اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اکادمی ادبیات کے زیراہتمام آن لائن مشاعرہ

شفقت محمود نے کہا کروناوائرس نے سماجی زندگی کو مفلوج کر دیا ہے اجسے میں شعرا نے پرامید شاعری کے ذریعہ حوصلہ افزائی کی ہے۔

اکادمی کی آن لائن سرگرمیاں ادب سے محبت رکھنے والوں کے لیے انسپیریشن کا باعث بنے گی۔ شفقت محمود
اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے پاکستان میںپہلی بار آن لائن مشاعرہ منعقد کیا گیا ہے۔ڈاکٹر یوسف خشک
اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام پہلا عالمی آن لائن مشاعرہ
اسلام آباد(پ ۔ر) اکادمی ادبیات پاکستان کاعالمی آن لائن مشاعرہ وبا کے دنوں میں ادب سے لگاﺅ رکھنے والوں کے لیے تازہ ہوا کا جھوکا ہے اورگھروں میںمحصورا ہل قلم کی صحت مندانہ ادبی سرگرمی ہے۔ ان خیالات کا اظہار اکادمی ادبیات پاکستان کے زیراہتمام پاکستان میںپہلی بارمنعقدہ آن لائن مشاعرہ میں شفقت محمود،وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت اور قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن نے بطور مہمان خصوصی کیا۔مشاعرہ کی صدارت افتخار عارف کی۔ویڈیو لنک کے ذریعہ پورے ملک اور دنیا بھرسے شعرا کلام پیش کیا۔ سو سے زائد سامعین نے آن لائن مشاعرہ سنا۔ شفقت محمود نے کہا کہ حکومتی اداروں ،سماجی تنظیموں اور افراد کے باہمی تعاون اور مشترکہ کاوشوں کے بغیر اس وبائی صورت حال اور اس کے منفی اثرات سے نکلنا ممکن نہیں، تمام حکومتی ،سماجی ادارے اور ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں اس مشکل وقت میں اپنا کردار ادا کریں۔ حکومت پاکستان زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی حفاظت کی ذمہ داری کا احساس رکھتی ہے۔ عالمی تناظر میں دیکھیں تو ہمارا خطہ ایسا ہے جہاں مشکلات زیادہ اور وسائل کم ہیں لیکن حکومت بھرپور کوشش کر رہی ہے کہ غریب عوام مشکلات کا کم سے کم سامنا ہو۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ اہل علم کے رابطہ کے دائرہ کو کئی ملکوں بلکہ براعظموں تک پھیلا دیا ہے۔ وائرس نے باہمی حفاظت کے اقدام کے تحت گھروں تک محدود کردیا ہے جس سے یکسانیت کا ماحول پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ اکادمی کی آن لائن سرگرمیاں ادب سے محبت رکھنے والوں کے لیے انسپیریشن کا باعث بنے گی۔ حالات بہتر ہوں گے اور روزمرہ زندگی کی معمول کی رونقوں کی طرف پلٹیں گے تو یقینا اکادمی ادبیات پاکستان جدید وسائل کا استعمال بہتر طورپر کر کے اہل قلم کے باہمی رابطوں کو مزید فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ اکادمی نے ”امید زیست ایوارڈ “ اقدام جو کرونا کی وبائی صورت حال کے تناظر میں شعرا کی تخلیقی کاوشوں کی پذیرائی کی ایک صورت ہے اچھی کاوش ہے۔ اکادمی کی ویب سائٹ پر شعری تخلیقات پیش کی جا رہی ہیںجس میں پاکستان کے مختلف زبانوں کے شعرا بھرپور دلچسپی لے رہے ہیں۔ خاص طور پر ملک کے دور دراز کے علاقے جہاں کے شاعروں اور ادیبوں کی آوازیں مرکزی دھارے تک کم پہنچتی ہیں انھیں بھی اس صورت میں ایک پلیٹ فارم مہیا ہوا ہے۔ اکادمی وبائی صورت حال کے خاتمے کے بعد بھی دوردراز کے علاقوں کے ادیبوں سے رابطے استوار رکھے تاکہ پورے پاکستان کے اہل قلم کے جذبات و احساسات کی پذیرائی ممکن ہو سکے۔ چیئرمین، اکادمی ادبیات پاکستان ڈاکٹر یوسف خشک نے کہا کہ وفاقی وزیر، شفقت محمود کی سرپرستی میں اکادمی کو جدید خطوط پر آگے بڑھاتے ہوئے ادب کے فروغ اور ادیبوں کی فلاح و بہود کے منصوبوں پر تیزی سے کام کریں گے۔انہوں نے کہا کہ آن لائن ادبی سرگرمیوںسے گھروں میں محدود ادب سے لگاﺅ رکھنے والے احباب رابطہ میں رہیں گے اوراہل قلم یک دوسرے سے اس ماحول میں تنہائی اور نفسیاتی کرب سے نکل کر اجتماعی زندگی اورسماجی روابط سے منسلک ہو جائیں گے۔اکادمی اس طرح کی آن لائن تقریبات کا اہتمام کرتی رہے گی۔ اکادمی ادبیات علامہ اقبال کی یوم وفات کے موقع پر آن لائن سیمینار اور ماہ رمضان میں نعتیہ ادب کے حوالے سے تقریب کا اہتمام کرے گی۔انہوں نے کہا کہ موجودہ صورت حال تناظرمیں آن لائن ادبی سرگرمیوں وسعت دیں گے۔ ادبی تاریخ گواہ ہے کہ قلم کاروں نے بہترین اور شاہکار تحریریں مشکل حالات اور مشکل ادوار میں تخلیق کی ہیں۔ تخلیق کا عمل حالات کی سختی کی بھٹی میں پگھل کر ہی کمالات دکھاتا ہے۔ کرونا کی وبا میں تخلیق نگاروں نے قلم کے ذریعے مشکل حالات کی عکاسی کی اور انسانوں میں شعور، جستجو اور جینے کی لگن کو زندہ رکھا ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ سارے کام رک بھی جائیں تو تخلیقی کام پھر بھی جاری ریے گا۔ لاک ڈاون کی وجہ سے انسان گھروں میں بند ہیں۔ سماجی اجتماعات نہیں ہو رہے۔ وہ پہلے والی مدارات نہیں پھر بھی اہل قلم اور اہل علم لوگوں نے لکھنا اور سوچنا بند نہیں کیا۔ ہمیں اپنے تخلیق کاروں کی ہمت افزائی کرنی چاہیے اور پاکستان میں علم و ادب و زبان کی ترقی کے لیے عملی کام کرنا چاہیے۔ افتخار عارف نے کہا کہ وبا کے اس موسم میں اکادمی ادبیات کا مشاعرہ بہار کی مانند ہے جس میں دنیا بھر سے شعرا شرکت کر رہے ہیں یہ ایک اچھا اقدام ہے۔ کروناوائرس نے سماجی زندگی کو مفلوج کر دیا ہے اسے میں شعرا نے پرامید شاعری کے ذریعہ حوصلہ کی ہے۔
مشاعرے میں افتخار عارف، پروفیسر جلیل عالی، سرفرازشاہد، ڈاکٹر عابد سیال،اختر رضا سلیمی، رباب تبسم، ڈاکٹر شائستہ نزہت، ڈاکٹر سعدیہ طاہر، محمد سلمان، پروفیسر رباب تبسم، ڈاکٹر صوفیہ یوسف، مرید راحمون، راشدہ ماہین ملک، (اسلام آباد)، ذیشان مہدی(اسکردو)، ڈاکڑ نذیر تبسم، بشریٰ فرخ (پشاور)،غلام قاسم مجاہد بلوچ (ڈیرہ غازی خان)، میر حاجن میر(سیہون شریف)، ابراہیم کھو کھر(خیرپور)، ڈاکٹر اشرف کمال(بھکر)، بیرم غوری( کوئٹہ)، ایاز گل، نصراللہ خان ناصر(سکھر)، امجد اسلام امجد، ناز بٹ، ڈاکٹر اختر شمار، خالد مسعود( لاہور)، شبنم گل(حیدر آباد)، ڈاکٹر قاضی عابد، ڈاکٹرسید فرتاش، صائمہ نورین بخاری(ملتان)، محمود شام، سیما غزل، ڈاکٹر فاطمہ حسن( کراچی) اوربیرون ملک سے شمس جعفری(ایران)، ڈاکٹر محمود الاسلام (بنگلہ دیش)، ارشد فاروق(فن لینڈ)، ڈاکٹر تقی عابدی(کینیڈا)، یشب تمنا،عروج، شبانہ یوسف(برطانیہ)، ڈاکٹر آرزو سورن(ترکی)، عشرت معین سیما (جرمنی)، خانم والہ جمال (قاہرہ، مصر)، مہ جبیں غزل انصاری( برطانیہ)، شائستہ حسن(ناروے)، ناہید ورک،سید نواب حیدر نقوی( امریکہ)اورڈاکٹر خلیل طوقار( ترکی)نے آن لائن شرکت کی۔
(طارق شاہد)

%d bloggers like this: