نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
8فروری 2024ء کے انتخاب میں حصہ لینے کے خواہش مند تحریک انصاف کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی تھوک کے حساب سے مسترد کردئیے گئے ہیں۔ آئندہ دس دنوں تک مسترد شدہ کاغذات والے عدالتوں سے انصاف کی دہائی مچائیں گے۔ میرے وہمی ذہن کو اگرچہ یہ خدشہ لاحق ہے کہ انصاف کے خواہاں افرا د کی کثیر تعداد انتخابی ریس سے باہر رکھی جائے گی۔
ذاتی طورپر میں تحریک انصاف کے صف اوّل کے رہ نمائوں کے بغیر ہوئے انتخاب کی بابت خوش نہیں۔یہ اعتراف کرنے کے بعد مگر یہ سوچنے کو بھی مجبور ہورہا ہوں کہ چند افراد نے کاغذات نامزدگی کے عمل کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔یہ البتہ طے نہیں کرپایا کہ جو غلطیاں کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کی بنیاد ہیں وہ دانستہ تھیں یا غیر ارادی۔
مذکورہ بالا سوال نے مجھے سب سے زیادہ پریشان عمران خان کے حوالے سے کیا ہے۔انتخابی سیاست میں وہ نو وارد نہیں۔1996ء سے اس عمل میں حصہ لینا شروع ہوگئے تھے۔ بالآخر 2002ء میں قومی اسمبلی کے لئے منتخب بھی ہوگئے تھے۔ 2008ء کے انتخاب کا انہوں نے افتخارچودھری کی محبت میں بائیکاٹ کیا۔2013ء اور 2018ء میں تاہم وہ انتخابی عمل میں متاثر کن حد تک متحرک رہے۔ انتخابی عمل کی حرکیات سے کلی طورپر آگاہ اور پاکستان کے وزیر اعظم رہے تحریک انصاف کے بانی سے مجھے ہرگز توقع نہیں تھی کہ لاہور کے ایک حلقے سے ان کے تجویز اورتائید کنندہ افراد متعلقہ حلقے کے بطور ووٹر رجسٹر ہی نہیں ہوئے ہوں گے۔ تحریک انصاف کے بانی کے کاغذات نامزدگی جمع کروانے والوں کو جبلی طورپر یہ خوف لاحق ہونا چاہیے تھا کہ ان کے قائد کی جانب سے جمع شدہ کاغذات کو محدب عدسے کے نیچے رکھ کر بارہا جانچا جائے گا۔ ذرا سی غلطی بھی برداشت نہیں ہوگی۔ تجویز وتائید کنندہ افراد تو کلیدی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ان کے حوالے سے فاش دکھتی کوتاہی کیوں برتی گئی۔
کلیدی کوتاہی کا ارتکاب سازشی ذہنوں کو یہ سوچنے کو اکساسکتا ہے کہ جو کوتاہی سرزد ہوئی وہ دانستہ تھی۔سوال مگر یہ بھی اٹھتا ہے کہ وہ کون لوگ تھے جو بانی تحریک انصاف کے کاغذات نامزدگی تیار کر نے کے ذمہ دار تھے۔نظر بظاہر نامور وکلاء کا ایک بڑا اور طاقت ور گروہ ہمہ وقت تحریک انصاف کی مشاورت کو خدائی خدمت گاروں کی طرح میسر ہے۔ان دنوں اس جماعت کے چیئرمین بھی ایک بیرسٹر ہیں۔وہ اپنی نگرانی میں وکلاء کی ایک ٹیم تیارکرسکتے تھے جو ایک نہیں مختلف نگاہوں سے بانی تحریک انصاف کے کاغذات نامزدگی کا جائزہ لیتی۔ اس جانب مگر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی۔ ضرورت سے زیادہ اعتماد پر بھروسہ کرتے ہوئے یہ فرض کرلیا گیا کہ عمران خان جیسے قد آور رہ نما کے کاغذات نامزدگی کا باریک بینی سے جائزہ لینے سے ریٹرننگ افسر اجتناب برتے گا۔ ان پر سرسری نگاہ ڈالتے ہی منظوری کے دستخط کردے گا۔جو بے نیازی برتی گئی وہ ضرورت سے زیادہ اعتماد کے علاوہ اس امر کا عندیہ بھی دے رہی ہے کہ تحریک انصاف کے قائد سمیت اس جماعت کے حامیوں اور سرکردہ رہ نما?ں کی اکثریت یہ سمجھ ہی نہیں پائی ہے کہ ریاست کے سب سے زیادہ طاقت ور ادارے کا رویہ ان کے خلاف 9مئی 2023ء کے بعد سے کس حد تک معاندانہ ہوچکا ہے۔سوشل میڈیا پر نظر آتی تحریک انصاف کی بے پناہ مقبولیت اور راہ چلتے افراد سے سرسری گفتگو کے ذریعے ہوئے ’’سروے‘‘ اس جماعت سے وابستہ افراد کو قائل کرچکے تھے کہ 8فروری 2024ء کے انتخاب تقریباََ یک طرفہ ہوں گے۔تحریک انصاف ان کے ذریعے سادہ نہیں بلکہ دو تہائی اکثریت سے آئندہ حکومت بناسکتی ہے۔
عمران خان کی ذاتی مقبولیت سے مغلوب ہوئے اذہان ابھی تک یہ سمجھ نہیں پائے کہ ہمارے ہاں وزیر اعظم کا انتخاب امریکی صدر کی طرح ون آن ون مقابلے کی صورت نہیں ہوتا۔ وزیر اعظم کا ’’انتخابی حلقہ‘‘ قومی اسمبلی ہوتا ہے۔وہاں پہنچے اراکین کی اکثریت اسے منتخب کرتی ہے۔اس حقیقت کا سنجیدگی سے احساس ہی تحریک انصاف کو مجبور کرتا کہ وہ کاغذات نامزدگی جمع کرواتے ہوئے انتخابی عمل کے منجھے ہوئے کھلاڑیوں کی فراست سے رجوع کرتے۔
کائیاں اور تجربہ کار کھلاڑیوں کا ذکر چھیڑتے ہی اگرچہ میرے ذہن میں راولپنڈی کی لال حویلی سے اٹھے بقراط عصر کا چہرہ بھی نمودار ہوگیا ہے۔موصوف 1985ء سے قومی اسمبلی کے ہر انتخاب میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ان کے کاغذات نامزدگی بھی مسترد ہوگئے۔ وجہ مری کے ایک ریسٹ ہائوس کے واجبات بتائے گئے ہیں۔اس کے علاوہ زمین کے’’ایک ٹکڑے‘‘ کا ذکر بھی ہے جسے موصوف اپنے مبینہ اثاثوں میں شمار نہیں کرپائے۔
ریسٹ ہائوس کے واجبات کا ذکر ہوا تو مجھے پرویز رشید یاد آگئے۔ ’’دلیل کا غلیل‘‘ سے تقابل کرنے کی وجہ سے پرویز صاحب کو ’’محبان وطن‘‘ کے لئے ناقابل قبول بنادیا گیا تھا۔ مارچ 2021ء میں سینٹ کی آدھی نشستیں خالی ہوئیں تو مسلم لیگ (نون) نے انہیں دوبار ہ ایک نشست کے لئے نامزد کردیا۔ ان کے کاغذات نامزدگی کا جائزہ لیتے ہوئے مگر ان کے ذمے پنجاب ہائوس کے لاکھوں روپے کے واجبات لگادئیے گئے۔ پرویز صاحب کے بے تحاشہ دوست بضد رہے کہ وہ ان واجبات کی ادائیگی کو چند مخیر لوگوں کی مدد سے ادا کرنے کو تیار ہیں۔پرویز صاحب نے مگر خود کو بے وقار بنانے سے گریز کیا۔ مصر رہے کہ ’’جعلی مدعا‘‘ اپنے سرکیوں لیں۔ پرویز رشید جیسے ’’تخریب کار‘‘ سے تکنیکی بنیادوں پر نجات کے بعد مسلم لیگ (نون) نے چودھری پرویز الٰہی کی فراست پر اعتماد کرتے ہوئے آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے کی اسمبلی میں سینٹ کا انتخاب ہونے نہیں دیا۔ تحریک انصاف مسلم لیگ (نون) اور مسلم لیگ (ق) کے امیدواروں کے مابین ’’دو تیریاں دو میریاں‘‘ جیسا مک مکا ہوگیا اور وہ ’’بلامقابلہ‘‘ سینٹ کے رکن بن گئے۔ پرویز رشید کی نشست عرفان صدیقی صاحب کے حوالے کردی گئی۔ انہیں بھی تاہم عمران حکومت نے برداشت نہیں کیا۔قانون کرایہ داری کی چند احمقانہ شقیں ڈھونڈ کر سینکڑوں طلبا کے استاد رہے صدیقی صاحب کو جیل کی اس کوٹھڑی میں پھینک دیا گیا جو سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے مختص ہوتی ہے۔بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر