نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سانپ گزر جانے کے بعد اس کی حرکت سے بنی لکیر پیٹنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ نواز شریف صاحب کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے پاس فیصلے کی اصل گھڑی رواں برس کے اپریل تک میسر رہی۔ ملکی سیاست کا محض شاہد ہوتے ہوئے بارہا اس کالم میں فریاد کرتا رہا کہ عمران خان صاحب کو بطور وزیر اعظم اپنی بقیہ مدت مکمل کرنے دی جائے۔ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے انہیں گھر بھیجنے سے گریز ہی بہتر ہے۔ مسلم لیگ (نون) کے سرکردہ رہ نماؤں کو جو 1980 ءکے وسط سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ہارتے اور جیتتے رہے ہیں سرگوشیوں کا منظم جال بچھا کر لیکن اس امر پر قائل کر دیا گیا کہ اگر عمران خان 29 مئی تک بھی اپنے عہدے پر برقرار رہے تو اپنی پسند کے ایک صاحب کو اہم ترین ریاستی ادارے کی سربراہی کے لئے نامزد کر دیں گے۔ وہ نامزد ہو گئے تو آئندہ انتخاب بھی مسلم لیگ (نون) کی ٹکٹ پر کھڑے امیدواروں کو ”جیتنے نہیں دیے جائیں گے“ ۔ شہباز شریف سمیت اس جماعت کے تمام قدآور رہ نما احتساب عدالتوں سے ”سزائیں دلوا کر“ طویل عرصے کے لئے جیل بھجوا دئے جائیں گے۔ عدالتوں میں ”ثابت“ ہوئے کرپشن کے الزامات کی بدولت شاید انتخاب میں حصہ لینے کے اہل بھی نہ رہیں۔
منظم سرگوشیوں کے ذریعے پھیلائے خوف نے مسلم لیگ (نون) ہی نہیں عمران خان صاحب کی دیگر مخالف جماعتوں کو بھی ان کی فراغت کے لئے یکجا ہو جانے کو مجبور کر دیا۔ عمران خان صاحب خبردار کرتے رہے کہ اگر ان کے خلاف سازشوں سے باز نہ رہا گیا تو وہ مزید ”خطرے ناک“ ہوجائیں گے۔ ان کا دعویٰ کھوکھلی دھمکی نہیں تھی۔ جب انہیں یقین ہو گیا کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو روکا ہی نہیں جاسکتا تو آئی ایم ایف کو دلائی یقین دہانیوں کو ڈھٹائی سے نظرانداز کرتے ہوئے پیٹرول کی قیمتوں کو نسبتاً ارزاں نرخوں پر منجمد کر دیا۔ اس کے بعد روس کے صدر پوٹن کو اپنا دوست بنانے کی کاوشیں شروع کر دیں۔
امریکہ اور آئی ایم ایف ان کی چالوں سے حیران ہونے کے بعد ناراض ہوئے تو عمران خان صاحب کے لئے خود کو دور حاضر کا تنہا سامراج دشمن رہ نما ثابت کرنا آسان ہو گیا۔ واشنگٹن کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے وہ ہمارے ریاستی اداروں میں موجود ”میر جعفروں“ کے لتے لینا بھی شروع ہو گئے۔ اپنے مخالف سیاستدانوں کو وہ 1996 ءہی سے مستقل ”چور اور لٹیرے“ ہی شمار کرتے رہے ہیں۔ ابلاغ کے جدید تر ذرائع اور ہتھکنڈوں کو کمال مہارت اور جارحیت سے اپناتے ہوئے عمران خان صاحب نے جو نیا بیانیہ تشکیل دیا اس نے تحریک انصاف کے دیرینہ حامیوں کو ان کی حمایت میں ڈٹ کر کھڑے ہو جانے کو آمادہ کیا۔ مسلم لیگ (نون) اور دیگر جماعتیں مذکورہ بیانیے کو نظرانداز کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے کے لئے اپنے بندے پورے کرنے کی تگ و دو ہی میں مصروف رہے۔ ان کی کوتاہ اندیشی نے عمران خان کو ایک دلیر آدمی کی صورت کھڑا ہوا دکھایا جو محلاتی سازشوں کے سامنے بہادری سے تنہا کھڑا ہے۔
عوام میں اپنا بیانیہ پھیلانے کی پہلی جنگ بری طرح ہار جانے کے باوجود مسلم لیگ (نون) اور اس کے اتحادیوں کے لئے سیاسی ”گیم“ میں توانائی سے لوٹنا فقط اس صورت ممکن تھا اگر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان صاحب کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کے فوری بعد شہباز شریف نئے انتخاب کا اعلان کر دیتے۔ انتخابی مہم کے دوران عوام کو سمجھانے کی کوشش کرتے کہ اپنے اقتدار کے دوران عمران خان صاحب نے کس انداز میں وطن عزیز کو تقریباً دیوالیہ ہو جانے کے قریب پہنچا دیا تھا۔ اپنی انتظامی صلاحیتوں پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کرتے ہوئے مگر شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں نے ”ہم سنبھال لیں گے“ کا تاثر دینا شروع کر دیا۔
حالات مگر سنبھل ہی نہیں سکتے تھے۔ آئی ایم ایف کی عائد کردہ شرائط اپنے تئیں جان لیوا تھیں۔ روس کی جانب سے یوکرین پر مسلط کردہ جنگ نے ہمارے لئے مزید مشکلات کھڑی کردیں۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں ان میں سے اہم ترین تھیں۔ پاکستانی روپے کی قدر بھی عالمی وجوہات کے سبب تیزی سے گرنا شروع ہو گئی۔ روس کے خلاف لگائی پابندیوں کی وجہ سے ہم عالمی منڈی سے گیس خریدنے کے قابل بھی نہیں رہے۔ ان تمام واقعات کا شہباز حکومت ہرگز ذمہ دار نہیں تھی۔ اس کا اقتدار مگر ان ہی واقعات کی بدولت ”نحوست و اداسی“ کا پیغامبر نظر آنا شروع ہو گیا۔ جان لیوا مہنگائی نے ”چور اور لٹیروں“ کے خلاف عمران خان کے متعارف کردہ بیانیے کو توانا تر بنا دیا۔
سیاسی اعتبار سے شہباز حکومت کی اپنائی پالیسیوں کا سب سے زیادہ نقصان اس ”ووٹ بینک“ کو ہوا ہے جو نواز شریف صاحب نے 1985 ءسے نہایت لگن سے جمع کیا تھا۔ عمران حکومت ریاستی جبر کے مسلسل استعمال کے باوجود اسے ”توڑ“ نہ پائی۔ مریم نواز شریف صاحبہ کی برتی مزاحمت نے بلکہ اسے مزید توانائی فراہم کی۔ برسوں کی محنت اور ہزاروں مشکلات کے باوجود جو ”ووٹ بینک“ بھرپور انداز میں اب تک مستحکم رہا شہباز حکومت کے ابتدائی مہینوں ہی میں ہوا میں تحلیل ہونا شروع ہو گیا۔
ریاست کو دیوالیہ ہونے سے روکنے کے نام پر جو حکمت عملی اختیار کی گئی ہے اسے اب ترک کردینے کی بھی گنجائش باقی نہیں رہی۔ شہباز حکومت کو اب ”ریاست بچانے“ کا موقعہ فراہم کرنا چاہیے۔ نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کا ووٹ بینک اب ازسرنو تیار کرنا ہو گا۔ مفتاح اسماعیل کی وزارت اگر پیٹرول کی قیمت بڑھانے کا اعلان کرے تو مریم نواز صاحبہ کی جانب سے لکھا ”مذمتی“ ٹویٹ اس ضمن میں کسی کام نہیں آئے گا۔ نواز شریف سے منسوب ”خفگی“ بھی لوگوں کو مطمئن نہ کرسکے گی۔ بہتر یہی ہے کہ فی الوقت میاں صاحب اور ان کی دختر کی جانب سے کامل خاموشی اختیار کرلی جائے۔ شہباز صاحب کو مفتاح اسماعیل، شاہد خاقان عباسی اور ڈاکٹر مصدق ملک کی معاونت سے معاملات سنبھالنے کا بھرپور موقع فراہم ہو۔ اگر یہ سب گوارا نہیں تو جرات دکھائیں اور موجودہ حکومت سے قطعی لاتعلقی اعلان کرتے ہوئے اس کی پالیسیوں کے خلاف عمران خان صاحب کی طرح لوگوں کو متحرک کرنے کے لئے میدان میں اتر آئیں۔ دو کشتیوں میں بیک وقت سواری کی کوششیں لوگوں کو اب مضحکہ خیز نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر