نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگریادداشت مجھے دھوکانہیں دے رہی تو ایک مشہور امریکی لکھاری مارک ٹوئین نے لکھا تھا کہ سچ جب سفر کے لئے اپنے جوتوں کے تسمے باندھ رہا ہوتا ہے تو اس وقت تک جھوٹ آدھی دُنیا کا سفر مکمل کرچکا ہوتا ہے۔اس کے دور میں انٹرنیٹ ایجاد نہیں ہوا تھا۔ٹویٹر اور فیس بک والے پلیٹ فارم بھی میسر نہ تھے۔ دورِ حاضر میں لہٰذا یوں کہا جاسکتا ہے کہ سچ کے بیدار ہونے سے کئی گھنٹے قبل ہی جھوٹ ساری دُنیا میں پھیل چکا ہوتا ہے۔سچ فقط اس کے پھیلائو کی وجہ سے ہوئے نقصان کے ازالے کے لئے ہی انگڑائی لیتے ہوئے بیدار ہوتا ہے۔
گزرے بدھ کی شام پاک فوج کے زیر استعمال ایک ہیلی کاپٹر لاپتہ ہوگیا۔ کوئٹہ کے کور کمانڈر بھی اس میں سوار تھے۔وہ بلوچستان میں آئے طوفان خیز سیلاب کے لئے جاری امدادی کارروائیوں کی براہِ راست نگرانی کررہے تھے۔ایسے عالم میں پہلی ترجیح گمشدہ طیارے یا ہیلی کاپٹر کا سراغ لگانا ہوتا ہے۔اندھیرا اور خراب موسم اس عمل میں غیر معمولی تاخیر کا باعث ہوتے ہیں۔پتہ چل جانے کے بعد اس میں سوار افراد کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔
لاپتہ ہوئے طیارے کی بابت ایسی ہی کاوشیں ابھی جاری تھیں تو سوشل میڈیا پر چھائے ’’ذہن سازوں‘‘ نے نہایت سرعت سے سازشی کہانیاں تراش کر انہیں تواتر سے پھیلانا شروع کردیا۔اکثر ’’ذہن سازوں‘‘ نے اس ضمن میں جو رویہ اور انداز بیاں اختیار کیا واضح طورپر اس ’’اختراع‘‘ کا اظہار تھا جو ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے خلاف متحرک ’’حق گو‘‘ افراد نے کئی برسوں سے اپنا رکھی ہے۔معاملہ فقط سازشی کہانیوں تک ہی محدود نہ رہا۔نہایت سفاکی سے اس خواہش کا اظہار بھی ہوا کہ کاش لاپتہ ہیلی کاپٹر میں وہ شخصیت بھی سوار ہوتی جو ان دنوں ان کی نفرت کا حتمی نشانہ ہے۔میرا کمزور دل اس سفاکی سے گھبرا گیا۔ فون کی گھنٹی بند کردینے کے بعد اسے بستر کے سرہانے پٹخ دیا۔جدید فونز مگر گھنٹی بند کردینے کے باوجود ’’گھوں گھوں‘‘ کی آواز سے آپ کو خبردار رکھتے ہیں۔دس سے زیادہ دوست سنجیدگی سے یہ جاننا چاہ رہے تھے کہ گمشدہ ہیلی کاپٹر بلوچستان میں متحرک علیحدگی پسندوں کا نشانہ تو نہیں بنا۔
دفاعی معاملات کا مجھے ککھ پتہ نہیں۔محض اپنے صحافیانہ تجربے کی بنیاد پر عاجزی سے مصر رہا کہ موسم کی شدت والی حقیقت کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ویسے بھی جس علاقے سے گمشدگی کی اطلاع آرہی ہے وہ تاریخی اعتبار سے کبھی تخریب کاری کا مرکز نہیں رہا۔حقائق پر میرا اصرار کئی دوستوں کو لیکن پسند نہیں آیا۔دریں اثناء ایک اور سازشی کہانی بھی گردش میں آگئی۔ اسے بیان کرنے کا مجھ میں حوصلہ نہیں۔
حقائق بالآخر منظر عام پر آئے تو ایک نئی کہانی شروع ہوگئی۔اس کے ذریعے تاثر یہ پھیلانے کی کوشش ہوئی کہ جو المناک حادثہ ہوا ہے امریکی ڈرون سے پھینکے میزائل اس کے ذمہ دار ہیں۔مذکورہ داستان کی ’’تصدیق‘‘ کے لئے فیس بک پر لگائی ایک پوسٹ بھی وائرل ہونا شروع ہوگئی۔اسے غیر ممالک میں مقیم کئی پاکستانیوں نے میرے ساتھ واٹس ایپ پر شیئرکیا۔ اسے شیئر کرنے والوں نے اس امر پر توجہ ہی نہیں دی کہ بیک وقت ایک خاتون اور مرد خود کو پاکستان میں تعینات امریکی سفیر کا ’’مشیر‘‘ قرار دیتے ہوئے المناک حادثے کی بابت ’’معافی‘‘ کے طلب گار ہیں۔
’’فیک نیوز‘‘ کی اصل قوت ہی یہ ہے کہ اسے گھڑنے والوں کو یقین ہوتا ہے کہ وہ جو داستان پھیلانا چاہ رہے ہیں ان کے اہداف افراد کے دل ودماغ پر چھائے خدشات وتعصبات کو ’’ٹھوس شواہد‘‘ فراہم کررہی ہے۔بلوچستان میں ہوئے حادثے سے دو دن قبل یہ خبر آئی تھی کہ امریکی ڈرون طیارے نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں موجود ایک گھر میں چھپے القاعدہ کے قائدایمن الظواہری کو ہلاک کردیا ہے۔ڈرون حملوں کے لئے جو حکمت عملی اپنائی جاتی ہے عام اذہان اس سے آگاہ نہیں۔ اسی باعث یہ تاثر پھیلانا ممکن ہوگیا کہ غالباََ ایمن الظواہری کے قتل کے لئے ڈرون طیاروں سے میزائلوں کی بوچھاڑ افغانستان کی سمت روانہ کردی گئی تھی۔ان میں سے ایک میزائل ’’بھٹک‘‘کر ہمارے بلوچستان کی فضا میں ’’آوارہ‘‘ ہوگیا اور پاک فوج کے ہیلی کاپٹر کو اپنی زد میں لے لیا۔ہمیں کسی نے یہ سمجھانے کی کوشش ہی نہیں کی کہ ڈرون سے پھینکے ’’میزائل‘‘ آوارہ نہیں ہوجاتے۔ وہ اپنے ہدف تک محدود رہنے ہی کو تیار کئے جاتے ہیں۔اس امرکا امکان البتہ موجود رہتا ہے کہ ہدف کا ’’انتخاب‘‘ غلط ہوا ہو۔ مثال کے طورپر گزشتہ برس کے اگست میں جب افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء ہورہا تھا تو کابل ہی کے ایک گھر میں مقیم بے گناہ افراد ڈرون حملے کا شکار ہوئے۔حقیقت یہ بھی ہے کہ مذکورہ غلطی کا انکشاف امریکہ ہی کے ایک جید اخبار ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ نے کیا تھا۔امریکی حکومت بالآخر اُس کے دعوے کو تسلیم کرنے کو مجبور ہوئی۔
بلوچستان میں ہوئے المناک حادثے کی تفصیلات اب مستند ذرائع سے بیان کردی گی ہیں۔ ’’کہانی گیروں‘‘ کی مگر اب بھی تسلی نہیں ہورہی۔مسلسل سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ایمن الظواہری کو ہلاک کرنے والے میزائل کا ڈرون طیارہ پاکستان کی فضا سے اڑ کر اپنے ہدف تک پہنچایا نہیں۔’’تردیدیں‘‘ اس ضمن میں اب تک کام نہیں آرہیں کیونکہ بحیثیت قوم ہم دو جمع دو کے عادی ہیں۔ ایمن الظواہری کی ڈرون حملے کے ذریعے ہلاکت کے بعد پاکستانی روپے کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں ’’یک دم‘‘ بہتر سے بہتر ہونا شروع ہوگئی۔اسی باعث یہ کہانی پھیلانا آسان ہورہا ہے کہ شاید ایمن الظواہری کی ہلاکت میں مبینہ طورپر ’’مدد‘‘ فراہم کرنے کے باعث امریکہ نے ہمارے ساتھ ’’مہربانی‘‘ برتی اور ڈالر نسبتاََ سستا ہونا شروع ہوگیا۔
عام پاکستانیوں کی کماحقہ تعداد اگر اس کہانی پر اعتبار کررہی ہے تو انہیں اس کا دوش نہیں دینا چاہیے۔ اصل ذمہ دار ہمارا میڈیا ہے جسے ’’پانچویں نشست کی ابلاغی جنگ‘‘ کے لئے تیار کرتے ہوئے ہمارے حاکموں نے فقط حکم کا غلا م بنادیا ہے۔’’فیک نیوز‘‘ کا واقعتا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو روایتی صحافت کو اس کے پیشہ وارانہ تقاضوں کے عین مطابق اپنا فرض ادا کرنے کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ یہ نہ ہوا تو ہمارے عوام کی اکثریت ’’شک وشبے‘‘ میں مبتلا رہے گی۔’’شیطان‘‘ ہمارے دلوں میں وسوسے بڑھاتے رہیں گے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر