نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزرے جمعہ کی شام ’’ہنگامی سماعت‘‘ کے ذریعے سپریم کورٹ نے یقینی بنادیا ہے کہ 8فروری 2024ء کے دن عام انتخاب کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔ ذاتی طورپر مجھے ایسے ہی فیصلے کی امید تھی اور اس ضمن میں ’’ہنگامی سماعت‘‘ کے لئے جوانداز اپنایا گیا اس نے بھی مجھے حیران نہیں کیا۔جمعرات کی شام سے مگر ذہن میں ایک ’’سوال‘‘ اٹکا ہوا ہے۔ میں چاہتا تو ہفتے کے آخری دنوں میں رپورٹر کی جبلت کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کا جواب حاصل کرسکتا تھا۔جی مگر اس جانب مائل نہ ہوا۔ اپنے تئیں یہ فیصلہ کرلیا کہ ہمارے ہاں ’’خبر نگاروں‘‘ کا جو سیلاب آیا ہوا ہے اس پر نگاہ ر کھوں اور یہ جاننے کی کوشش کروں کہ جو سوال میرے ذہن میں اٹکا ہوا ہے وہ کسی اور کے ذہن میں بھی آیا تھا یا نہیں اور اگر آیا تو اس کا جواب ڈھونڈنے سے کیا حاصل ہوا۔
مزید لکھنے سے قبل واضح کرنا ہوگا کہ قانون کی مبادیات سے نابلد ہونے کے باوجود میں لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے کی بابت بہت حیران وپریشان ہوا جسے گزرے بدھ کی رات تحریری صورت میں تفصیل سے پڑھنے کا موقعہ ملا۔ تحریک انصاف کے ایک متحرک وکیل جناب عمیر نیازی مذکورہ فیصلہ کا باعث ہوئے۔ وہ عدالت میں ریٹرنگ افسروں کی تعیناتی پر اعتراض اور اپنی جماعت کے لئے لیول پلینگ فیلڈ نہ ہونے کی شکایت لے کر گئے تھے۔ان کی شکایت کا جائزہ لیتے ہوئے عزت مآب جسٹس باقر نجفی صاحب نے فیصلہ کیا کہ معاملہ نہایت گھمبیر ہے۔اس پر ہائی کورٹ کے فقط ایک جج کو نہیں بلکہ لاجر بنچ کو غور کرناہوگا اور ممکنہ غور کے لئے انہوں نے سماعت کی تاریخ بھی طے کردی۔
جس روز یہ فیصلہ آیا اس کے دو دن بعد الیکشن کمیشن نے 8فروری2024ء کے دن انتخاب کا انعقاد یقینی بنانے کے لئے شیڈول کا اعلان کرنا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ سے آئے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے مگر خود کو اس ضمن میں معطل ہوا محسوس کیا۔ محض صحافتی تجربے کی بنیاد پر اگرچہ میں توقع باندھے ہوا تھا کہ الیکشن کمیشن فی الفور لاہور ہائی کورٹ سے آئے حکم کو معطل کروانے کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کرے گا۔ مجھے اعتماد تھا کہ جس انداز میں ہماری اعلیٰ ترین عدالت نے اٹارنی جنرل کی معاونت سے صدرِ پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر کو باہمی مشاورت سے عام انتخاب کے لئے 8فروری 2024ء کی تاریخ دینے کو مجبور کیا تھا اس کے ہوتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ مطلوبہ انتخاب میں ’’رخنہ انداز‘‘ نہیں ہوسکتی تھی۔ جمعرات کی شام تک مگر الیکشن کمیشن اس تناظر میں متحرک ہوا نظر نہیں آیا۔
اسی شام آٹھ بجے میں ٹی وی کیلئے لائیو شوکررہاتھا۔ہمارا شو شروع ہونے سے قبل چند ٹی وی چینلوں پر یہ خبر چلی کہ الیکشن کمیشن نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ میرے ساتھی نے اس خبر کا ذکر بھی ہمارے شو میں کردیا۔ وقفے کے دوران مگر ایک مہربان دوست نے واٹس ایپ کے ذریعے مجھے الیکشن کمیشن کی تیارکردہ ایک پریس ریلیز کا متن بھیجا۔ مذکورہ متن کے ذریعے اطلاع دی گئی کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے والی خبر غلط ہے۔مختصراََ الیکشن کمیشن یہ کہتا سنائی دیا کہ وہ انتخابی شیڈول جاری کرنے کے بجائے لاہور ہائی کورٹ کو اطمینان دلانا چاہے گا اور اس عمل سے گزرتے ہوئے 8فروری 2024ء کی تاریخ بھلائی بھی جاسکتی ہے۔
سوال اٹھتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے وہ پریس ریلیز جاری کرنے کا فیصلہ کیوں کیا جو لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے روبرو سرنگوں کرتے ہوئے 8فروری 2024ء کے دن طے ہوئے انتخاب میں تاخیر کو یقینی بنارہاتھا۔ اس سوال کی جانب ریگولر اور سوشل میڈیا پر چھائے ہجوم خبرنگاراں نے مگر توجہ ہی نہیں دی۔اس کے بعد جمعہ کا دن آگیا اور اس کی دوپہر تک بھی الیکشن کمیشن سویا ہی محسوس ہوا۔ پھر ’’اچانک‘‘ یہ خبر آگئی کہ الیکشن کمیشن کے سینئر ترین افسر سپریم کورٹ طلب ہوئے ہیں۔ ان کی وہاں بعدازاں ’’اہم ملاقاتیں‘‘ بھی ہوئیں۔ ان ملاقاتوں کے چند ہی لمحوں بعد سیکرٹری الیکشن کمیشن لاہور ہائی کورٹ کے دئے فیصلے کے خلاف ایک درخواست لے کر سپریم کورٹ کی عمارت میں داخل ہوتے رپورٹ ہوئے۔ ان کی وہاں آمد کے چند گھنٹوں بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے اپنے دو سینئر ساتھیوں سمیت الیکشن کمیشن کی استدعا پر ہنگامی سماعت کا آغاز کردیا۔ اس سماعت کے دوران جو ہوا وہ سب نے ٹی وی چینلوں پر براہِ راست نشریات کی بدولت دیکھ رکھا ہے۔ اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔
جو ہوتا نظر آیا مجھے یہ لکھنے کو مجبور کررہا ہے کہ الیکشن کمیشن شاید ازخود لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنا ہی نہیں چاہ رہا تھا۔ اگر میرے ذہن میں آیا یہ خدشہ درست ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ کیوں؟۔ اس کی بابت سوچتے ہوئے محض یہ فرض کرسکتا ہوں کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے نے الیکشن کمیشن کو بوکھلادیا تھا۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہاں بیٹھے چند نابغوں نے اس کے بعد یہ محسوس کیا ہو کہ ہمارے ’’اصل مالک‘‘ بھی 8فروری2024ء کے روز انتخاب کا انعقاد نہیں چاہ رہے۔ عمیر نیازی نے دراصل تحریک انصاف کے کاندھے پر رکھ کر جو بندوق چلائی اس کے نتیجے میں ’’مقتدرہ‘‘ کہلاتی قوتوں کی خواہش بھی پوری ہوگئی۔ ایک پنتھ دو کاج والا معاملہ۔
الیکشن کمیشن ازخود متحرک نہ ہوا تو رپورٹر کی جبلت نے مجھے یہ سوچنے کو مجبور کیا کہ اب سپریم کورٹ‘‘ ازخود‘‘ اس معاملے کی بابت متحرک ہوئی ہے۔اتمام حجت کی خاطر اگرچہ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کا اختیاربروئے کار لانے سے قبل الیکشن کمیشن کی رائے معلوم کرنا چاہی۔ اہم ترین ’’خبر‘‘ میری دانست میں یہ تھی کہ سپریم کورٹ میں ہوئی ملاقاتوں کے دوران الیکشن کمیشن نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے روبرو ڈھیر ہوجانے کی وجہ کیا بتائی۔ جان کی امان پاتے ہوئے مصر رہوں گا کہ سپریم کورٹ کے 8 فروری 2024ء کے روز ہر صورت انتخاب کروانے کے ارادے نے میری دانست میں الیکشن کمیشن کو بالآخریہ جرأت فراہم کی کہ وہ عجلت میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل تیار کرکے سپریم کورٹ کے روبرو لائے۔مطلوبہ اپیل تیار ہوگئی تو سپریم کورٹ نے ہنگامی سماعت کی بدولت لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے آئے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے 8فروری 2024ء کے دن انتخاب کے ہر صورت انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن کو ہفتے کا دن شروع ہونے سے قبل ہی انتخابی شیڈول جاری کرنے کا حکم صادر کردیا۔
میرے ذہن میں آیا خیال درست ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے نے الیکشن کمیشن کو بوکھلانے کے بعد قطعاََ مفلوج بھی بنادیا اور سپریم کورٹ نے جمعہ کے دن ہنگامی سما عت کے ذریعے اس کے تن مردہ میں نئی جان ڈالی ہے۔الیکشن کمیشن وگرنہ اپنے تئیں ہمت وجرأت کھو بیٹھا تھا۔بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر