نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزرے جمعہ کے دن قومی اسمبلی کا جو اجلاس ہوا اس کے بعد ہم سب کی توجہ اس ’’سپرٹیکس‘‘ کی جانب مرکوز ہوچکی ہے جو وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے سب سے منافع بخش دھندوں کے اجارہ داروں پر محض ایک سال کے لئے عائد کیا ہے۔اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے میں روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائے عمران خان صاحب کے متوالوں نے مذکورہ ٹیکس کو ’’آخری کیل‘‘ ٹھہرانا شروع کردیا جو وطن عزیز میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرے گا۔کساد بازاری کو گھمبیر تر بناتے ہوئے مہنگائی کے جان لیوا موسم میں لاکھوں افراد کو بے روزگار بنادے گا۔ ’’سپرٹیکس‘‘ کے خلاف اجارہ داروں نے مفتاح اسماعیل کی تقریر کے دوران ہی کراچی سٹاک ایکس چینج میں ’’یک دم‘‘ جی گھبرادینے والی ’’مندی‘‘ کا ماحول بھی بنادیا۔ثابت کردیا کہ اپنے بھاری بھر کم منافعوں سے وہ مزید ایک دھیلہ بھی ریاست کو خلق خدا کی مشکلات حل کرنے کے لئے فراہم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔حکومت اس جانب قدم بڑھائے تو ’’مافیا‘‘ کی صورت یکجا ہوکر ’’لٹ گئے‘‘ کا واویلا مچانا شروع ہوجاتے ہیں۔
ان کی حمایت کو حکومت کے سیاسی مخالفین ہی سینہ تان کر کھڑے نہیں ہوجاتے۔میڈیا کا وافر حصہ بھی ان سے ’’ہمدردی‘‘ دکھانے کو مجبورہوجاتا ہے۔یہ ہمدردی نظر نہ آئے تو اخباروں اور ٹیلی وژن چینلوں سے سیٹھوں کے دئیے اشتہار غائب ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔’’سپر ٹیکس‘‘ جیسی پیش قدمی کے بے لاگ تجزیہ کی گنجائش لہٰذا مفقود ہوجاتی ہے۔
مفتاح اسماعیل کی تقریر سے قبل شکر گڑھ سے براہ راست منتخب ہوئی مہناز اکبر دانیال نے بھی اپنے جذبات پر قابل ستائش کنٹرول دکھاتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا وہ صحت عامہ کے اہم ترین مسئلہ کی بابت اجارہ اداروں کی سفاک پھرتیاں بے نقاب کرنے کے حوالے سے چشم کشا تھے۔چند ہی روز قبل اس کے شوہر دانیال عزیز چودھری ایک خوفناک حادثے سے دو چار ہوئے تھے ۔اس موضوع پر آگے بڑھنے سے قبل مجھے اعتراف کرنا ہے کہ مہناز اور دانیال کئی حوالوں سے میرے لئے خاندان کے قریب ترین رکن ہیں۔کئی نسلوں اور دہائیوں سے ہمارے سکھ اور دُکھ سانجھے ہیں۔دانیال کے حادثے کی وجہ سے مہناز جس پریشانی سے گزری ہیں اس کے ایک ایک لمحے سے بخوبی آگاہ ہوں۔
دانیال نارووال سے اپنے آبائی شکرگڑھ سے چند ہی کلومیٹر دور تھا تو ایک دیوہیکل ٹرک کا ٹائر پھٹ گیا۔ بے قابو ہوئے ٹرک نے دانیال عزیز کی گاڑی سے ٹکراکر اسے پاش پاش کردیا۔زخمی دانیال کی اس حادثے کے فوری بعد جو ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اس نے میری بیوی اور بچیوں کو بوکھلادیا۔میں حوصلہ دینے کے لئے کچھ کہتا تو امید سے محروم ہوئی چیخنا شروع ہوجاتیں۔ خود کو پُرامید رکھتے ہوئے اگرچہ میں خود بھی دل میں بہت گھبرایا ہوا تھا۔ربّ کریم کا لکھ بارشکر ۔اس نے میری امید کا بھرم رکھ لیا۔
ایک ہولناک تجربے کی وجہ سے مہناز اکبر دانیال نے مگر 1122اور ڈسٹرکٹ ہسپتالوں کی اہمیت کو بخوبی جان لیا ہے۔ جمعہ کے روز قومی اسمبلی میں اس کی تقریر ذاتی نوحہ گیری نہیں تھی۔ اصرار بلکہ اس کا یہ رہا کہ اگر 1122کی ایمبولینس بروقت جائے حادثہ پہنچ کر دانیال کو نارووال کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال نہ لے جاتی ۔وہاں متعین عملہ اگرچوکس ،فرض شناس اور اعلیٰ تربیت یافتہ نہ ہوتا تو دانیال کے بچ جانے والا معجزہ رونما نہ ہوپاتا۔
دانیال کے خوفناک حادثے نے مہناز کوسبق سکھایا ہے کہ صحت عامہ کے لئے مختص ہوئے فنڈ محض 1122اور ڈسٹرکٹ ہسپتالوں کے نیٹ ورک کو مزید توانا اور مربوط بنانے پر ہی صرف کئے جائیں۔ہمیں ’’صحت کارڈ‘‘ جیسے چونچلوں کی ہرگز ضرورت نہیں ہے جو بیمار ہوئے کسی فرد کو سرکاری ہسپتالوں کے بجائے فقط منافع کے حصول کے لئے بنائے ’’نجی ہسپتالوں‘‘سے رجوع کو مجبور کرتے ہیں۔ ’’صحت کارڈ‘‘ بالآخر خلق خدا کی اکثریت کے بجائے منافع خوروں کو مزید منافع سرکاری خزانے کے ذریعے فراہم کرنے کا ذریعہ ہی ثابت ہوتا ہے۔
تعلیم اور صحت عامہ ویسے بھی بنیادی طورپر کسی بھی ریاست کی ذمہ داری ہونا چاہیے۔ برطانیہ جیسے سفاک سرمایہ دار ملک نے بھی NHSکے نام سے عوام کو بلاتفریق طبی سہولیات فراہم کرنے کا بندوبست کررکھا تھا۔ 1980ء کی دہائی سے مگر مارگریٹ تھیچر نے ’’مارکیٹ‘‘ کو برتر بنانے کے لئے جو نظام متعارف کروایا اس نے صحت عامہ کے حوالے سے ’’حق‘‘ تصور ہوتی سہولتوں کا بھی خاتمہ کرنا شروع کردیا۔اس کے بعد گزشتہ 12برسوں سے سرمایہ دارانہ نظام کی بے دھڑک حامی کنزرویٹو جماعت کی حکومتوں نے NHSکے نظام کو بتدریج نہ ہونے کے برابر بنادیا ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں ہزاروں نوکریاں خالی پڑی ہیں۔انہیں پُر نہیں کیا جارہا۔کئی سنگین امراض سے نجات کے لئے آپریشن وغیرہ کروانے کے لئے ہفتوں نہیں بلکہ مہینوں تک انتظار کرنا ہوتا ہے۔حکومت کی خواہش ہے کہ NHSکے بگڑے نظام سے اُکتاکر خلق خدا نجی علاج کی جانب رجوع کرے۔
برطانیہ کے برعکس پاکستان مگر انتہائی غریب ملک ہے ۔انگریزی سامراج کی بدولت البتہ میوہسپتال جیسے ادارے ورثے میں ملے تھے۔ اس کے علاوہ ڈسٹرکٹ ہسپتالوں کا نیٹ ورک بھی تھا۔اس نیٹ ورک کو جدید تر اور مربوط بنانے کے بجائے ہماری حکومتوں نے صحت عامہ کے لئے مختص رقوم کو بتدریج محدود تر کرنا شروع کردیا۔اس کی وجہ سے گلی محلوں میں بھی ’’نجی کلینک اور جدید ترین ہسپتال‘‘ قائم ہونا شروع ہوگئے۔ طبی سولیات کی فراہمی ’’دھندے‘‘ میں تبدیل ہوگئی جس کا واحد مقصد ’’ہسپتالوں‘‘ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے لئے زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول یقینی بنانا ہے۔
عوام کو ’’صحت کارڈ‘‘ فراہم کرتے ہوئے حکومت درحقیقت اس امر کا اعلان کررہی ہوتی ہے کہ وہ1122یا ڈسٹرکٹ ہسپتالوں کے نظام پر مزید سرمایہ کاری کو آمادہ نہیں۔اپنی ذمہ داری فراموش کردینے کا اس سے بڑھ کر منافقانہ اظہار ہونہیں سکتا۔سندھ حکومت کو ہمارے میڈیا میں محض ’’تھرمیں بچوں کی ہلاکت‘‘ کا ذمہ دار ٹھہراکر ہی دکھایا جاتا ہے۔اس صوبے میں لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود صحت عامہ کے نظام پر مناسب رقوم خرچ کررہی ہے۔اس کی بدولت کئی سنگین امراض کا جدید ترین تحقیق اور آلات کی مدد سے مفت علاج ہورہا ہے۔امید ہے کہ مہناز دانیال عزیز کی دل گداز تقریر کے بعد کم از کم وفاقی اور پنجاب حکومتیں صحت عامہ کو اپنی بنیادی ذمہ داری تصور کریں گی اور خلق خدا کو ’’صحت کارڈ‘‘ دے کر منافع خوروں کے سپرد نہیں کردیا جائے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر