نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاسی منظر نامے پر منیر نیازی کی بتائی جو ”حرکت تیز تر ہے….“درحقیقت ہماری خود غرض اشرافیہ کے مابین اقتدار واختیار پر کامل کنٹرول کی وحشت ہے۔دو وقت کی روٹی کمانے کو پریشان ہوئے کروڑوں پاکستانیوں کے علاوہ ہم محدود آمدنی والے لاکھوں گھرانوں کے لئے بھی سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔آپا دھاپی کے اس موسم میں سیاسی رپورٹر سے کالم نویس ہوئے مجھ ایسے بے ہنر لوگ اکتا چکے ہیں۔ اسی باعث عید سے قبل آخری کالم لکھتے ہوئے یہ امید باندھی تھی کہ تعطیلات کے تین دن جی کو بہلانے کے بہانے فراہم کریں گے۔ عید کی صبح لیکن اٹھا تو فون پر نگاہ ڈالتے ہی الم ناک خبر ملی کہ انور بیگ صاحب دنیا میں نہیں رہے۔یہ خبر دیکھنے کے بعد جی بہلانا ناممکن ہوگیا۔جب بھی تنہا بیٹھتا ہوں ان کے ساتھ گزارے لمحات فلم کے لئے ریکارڈ ہوئے مناظر کی طرح ذہن میں ابھرنا شروع ہو جاتے ہیں۔
انور بیگ ابھی کراچی سے اسلام آباد منتقل نہیں ہوئے تھے تو اپنے ایک سینئر ساتھی فاروق معین کے ذریعے ان سے غائبانہ تعارف ہوا۔بعدازاں وہ اس شہر میں آئے۔ چند ملاقاتیں ہوئیں تو انہیں ویسا ہی پایا جیسے فاروق بھائی نے بیان کیا تھا۔ وجیہہ آدمی تھے جن کی شخصیت سوٹ کے ساتھ لگائی جاذب نظرٹائی سے مزید کھل اٹھتی تھی۔ چہرے پر مسلسل بے فکر مسکراہٹ۔ آنکھوں میں شرارتی تجسس۔ اسلام آباد کے ایف-سیون سیکٹر میں ایک گھر لیا اور چند ہی دنوں میں وہ صحافیوں اور سیاستدانوں کے لئے ”اوپن ہاﺅس“ ہو گیا۔ بہت چاہت سے اپنے ہاں بلواتے۔ان کے ہاں مختلف موضوعات پر شرکا کے مابین دھواں دھار مباحثے ہوتے۔وہ مگر کوئی فقرہ اچھال کر ماحول کو تلخ نہ ہونے دیتے۔ قہقہوں کی بوچھاڑ کا سبب بن جاتے۔
جنرل مشرف ان دنوں فوجی وردی میں ملبوس ایک اور ”دیدہ ور“ کی صورت اختیار کئے ہوئے تھے۔ اسلام آباد میں مقیم امریکی اور یورپی سفارت کاروں کی کثیر تعداد موصوف کی روشن خیالی سے بہت متاثر تھی۔ وہ بضد تھے کہ جنرل مشرف مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک کو خوف میں مبتلا رکھے آمروں کی طرح نہیں ہیں۔درد مند اور کھلے ڈلے آدمی ہیں جن کی ”روشن خیالی“ پاکستان کے سیاستدانوں ، خاص طور پر مجھ ایسے ”لبرل“ مشہور ہوئے صحافیوں کو غالباً کنوئیں کے مینڈک ہوئے کوتاہ بینوں کی طرح نظر نہیں آرہی۔
بیگ صاحب کسی بھی حوالے سے سیاستدان نہیں تھے۔ بنیادی طورپر کاروباری شخص تھے۔ کاروباری ہوتے ہوئے بھی خود غرضی ان کا شعار نہیں تھی۔ ان کا بنیادی وصف فیاض مہمان داری تھا۔ پیپلز پارٹی کے مخدوم امین فہیم کے دیرینہ اور قریب ترین دوستوں میں شامل تھے۔ اسی باعث پیپلز پارٹی سے تعلق بھی استوار کیا۔ اسلام آباد آتے ہی دریافت کرلیا کہ پیپلز پارٹی کے خلاف جنرل مشرف کا متعارف کردہ بیانیہ امریکی اور یورپی سفارتکاروں میں بہت مقبول ہے۔ ان کی جماعت اسے کاﺅنٹر کرنے پر توجہ نہیں دے رہی۔غفلت اور بے اعتنائی کا یہ رویہ اسے کئی برسوں تک اقتدار سے محروم رکھے گا۔
جنرل مشرف کی ”روشن خیالی“ کے کھوکھلے پن کو عیاں کرنے کے لئے انہوں نے کمال مہارت سے اپنے ہا ں تواتر سے ایسی محفلیں برپا کرنا شروع کردیں جن کی بدولت ا مریکہ کی نام نہاد ”وار آن ٹیرر“کا ساتھ دینے کے لئے ہماری ریاست کے بنائے بیانیے کی محدودات وقت سے کہیں پہلے لوگوں کے روبرو آنا شروع ہوگئیں۔ ریاست کی بھرپور معاونت سے تشکیل دئے بیانیے کی حقیقت عیاں کرنے کا کریڈٹ مگر انہوں نے ایک لمحے کے لئے اپنی سیاست چمکانے کے لئے استعمال نہیں کیا۔خود کو دیانت دارانہ عاجزی کے ساتھ سیاست سے نابلد ہی بیان کرتے رہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کو مگر ان کی لگن کا بخوبی ادراک تھا۔انہیں سینٹ کارکن بنوانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور سینیٹر منتخب ہوجانے کے بعد بیگ صاحب ان کی سوچ کو نام نہاد ”عالمی بیانیہ“ تشکیل دینے والے اہم ترین کرداروں تک بہت مہارت سے پہنچاتے رہے۔نظر بظاہر بے فکر زندگی گزارتے انور بیگ صاحب اخبارات کے سنجیدہ قاری تھے۔ اس عادت کی وجہ سے وہ صحافت میں نووارد نوجوانوں کی صلاحیت اور امکانات کو فوراََ بھانپ لیتے۔نووارد صحافیوں کی تواتر کے ساتھ دی خبریں دیکھنے کے بعد ان سے ازخود رابطے کی راہ نکالتے۔ بنا کسی غرض کے ایسے صحافیوں کے ان سیاست دانوں،سرکاری افسروں یا سفارت کاروں سے ”دوستانہ مراسم“ کے راستے بناتے جو انہیں اپنی ترجیح کے شعبے میں مزید خبریں ڈھونڈنے میں مدد فراہم کرتے۔ ایسی پرخلوص سرپرستی کے باوجود بیگ صاحب نے کبھی اپنی تعریف وتشہیر کی توقع نہیں باندھی۔
ان سے تعارف اور ملاقاتوں کے بعد میں کئی واسطوں سے فقط ان کی ذات ہی نہیں بلکہ خاندان کے بھی قریب تر ہونا شروع ہو گیا۔ اس کے باوجود اکثر سینٹ کی کارروائی یا سفارتی تقریبات کی بابت کالم لکھتے ہوئے روانی میں انہیں پھکڑپن کی لپیٹ میں لینے سے گریز نہ کرتا۔ ان کی بابت لکھا فقرہ اگر کاٹ دار ہوتا تو بجائے خفا ہونے کے اخبار پڑھتے ہی مجھے فون کرتے اور داد دیتے ہوئے شرمندہ کر دیتے۔
انور بیگ صاحب کی قربت نے میری اس سوچ کو ٹھوس تقویت پہنچائی ہے کہ سیاست نہایت بے رحم کھیل ہے۔ اس کھیل میں ”جیہڑا جیتے“ اس کی غلامانہ انداز میں جی حضوری لازمی ہے۔ ذاتی دوستی نبھانے کی اس سفاکی دھندے میں کوئی گنجائش نہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی میں ایسے پرخلوص شخص کی لگن سراہنے کے امکانات بھی لہٰذا ختم ہوگئے۔2008ء کے انتخاب ہوئے تو جائز بنیادوں پر انور بیگ صاحب کی تمنا تھی کہ ان کے دیرینہ دوست مخدوم امین فہیم کو وزارت عظمیٰ کے لئے نامزد کیا جائے۔ پرانی دوستی سے مغلوب ہوکر انہوں نے اسلام آباد میں برسوں کی محنت کے بعد جو سماجی روابط استوار کئے تھے انہیں بھرپور انداز میں بروئے کار لائے۔ آصف علی زرداری جو خود بھی ”یاروں کے یار“ مشہور ہیں بیگ صاحب کی امین فہیم مرحوم سے دوستی والی مجبوری کو نظرانداز نہ کر پائے۔ انہیں ”متوازی گیم“ لگانے کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع ہو گئے۔
آصف صاحب کے دل میں گرہ لگی تو اسے کھولنے کو بیگ صاحب کے لئے پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہ نماﺅں میں سے کوئی ایک شخص بھی تیار نہیں ہوا۔ حالانکہ ان میں سے کم سے کم چار افراد ان کی ہر محفل میں ہمہ وقت موجود ہوا کرتے تھے۔بیگ صاحب کے ساتھ مزید زیادتی یہ بھی ہوئی کہ مخدوم امین فہیم بھی تھوڑی ”اڑی“ دکھانے کے بعد یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں بنائی کابینہ کا حصہ بن گئے۔ بیگ صاحب کے ساتھ ”مرے تھے جن کے لئے….“ والا معاملہ ہوگیا۔ بالآخر وہ پیپلز پارٹی سے الگ ہوگئے۔ نواز شریف کی مسلم لیگ سے رابطے بنائے۔اس جماعت کی اجتماعی ثقافت مگر بیگ صاحب جیسے کھلے ڈلے آدمی کی متحمل ہو نہیں سکتی تھی۔ بالآخر وہ عمران خان صاحب کو سراہنا شروع ہو گئے۔
ان سے دیرینہ تعلقات کی بنیاد پر میرا دعویٰ ہے کہ مخدوم امین فہیم صاحب سے دوستی 2008ء کے بعد ان کی ”تنہائی“ کا اصل سبب تھی۔ اپنی تنہائی اور اداسی کو انہوں نے البتہ کسی پر بھی ظاہر ہونے نہیں دیا۔ دل ہی دل میں البتہ گھلنا شروع ہو گئے اور بتدریج ایک موذی مرض نے انہیں دھیرے دھیرے کمزور تر بنانا شروع کر دیا۔ مرض کی تشخیص اور ابتدائی علاج کے مراحل سے گزرتے ہوئے بیگ صاحب کو جب بھی موقعہ ملتا دوستوں سے ملاقات کے جواز تراش لیتے اور اپنی خوش دلی کا بھرم برقرار رکھتے۔ میری بدقسمی ہوئی کہ ٹھوس طبی وجوہات کے سبب میں بتدریج خود کار چلانے کی قوت وہمت سے محروم ہو چکا ہوں۔ ان سے ملاقاتوں میں اس کی وجہ سے تسلسل برقرار نہ رہا۔ میری مجبوری کو انہوں نے سراہا۔ اپنے مزاج کے قطعی برعکس درشت لہجے میں فون پر مشورہ دیتے کہ ”جان ہے تو جہان ہے۔آرام کرو اور فیملی کے ساتھ وقت گزارو“۔ ان کی رحلت کے بعد شفقت سے محروم ہوا محسوس کررہا ہوں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر