نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاشت کاری سے میرا یا دور پرے کے رشتے داروں کا بھی نسلوں سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ اسلام آباد کے نواح میں میری بیوی کو البتہ اراضی کا ایک ٹکڑا وراثت میں ملا جو 20 سال قبل ایک گاﺅں کا حصہ شمار ہوتا تھا۔گزشتہ چند برسوں سے مگر اراضی کے اس ٹکڑے کے گرد مکانات تعمیر ہونا شروع ہو گئے۔ اب وہاں جاتا ہوں تو سیمنٹ کی دیواروں اور تین منزلہ مکانوں کے نرغے میں گھرا محسوس کرتا ہوں۔ جنرل مشرف نے نومبر2007ء میں ”مارشل لاءپلس“ لگانے کے بعد مجھے چند دیگر اینکروں سمیت ٹی وی سکرین کے لئے ”کالعدم“ ٹھہرا دیا تو وقت گزاری کے لئے مذکورہ قطعہ اراضی پر جانا شروع ہو گیا۔ ہفتے اور اتوار کی سہ پہر میری بچیاں بھی وہاں جانے کا تقاضا کرتیں۔ جانوروں کے ساتھ ان کی محبت کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے چار بکریاں دو بھینسیں اور ایک گائے خریدلی۔ اس کے علاوہ مختلف النوع کے پرندے بھی پالنا شروع کردیے۔ جانوروں کی دیکھ بھال پر توجہ دیتے ہوئے پانی کی اہمیت کو ایک مختلف انداز میں دریافت کیا۔اس تناظر میں مزید غور کیا تو احساس ہوا کہ اسلام آباد میں آبادی بڑھنے کے ساتھ پانی کے ذخیرے کم یاب ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کاشت کاری بھی اسلام آباد کے گردونواح میں معدوم ہوئی نظر آئی۔ ذاتی تجربے نے صحافیانہ تجسس کو اکسایا تو میں زراعت سے متعلق دیگر معاملات پر تھوڑی توجہ دینا شروع ہو گیا۔ جانوروں کی دیکھ بھال بالآخر اپنے بس سے باہر کی بات لگی۔ اس سے جند چھڑالی۔ مشغلے کے طورپر سبزیاں اگانا بھی پانی کی کمیابی کی وجہ سے ترک کردیا ہے۔
زراعت کی مبادیات سے اتفاقاََ روشناس ہونے کی بدولت 2019ء کے آغاز سے میں نے یہ محسوس کرناشروع کیا کہ ہمارے ہاں کا موسم بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔جن مہینوں میں ہم صدیوں سے بارشوں کی توقع باندھتے تھے وہ اکثر ”سوکھے“ کاشکار ہوجاتے اور بعدازاں ”اچانک“ بے موسمی بارشوں کا طویل سلسلہ شروع ہو جاتا۔ ان دنوں بھی عمران حکومت کے حکم پر ٹی وی سکرینوں پر رونما نہیں ہو سکتا تھا۔ اپنی ”بے روزگاری“ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جب بھی کوئی دوست اسلام آباد سے کسی دوسرے شہر ذاتی یا دیگر کاموں کے لئے اپنے ہمراہ لے جانے کی دعوت دیتا تو بیگ اٹھا کر ان کے ساتھ روانہ ہوجاتا۔ دوران سفر دائیں بائیں نگاہ ڈالتے ہوئے بدلتے موسم کی غارت گری کو نظرانداز نہیں کرسکتا تھا۔ بدلتے موسم ہماری زراعت کو جس انداز میں تباہ کررہے تھے ان کا غیر علمی انداز میں جائزہ لیتے ہوئے میں نے اس کالم میں موسمی اور ماحول میں تبدیلی کے حوالے سے بنیادی سوالات بھی اٹھانا شروع کر دیے۔
میرے قارئین کی اکثریت مجھ سے سیاسی موضوعات پر تبصرہ آرائی کی توقع باندھتی ہے۔ زرعی موضوعات پر لکھے چند کالموں کو مگر قارئین کی ایک اور قسم نے پرخلوص انداز میں سراہتے ہوئے میرا حوصلہ بڑھایا۔بدقسمتی سے ٹھوس طبی وجوہات کی بنا پر میں ان دنوں گھر سے گاڑی نکال کر اسلام آباد کے گردونواح میں وقت گزارتے ہوئے موسم کی وجہ سے پھیلی غارت گری پر تفصیلی کالم لکھنے کے قابل نہیں رہا۔مہربان قارئین کی ایک مخصوص تعداد البتہ اس تناظر میں تازہ ترین سے باخبر رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ان کے بتائے حقائق پریشان کردیتے ہیں۔
پاکستان کے دیگرعلاقوں کی طرح خطہ پوٹھوہار کے اکثر رقبے بھی رزق کمانے کے لئے زراعت پر انحصار کرتے ہیں۔ چھوٹے رقبوں کے مالکان کے لئے سب سے نقد آور فصل مونگ پھلی شمار ہوتی ہے۔اب کے برس مگر غیر موسمی بارشوں نے اس فصل کو تباہ کردیا ہے۔کسی سرکاری ذریعہ سے اعدادوشمار کے حصول کے بغیر میں کاشت کاروں سے ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو کی بدولت اعتماد سے یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ خطہ پوٹھوہار میں مونگ پھلی کی پیداوار اس برس تاریخی اوسط سے کم از کم 40 گنا کم رہی ہے۔اگر میرا اندازہ درست ہے تو مونگ پھلی کی کاشت سے منافع کی امید باندھے سینکڑوں گھرانے ان دنوں انتہائی پریشان محسوس کر رہے ہوں گے۔ مہنگائی کے گرداب میں گھرے کاشت کار کے لئے مونگ پھلی کی فصل کا تقریباََ تباہ ہو جانا یقینا دل دہلا دینے والی خبر ہو گی۔
مونگ پھلی کی فصل پر نازل ہوئی مصیبتوں کا کھوج لگاتے مزید لوگوں سے رابطہ ہوا تو دریافت یہ بھی ہواکہ کئی رقبوں میں گندم بودی گئی تو اس کے بعد آئی تیز بارشوں کے سلسلے نے بیج کو مٹی میں مدغم ہونے نہیں دیا۔ سرسوں اگانے والے بھی اس نوع کی شکایت کرتے سنائی دیے۔ قصہ مختصر ہمارے بارانی کہلاتے علاقوں میں بے موسم کی بارشوں نے نہ صرف مونگ پھلی کی فصل کو تباہ کردیا ہے بلکہ یہ سرسوں اور گندم کی افزائش کے لئے بھی سنگین مشکلات کھڑی کر چکی ہیں۔
جن فصلوں کا میں ذکر کررہا ہوں ان کی افزائش اور حتمی پیداوار سینکڑوں نہیں ہزاورں گھرانوں (افراد نہیں) کے لئے اقتصادی اعتبار سے زندگی یا موت جیسے سوالات اٹھارہی ہو گی۔ ان افراد کے ذہنوں پر چھائی افسردگی کا مگر ہمارے ریگولر یا سوشل میڈیا میں کماحقہ ذکر نہیں ہو رہا۔ پیر کی رات سے چرچا فقط ایک انٹرویو کا ہے۔ اس کی بدولت کم از کم میں نے تو کوئی نئی چیز دریافت نہیں کی ہے۔ 2017 کے آخری دنوں میں ایک ٹی وی چینل کے لئے ٹاک شو کرتے ہوئے میں اشاروں کنایوں میں ”پاک پتن“ سے جڑی ایک ابھرتی داستان کو مختلف اقساط میں بیان کرتا رہا ہوں۔اس کی بدولت ایک مخصوص جماعت کی سپاہ ٹرول نے مجھے لفافہ اور بدکار صحافی ثابت کرنا شروع کر دیا تھا۔ ان کی پسندیدہ جماعت اگست 2018 میں برسراقتدار آئی تو مجھے ٹی وی سے ہٹاکر ”حساب برابرکر دیا“۔ رات گئی بات گئی والا معاملہ ہو گیا۔
فی الوقت میں بارانی علاقوں میں بے موسم کی بارشوں اور ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے نازل ہوئی مصیبتوں کے علاوہ کسی اور بات پر توجہ دینے کے قابل نہیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ
فیمینسٹ!!!۔۔۔۔۔|| ذلفی