہے، دشمنی نکالنی ہو تو لکھ دیتا ہے فقیر راحموں نے یوں کہا۔ ارے ہم نے کب کہا بھائی!
ہم تو آستانہ عالیہ آبپارہ سے منصورہ شریف تک کے عقیدت مند ہیں۔ خلوص دل سے چاہتے ہیں کہ اس کے حالات اچھے رہیں لیکن خود ہی پھڈے مول لیتا ہے اور ملبہ ہم پر ڈال دیتا ہے۔
ایک بار اس کا موبائل جیب کترے صاحب نے نکال لیا تو تھانہ شاہدرہ رپورٹ لکھوانے پہنچ گیا۔
تھانیدار نے نام پوچھا تو پہلے کہنے لگا فقیر راحموں، اس نے حیرانی سے دیکھا تو بولا حیدر جاوید سید فقیر راحموں۔ اب تھانیدار نے حیران بلکہ پریشان ہوکر کہا
’’صوفی سوٹا تے نئیں لایا ہویا‘‘
وہ تو شکر ہے کہ تھانیدار کے پاس ہمارا ایک عقیدت مند موجود تھا ورنہ عین ممکن تھا کہ شاہ اپنی ہی جیب کاٹنے کے الزام میں دھرلیا جاتا۔
آجکل ہم دونوں ملتان میں ہیں۔ دونوں یعنی ہم اور شاہ زادہ۔ شاہ تو خیر ملتان آنے کے بہانے ڈھونڈتا رہتا ہے۔ ان دنوں بڑا خوش ہے کیوں نہ ہو امڑی کا شہر ہے، دوست احباب ہیں۔
ایک ہم ہیں کہ اپنی لائبریری میں وقت گزارنے کے عادی، اب بوریت ہی بوریت ہے۔ اس پر ستم یہ ہے کہ بابر چودھری نے شاہ زادے سے خلافت برائے ملتان ہتھیالی، ہم منہ دیکھتے رہ گئے۔ ماجرا پوچھاتو جواب ملا اسے خلافت نہ دیتے تو شہادت پکی تھی۔
غصہ تو بہت آیا مگر عین اس موقع پر فیاض اعوان نے حالات کو سنبھالتے ہوئے کہا اللہ خیر کریسی۔
اللہ تو خیر کرتا ہی ہے لیکن اس پکے ٹھٹھے کافر شاہ کو کون سمجھائے۔ اب حالات نہیں کہ بندہ بلھے شاہ بننے کی کوشش کرے۔
شاہ کو مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس نے منہ آئی گل کہہ دینا ہوتی ہے۔ اس کے سجن بیلی بھی تقریباً اسی جیسے ہیں۔ زمانے سے تنگ انوکھی باتیں کرنے والے، اس پر ستم یہ ہے کہ ان کا خیال بھی یہی ہے کہ شاہ زادے کی بیروزگاریوں اور نگری نگری پھرنے کے حالات کے ذمہ دار ہم ہیں۔
حالانکہ ایسی بات ہرگز نہیں۔ اب جو بندہ ہم سے بھلے مانس فقیر سے بناکر نہ رکھ سکتا ہو وہ زمانے سے کیسے بناکر رکھ سکتا ہے۔ چلیں خیر کوئی بات نہیں ہم حق دوستی ہے ادا کرتے رہیں گے۔
شاہ ہے بے مروت آدمی، ہمیں ڈر ہے کہ جب بھی ہمیں شہادت نصیب ہوئی اس کی وجہ سے ہی ہوگی۔

%d bloggers like this: