نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہفتے کی شام سوشل میڈیا پر ایک ہی موضوع چھایا رہا۔ تحریک انصاف کے گرویدہ دہائی مچاتے رہے کہ مینارِ پاکستان کے میدان میں ان کے ساتھیوں کو عمران خان کا خطاب سننے سے روکنے کے لئے لاہور کو تقریباً سیل کر دیا گیا ہے۔ ان کے متوالے مگر کرفیو کا منظر بناتی رکاوٹوں کو روندتے ہوئے تاریخ ساز تعداد میں جمع ہوئے چلے جارہے ہیں۔تحریک انصاف کے ویری مگر مختلف تصاویر کا ”تجزیہ“ کرتے ہوئے یہ پیغام اجاگر کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ مذکورہ میدان میں ”بتیوں کا سیلاب“ ”تاریخ ساز ہجوم“ کا متبادل ہے۔”کتنے لوگ تھے؟“ والے سوال سے میں عموماً اکتا جاتا ہوں۔
عمران خان کا جلسہ اور اس کے ممکنہ نتائج سے کہیں زیادہ گزشتہ تین دنوں سے مجھے ملک بھر میں ہوئی بارشوں اور ژالہ باری نے پریشان کر رکھا ہے۔گندم ہماری خوراک کا کلیدی جزو ہے۔ اس کی افزائش کے لئے فروری میں پھوار جیسی بارشوں کا انتظار کیا جاتا ہے۔ اب کی بار جو فروری گزرا وہ ایسی بارشوں سے کامل محروم رہا۔ موسم اس کی وجہ سے معمول کے برعکس گرم رہا۔ آندھی جیسی تیز ہوائیں بھی چلیں۔ ان سب نے مل کر گندم کے دانے کو توانا نہ ہونے دیا۔ حدت سے جھلسے دانے تیز ہوا کے سبب بلکہ زمین پر گرنے لگے۔ فصل کا جو حصہ محفوظ رہا اب بارش اور ڑالہ باری کی زد میں ہے۔ میری بہت خواہش تھی کہ لاہور کے مینارِ پاکستان کے گرد جمع ہوئے بندوں کی گنتی کے علاوہ میرے کچھ ساتھی ٹھوس اعدادوشمار کو بنیاد بناتے ہوئے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں کہ رواں برس گندم کی اجتماعی پیداوار کا جو تخمینہ لگایا گیا تھا ہم اس کے حصول میں کامیاب ہوں گے یا نہیں۔چنے کی فصل بھی موسم کی تبدیلی کی وجہ سے تباہ ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ غذائی بحران گویا پوری شدت سے ہمارے اوپر نازل ہونے کو تیار ہے۔روزمرہّ زندگی کے لئے لازمی تصور ہوتی دیگر اشیاء کے نرخ بھی ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے خطے میں 75 برس کے بعد مہنگائی کی ایسی شدت رونما ہوئی ہے۔
نصابی اعتبار سے جائزہ لیں تو مذکورہ مہنگائی کے بے تحاشہ اسباب ہیں۔ان کی اکثریت ہمارے بس سے باہر ہے۔روس اور یوکرین کے مابین ایک برس سے جاری جنگ کے علاوہ موسمیاتی تبدیلیاں بھی اس کے کلیدی اسباب میں شامل ہیں۔ محدود آمدنی والا عام پاکستانی مگر ان اسباب کو خاطر میں نہیں لاتا۔ صدیوں سے رعایا خود پر مسلط ہوئے بادشاہوں ہی کو اپنی مشکلات کا واحدسبب گردانتی رہی ہے۔ شہباز حکومت اس تناظر میں خلقت معصوم کو ”منحوس“ لگ رہی ہے۔خود کو تسلی دینے کے لئے امید باندھے ہوئے ہے کہ ”چور اور لٹیروں“ پر مشتمل ”امپورٹڈ حکومت“ سے نجات مل جائے تو شاید قدرت بھی ہم پر مہربان ہونا شروع ہوجائے۔لوگوں کے دلوں میں ابلتی مایوسی اور نفرت کا عمران خان بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں۔حکمرانوں کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ ان کی جانب سے برپا کئے ہیجان سے کس انداز میں نبردآزما ہوا جائے۔
انتخابات لوگوں کے دلوں میں جمع ہوئی بھڑاس کو پریشر کوکر میں جمع ہوئی بھاپ کی طرح ہوا میں اڑا سکتے ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اگر بروقت ہو جاتے تو عوام کو موجودہ حکمرانوں کے نامزد کردہ امیدواروں کو ووٹ کی قوت سے سبق سکھانے کا موقعہ مل جاتا۔ وہ مگر موخر کر دیے گئے ہیں۔ تحریک انصاف ان کے حصول کےلئے اب سپریم کورٹ سے رجوع کر چکی ہے۔
پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کو بھی لیکن اب تخت یا تختہ والی جنگ کے فریق متنازعہ بنا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی عدلیہ کی مبینہ ”زیادتیوں“ کو عرصہ ہوا تقریباََ بھلا چکی ہے۔ نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے زخم مگر مندمل نہیں ہوئے۔اس کے قائد اعلیٰ ترین عدالت کے ہاتھوں انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لئے تاحیات نااہل قرار پائے۔اس کی خواہش ہے کہ عمران خان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوتا تاکہ آئندہ انتخابات کے لئے نام نہاد ”مساوی“ فضا بن سکے۔ توشہ خانہ کے تحائف پر مبنی ریفرنس مذکورہ خواہش کو ٹھوس شکل دینے کی کوشش ہے۔عمران خان مگر خود پر اس ضمن میں فرد جرم بھی عائد ہونے نہیں دے رہے۔توشہ خانے کے علاوہ جو مقدمات ان کے خلاف بنائے گئے ہیں عوام کی کماحقہ تعداد کو ”سیاسی انتقام“ محسوس ہوتے ہیں۔ وہ عمران خان کو ثاقب نثار کے ہاتھوں ملی ”صادق وامین“ والی سند کو جھٹلا نہیں سکتے۔ موجودہ حکومت تقریباً ”ایک سال“ گزرنے کے باوجود عمران خان کو ”کرپشن“ کے کسی جاندار الزام کے تحت ٹھوس سوالات کا تسلی بخش جواب فراہم کرنے کو مجبور کرنے میں قطعاََ ناکام رہی ہے۔ اس کی بدولت سابق وزیر اعظم ”چور اور لٹیروں“ کے خلاف تنہا لڑتے دلاور نظر آ رہے ہیں۔
عمران خان اور حکومت کے مابین جاری آنکھ مچولی اب نام نہاد عالمی برادری کو بھی پریشان کرنا شروع ہو گئی ہے۔ آئی ایم ایف کو رام کرنے کے لئے بجلی، گیس اور پیٹرول کے نرخ ناقابل برداشت حد تک بڑھا دیے گئے ہیں۔ عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ مگر اب بھی مصر ہے کہ ہمارے ”برادر ممالک“ اسے یقین دلائیں کہ وہ ہماری ریاست کو دیوالیہ سے بچانے کے لئے خاطر خواہ امدادی رقوم فراہم کریں گے۔ ”وہاں“ مگر وطن عزیز میں ”استحکام“ کی فکر لاحق ہوچکی ہے۔ ہم مگر اس گماں میں بدستور گرفتار ہیں کہ پاکستان کو ”دیوالیہ“ ہونے سے بچالیا گیا ہے۔ خطرہ جبکہ ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر ہرگز ٹلا نہیں۔”استحکام“ کا ماحول بنائے بغیر ٹلے گا بھی نہیں۔
سوال اٹھتا ہے کہ ا ندھی نفرت وعقیدت میں منقسم اور ریاست کے اہم ترین ستونوں کی ساکھ کو مجروح بناتی فضا میں ”استحکام“ کون فراہم کرے گا۔ سپریم کورٹ اس ضمن میں اہم ترین کردار ادا کر سکتا تھا۔ وہاں سے آئے چند فیصلوں کو مگر ہماری ریاست کے طاقت ور ترین ادارے کے تین نہیں چھ برس تک سربراہ رہے صاحب ”ٹک ٹاک“ کے بل بوتے پر بنائی فضا کا نتیجہ بتا رہے ہیں۔ موصوف اگرچہ اپنے ”انٹرویو“ کی ”تردید“ بھی فرما چکے ہیں۔ انگریزی والا نقصان مگر ہو چکا ہے۔ ان سے منسوب بیان کے کلیدی الفاظ اب مریم نواز صاحبہ ایک نیا ”بیانیہ“ تشکیل دینے کے لئے استعمال کرنا شروع ہو گئی ہیں۔ تحریک انصاف کی انتخابات کے بروقت ہونے والی فریاد کے حوالے سے سب کے لئے قابل قبول فیصلہ کرنا اس کے نتیجے میں دشوار تر ہو جائے گا۔ صحافی اور سیاستدانوں کی اکثریت اپنی توقیر سے کئی برس قبل ہی محروم ہو چکی ہے۔ ربّ کریم سے فریاد ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ ہماری اعلیٰ ترین عدالت کی ساکھ وتوقیر برقرار رکھے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر