نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عالمی امور پر سرسری نگاہ رکھنے والے افراد بھی یہ تسلیم کرنے کو مجبور ہوں گے کہ اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ہوئی جنیوا کانفرنس کے دوران پاکستان کے سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے توقع سے کہیں زیادہ رقوم کے وعدے ہوئے ہیں۔کئی اہم معاملات کے حوالے سے تقریباََ مفلوج دِکھتی حکومت اس کی بدولت ستائش کی مستحق ہے۔بلاول بھٹو زرداری اور شیری رحمن کے غیر ملکی دورے ہمارے میڈیا میں طنز بھری تنقید کا نشانہ رہے ہیں۔ ان کی کاوشیں بالآخر بار آور ثابت ہوئیں۔ عالمی ادارے کھلے دل سے اب اس حقیقت کا اعتراف کررہے ہیں کہ گزشتہ برس کی غیر معمولی بارشوں نے پاکستان میں دل دہلا دینے والی تباہی مچائی ہے۔اس کے ازالے کے لئے بھاری بھر کم رقوم درکار ہیں۔دس ارب ڈالر کو چھوتے وعدے اگرچہ سیلاب کی وجہ سے نازل ہوئی ا ٓفتوں کا کامل مداوا فراہم کرنہیں سکتے۔ ہمیں سہارا فراہم کرنے کی البتہ پرخلوص کوشش یقینا ہوئی ہے۔
جنیوا کانفرنس کے دوران ہوئے وعدوں پر نگاہ رکھتے ہوئے کئی بار میرے ذہن میں یہ سوال اٹھا کہ بطور صحافی گزشتہ چھ مہینوں کے دوران میں نے اپنے ہی وطن پر نازل ہوئی آفات کا اس کالم میں کتنی بار تفصیل سے ذکر کیا ہے۔اپنی غفلت پر شرمندگی کے علاوہ بارہا خیال یہ بھی آیا کہ عوام میں مقبول ترین تصور ہوئے اینکر خواتین وحضرات نے سیلاب زدگان کی مصیبتوں کو اجاگر کرنے کے لئے ٹی وی سکرینوں پر کتنا ایئرٹائم وقف کیا۔مذکورہ تناظر میں ٹی وی سکرینوں پر چھائے موضوعات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں تو دریافت ہوتا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریاں کماحقہ توجہ ہرگز حاصل نہیں کر پائیں۔ ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کے خلاف عمران خان صاحب کا بیانیہ ہی شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک چلائے’’ کرنٹ افیئرز‘‘ سے متعلقہ ٹاک شوزکومواد فراہم کرتا رہا۔بعدازاں ’’صحافی‘‘ یہ کھوج لگانے میں مصروف ہوگئے کہ چودھری پرویز الٰہی عمران خان صاحب کی خواہش پر عمل کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کی تحلیل کو آما دہ ہوں گے یا نہیں۔جرمنی،فرانس یا برطانیہ میں ٹیکس ادا کرنے والے افراد پاکستان پر نازل ہوئی مصیبت کے بارے میں فکر مند کیوں ہوں اگر پاکستان کا اپنا میڈیا ہی اسے نظرانداز کئے ہوئے ہے۔
روس کے یوکرین پر حملہ آور ہوجانے کے بعد یورپ کے خوش حال ترین ممالک بھی ان دنوں معاشی اعتبار سے خود کو کنگال ہوا محسوس کررہے ہیں۔برطانیہ میں صحت عامہ کا نظام کئی دہائیوں تک دنیا کے لئے مثال تصور ہوتا تھا ۔وہاں مگر اب ’’ہنگامی صورتحال‘‘ میں جکڑے مریض کو ایمبولینس کے لئے خطرناک حد تک انتظار کرنا پڑرہا ہے۔ہسپتالوں میں داخلے کی باری طویل وقفوں کے بعد آتی ہے۔روس-یوکرین جنگ کی وجہ سے نمودار ہوا بحران یورپ کے بیشتر ممالک میں نسل پرستی کو فروغ دے رہا ہے۔ آپا دھاپی ’’قوم پرستی‘‘ کو تقویت پہنچارہی ہے۔ ایسے حالات میں پاکستان کے انسانی مسائل کے لئے توجہ کا حصول ناممکن محسوس ہورہا تھا۔اسی باعث جو وعدے ہوئے ہیں انہیں خوش آئندتسلیم کرنا ہوگا۔
سیلاب کی لائی تباہ کاری سے کہیں زیادہ توجہ ہمارا میڈیا اب آٹے کے بحران کی جانب مبذول کئے ہوئے ہے۔ آٹے کی گرانی اور کم یابی کو اجاگر کرنے کی تڑپ میں جو ویڈیوز تیار ہورہی ہیں وہ مگر بحران کے اصل اسباب پر توجہ کی مہلت ہی نہیں دے رہیں۔بھارت کا ایک نوبل انعام یافتہ ماہر معیشت ہے۔اس نے قیام پاکستان سے قبل بنگال میں آئے ہولناک قحط کے ٹھوس اسباب کا علمی لگن سے کھوج لگانے کی کوشش کی تھی۔بالآخر یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہا کہ خشک سالی ہی مذکورہ قحط کا حقیقی باعث نہیں تھی۔انتظامی کوتاہیاں اس کا کلیدی سبب تھیں۔
ہمارے ہاں’’آٹے کا بحران‘‘ درحقیقت گندم کی کٹائی کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے۔ پنجاب کی انتظامیہ اس میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔وہ ملکی ضروریات کا ٹھوس تخمینہ لگانے کے بعد سرکاری گوداموں کے لئے گندم اٹھانا شروع ہوجاتی ہے۔ گزشتہ برس کے اپریل سے تاہم آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے میں انتظامی ابتری اپنی انتہائوں کو چھورہی ہے۔اس سے اکتاکر اس کالم میں اکثر پنجابی کے اس محاورے کو دہراتا رہا جو ’’ماسی‘‘ کی تلاش میں رہتا ہے۔
روس کے یوکرین پر حملہ آور ہونے کے چند ہی دن بعد عالمی ادارے خبردار کرنا شروع ہوگئے تھے کہ یو کرین کی ناکہ بندی اور اس کے دیہاتوں پر وحشیانہ بمباری کے سبب دنیا کے بیشتر ممالک گندم کی فراہمی سے محروم ہوجائیں گے۔ غیر معمولی بارشوں کے باوجود پاکستان میں جو گندم پیدا ہوئی وہ ہماری ضرورت کے لئے مناسب تھی۔ اسے سرکاری گوداموں میں بروقت ذخیرہ کرنے پر لیکن توجہ نہیں دی جاسکی۔ پنجاب کے چند اضلاع میں انتظامی عہدوں پر تواتر سے جو تبدیلیاں گزشتہ کچھ مہینوں سے ہورہی ہیں ان کے اسباب کا صحافیانہ لگن سے کھوج لگایا جائے تو بآسانی دریافت کیا جاسکتا ہے کہ ’’خوراک کا بحران‘‘ پنجاب حکومت کی ترجیح ہی نہیں ہے۔ایسے افسران کی تلاش،تعیناتی اور سرپرستی ہورہی ہے جو ’’لینڈ مافیا‘‘ کے نمایاں مگر مچھوں کو ان کی اعلان کردہ ہائوسنگ سوسائٹیوں کے لئے زمین کا حصول یقینی بنائیں۔’’احتساب‘‘ کے خوف سے کوئی افسر دیدہ دلیری سے مطلوبہ معاونت فراہم سے ہچکچائے تو اچانک ’’ٹرانسفر‘‘ کردیا جاتا ہے۔ ’’ہمہ وقت باخبر‘‘ ہونے کے دعو ے دار اخباروں اور ٹی وی چینلوں میں آج تک میں ایسی ’’خبر‘‘ دیکھ نہیں سکا جو فقط ایک ضلع پر فوکس کرتے ہوئے یہ ’’انکشاف‘‘ کرپائے کہ گزشتہ مہینوں میں وہاں کتنے ڈی سی یا اے سی تبدیل ہوئے اور ان ’’آنیوں جانیوں‘‘ کے حقیقی اسباب کیا تھے۔ کھاد،پانی اور توانابیج کی فراہمی کے بجائے مقامی انتظامیہ کی بنیادی ترجیح جب زرعی رقبوں کو ہائوسنگ سائٹیوں میں بدلنے پر مرکوز ہوجائے تو ’’آٹے کا بحران‘‘دھماکہ کی صورت نمودار ہوا لگتا ہے۔
’’آٹے کے بحران‘‘ سے پنجاب حکومت یہ سوچتے ہوئے بھی غافل رہی کہ محض وفاقی حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ لوگ اپنا غصہ اسی حکومت پر اتاریں گے جو بجلی اور پیٹرول میں ناقابل برداشت اضافے کی ذمہ دار ہے۔ آئین کی اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبائی حکومتوں کے سپرد ہوئے فرائض اور ا ختیارات کسی کو یاد ہی نہیں آئیں گے۔لینڈ مافیا کی ترجیحات پر توجہ دینے ہی میں لہٰذا مصروف رہی۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر