نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ جمعہ کی سہ پہر اسلام آباد کی ایک مارکیٹ میں فارمیسی کی دوکان سے آنکھوں میں ڈالنے والے قطرے خریدکر باہر نکلا تو بہت عرصے بعد ایک شفیق بزرگ سے ملاقات ہوگئی۔ جنرل مشرف کا اقتدار ختم ہونے تک وہ اہم ترین سرکاری عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ 1990کی دہائی میں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی دونوں حکومت کا ”باریاں لینا“ انہوں نے متحرک سرکاری افسر کے طورپر بھگتا ہے۔ ”اصل خبر“ رکھنے والوں سے مسلسل رابطے میں رہے ہیں۔ریٹائر ہونے کے بعد اگرچہ اب خود کو ”لاعلم“ بیان کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ان سے ملاقات ہوجائے تو میں مصررہتا ہوں کہ ”چھٹتی نہیں ہے منہ سے….“ اور بضد ہوجاتا ہوں کہ وہ مجھے مل ہی گئے ہیں تو کوئی ”خبر“ بھی دیں۔ جمعہ کے دن بھی ایسے ہی ہوا۔ اپنی ”لاعلمی“ یاددلانا ان کے کام نہ آیا تو بالآخر یہ کہتے ہوئے رخصت چاہی کہ حال ہی میں استعفیٰ دینے والے وزیر داخلہ سرفراز بگتی پر نگاہ رکھوں۔میرے شفیق بزرگ کو ”شبہ“ تھا کہ وہ پیپلز پا رٹی میں شامل ہورہے ہیں۔
ان سے ملاقات کے بعد گھر لوٹا تو ان کے بتائے ”خدشے“ پر غور کیا۔ سچی بات یہ بھی ہے کہ کافی سوچ بچار کے بعد یہ طے کرنے کو مجبور ہوا کہ میرے دوست واقعتا ”ریٹائر“ہوچکے ہیں۔”اصل خبر“ والوں سے ان کا رابطہ قائم نہیں رہا۔ اپنے ذہن میں آئی بات اور موصوف کی دی ”خبر“ کی وقعت جاننے کے لئے بالآخر میں نے اپنے ٹویٹر اکاﺅنٹ پر جواب ”ایکس“کہلاتا ہے ایک سوال پوسٹ کردیا۔ اس کے ذریعے لوگوں سے یہ جاننا چاہا کہ ان کی دانست میں نگران کابینہ سے مستعفی ہونے کے بعد سرفرازبگتی کونسی سیاست جماعت میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔
میرے سوال کو پیر کی سہر پہر تک 62ہزار لوگوں نے دیکھ رکھا تھا۔ ان میں سے تقریباََ 5فی صد نے جواب دینے کی زحمت بھی اٹھائی۔ 40فیصد سے زائد افراد کا خیال تھا کہ بگتی مسلم لیگ (نون) میں شامل ہوں گے۔ اس کے مقابلے میں تقریباََ 45فی صد نے اس شبے کا اظہار کیا کہ بگتی صاحب نگران حکومت سے مستعفی ہوکر نگہبانوں کی تشکیل کردہ جماعت-باپ-یعنی بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہوکر اسے نئی توانائی فراہم کرنے کی کوشش کریں گے۔ ایک فی صد سے کم لوگوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ بگتی صاحب پیپلز پارٹی میں بھی شامل ہوسکتے ہیں۔
میری جانب سے سوشل میڈیا پر بگتی صاحب کے مستقبل کے حوالے سے اٹھائے سوال کے جوبرجستہ جوابات ملے انہوں نے سیاست کے دیرینہ طالب علم کے لئے دونکات اجاگر کئے۔پہلا یہ کہ ہمارے عوام کی اکثریت اب بھی یہ تصور کئے بیٹھی ہے کہ وطن عزیز کا سیاسی منظر نامہ مقتدرکہلاتی قوتیں ہی طے کرتی ہیں۔”باپ“ جیسی جماعتیں ان کی پسندیدہ ہیں۔ وہ اگر کام نہ آئیں تو مسلم لیگ (نون) کو ایک بار پھر ”لاڈلہ“ بنایا جاسکتا ہے۔
جو نکات میں نے اخذ کئے ہیں ان کا ٹھوس حقائق کی بنیاد پر درست ہونا قطعاََ ضروری نہیں۔میں حقائق کے بجائے عوام کے وسیع تر حلقوں میں پھیلے ”تاثر“ کا ذکر کررہا ہوں۔سرفراز بگتی نے جو فیصلہ کیا ہے وہ بلکہ ایک بار پھر میرے اس دعویٰ کو اثبات فراہم کرتا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے تشکیل دی Virtualجسے ”متبادل“ یا ”خیالی“ دنیا بھی کہا جاسکتا ہے۔برسرزمین موجود حقائق کی ٹھوس انداز میں ترجمانی نہیں کرتی۔ہمیں بلکہ واہموں اور ہیولوں میں الجھاسکتی ہے۔
محاورے والی ”دیگ“ کا جو ”دانہ“ میں نے 15دسمبر کی رات سرفراز بگتی کی سیاسی ترجیح کے بارے میں سوال اٹھاتے ہوئے چکھا اس کے حوالے سے وصول ہوئے جوابات کا جائزہ لیتے ہوئے تحریک انصاف کے جذباتی حامیوں کو بھی ”ورچوئل“ کی ”اوقات“ کا اندازہ ہونا چاہیے۔ یہ کالم اگرچہ میں حقیقت اور تاثرکے مابین فرق بیان کرنے کی نذر کرنا نہیں چاہتا۔ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد میں نے بے تحاشہ کالموں میں ”مابعداز حقائق“ دنیا بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔مختلف ممالک میں چلی چند تحاریک کا ذکر کرتے ہوئے سوشل میڈیا کی ”محدودات“ بھی زیر بحث لاتا رہا ہوں۔
فی الحال توجہ اس حقیقت پر مرکوز رکھنا ہوگی کہ سرفراز بگتی پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔ مذکورہ جماعت میں ان کی شمولیت سیاست پر نگاہ رکھنے والوں کے لئے حیران کن نہیں ہونا چاہیے تھی۔ سرفراز بگتی کا تعلق بگتی قبیلے کی ایک ایسی شاخ سے ہے جو 1990کی دہائی کے آغاز میں نواب اکبر بگتی کے اجارہ کو چیلنج کرنا شروع ہوگیا تھا۔ ”سردار“ کو للکارنے کی وجہ سے سرفراز بگتی کے بزرگوں کو ڈیرہ بگتی چھوڑنا پڑا۔ وہ پنجاب اور اسلام آباد میں پناہ لینے کو مجبور ہوئے۔ جب وہ جلاوطن ہوئے تو وفاق میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت تھی۔نصیر اللہ بابر ان کے طاقت ور وزیر داخلہ تھے اور وہ سرفراز بگتی کے بزرگوں کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے نمایاں کردار ادا کرتے رہے۔ غالباََ ان ہی دنوں میں قائم ہوئے تعلق کی بنا پر سرفراز بگتی نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کو ترجیح دی ہے۔
معاملہ اگرچہ اتنا سادہ بھی نہیں۔بگتی قبیلے سے شاہ زین بگتی بھی ہیں۔ وہ 2018میں منتخب ہوئی قومی اسمبلی کے رکن تھے۔ عمران حکومت کے ا تحادی رہے۔اپریل 2022میں تاہم ان کی مخالف جماعتوں کے ساتھ مل کر وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کی گیم میں حصہ لیا۔ عمران حکومت کی رخصت کے بعد شہباز حکومت قائم ہوئی تو اس میں وزارت کے عہدے پر فائز بھی رہے۔ شہباز حکومت کے قیام کے چند ہی دن بعد سعودی عرب میں ہمارے مقدس ترین مقامات پر تحریک انصاف کے چند حامیوں نے ان دنوں کی وزیر اطلاعات محترمہ مریم اورنگزیب صاحبہ پر آوازیں کسیں تو شاہ زین بگتی ان کے دفاع کے لئے آگے بڑھے۔ مسلم لیگ (نواز) ان کی جی داری کو فراموش نہیں کرسکتی اور سرفراز بگتی شاہ زین کے دیرینہ ”شریک“ ہیں۔ ان کی مسلم لیگ (نون) میں شمولیت شاہ زین کی دل شکنی کا سبب ہوسکتی تھی۔
قارئین کی اکثریت مگر میری بیان کردہ توجیہہ کو بچگانہ حد تک ”سادہ“ شمار کرے گی۔ قارئین سے کیا گلہ کرنا۔ سہ پہر سے اسلام آباد کے کئی باخبر حلقے بھی مجھ سے ٹیلی فون کے ذریعے رابطے کے بعد ”اطلاع“ دے رہے ہیں کہ سرفراز بگتی کی پیپلز پارٹی میں شمولیت عندیہ دے رہی ہے کہ ”….سب پہ بھاری‘ کا ”ان“ سے بالآخر ”مک مکا“ ہوگیا ہے۔بہتر یہی ہے کہ چسکے سے قطعاََ محروم حقائق کے بجائے چوندی چوندی سازشی کہانیوں سے لطف اندوز ہوا جائے۔بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر