اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

Wusat Ullah Khan

سیاست، نیوٹریلٹی اور سکیورٹی پرنٹنگ پریس!||وسعت اللہ خان

کوئی بھی پالیسی مسلسل اپنانے کے باوجود خاطر خوا نتائج نہ نکلیں تو پھر عوام الناس بھی اس پالیسی کو زندگی کے دیگر تلخ معمولات کے طور پر دیکھنے لگتے ہیں۔ یہی کچھ جبری لاپتگی کی پالیسی کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔

وسعت اللہ خان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چنانچہ عمران خان کا احتجاجی ٹرک فی الحال 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کے ابتدائی جوش سے گزر کے 60 کلومیٹر فی گھنٹہ پر آ گیا ہے۔

میچ کے شروع میں پورا زور لگا کے تھکنے کے بجائے آخری 10 اوورز میں پاور پلے کتنا مفید ہوتا ہے؟ یہ بات عمران خان کو عمران خان سے بہتر کون بتا سکتا ہے۔

رہی بات کہ نیوٹرلز اب کیا سوچ رہے ہیں۔ اگر کچھ سوچ رہے ہیں تو اس سوچ میں غیر جانبداریت اور عملیت پسندی کی مقدار کس تناسب سے ہے۔ اس کا اندازہ بھی ستمبر سے ہونا شروع ہو جائے گا۔

بہت سے وہمی تجزیہ باز اب بھی سمجھ رہے ہیں کہ شیر اپنا نام خرگوش رکھ لے تب بھی جنگل کے دیگر جانور اس سے بے تکلفی برتنے کا رسک نہیں لیتے۔

ممکن ہے قومی سیاست میں ہر ممکن غیرجانبداری برتی جا رہی ہو کیونکہ پاکستان اس وقت جس معاشی عذاب سے گزر رہا ہے اس کے ہوتے کوئی مہم جوئی یا نیا تجربہ مسائل کی اوجھڑی اپنے ہی گلے میں ڈالنے جیسا ہے۔

تجربے بازی بھرے پیٹ پر ہی سجتی ہے۔ ایسے مواقع پر سیاسی حکومتیں ہی بہترین ڈھال ثابت ہوتی ہیں اور بادشاہ گروں کے لیے کسی نڈھال حکومت سے بہتر ڈھال ممکن نہیں۔

مگر یہ نیوٹریلٹی یکطرفہ خیرسگالی نہیں۔ اس کے بدلے سیاسی حکومتیں بھی ان معاملات میں مسلسل نیوٹرل رہتی ہیں جن کا تعلق براہِ راست سکیورٹی آپریٹس کی دکھتی رگ سے ہو۔

مثلاً حالیہ دنوں میں جبری لاپتگی کی تازہ لہر ابھری ہے۔ جن گستاخیوں پر عام لوگوں کو اٹھایا جا رہا ہے اگر اسے معیار مان لیا جائے تب تو تحریکِ انصاف سالم اور آدھی مسلم لیگ (ن) اب تک لاپتہ ہو جانی چاہیے تھی۔

مگر کمہار پر بس نہ چلنے کا یہ مطلب تو نہیں کہ گدھے کے کان بھی نہ اینٹھے جائیں۔

کوئی بھی پالیسی مسلسل اپنانے کے باوجود خاطر خوا نتائج نہ نکلیں تو پھر عوام الناس بھی اس پالیسی کو زندگی کے دیگر تلخ معمولات کے طور پر دیکھنے لگتے ہیں۔ یہی کچھ جبری لاپتگی کی پالیسی کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔

اس کا مسلسل اور بے مہار استعمال چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ عدلیہ کے موثر ہونے پر صرف عوام ہی سوالیہ نشان نہیں بلکہ ریاستی و حساس اداروں نے بھی نظامِ انصاف کو جوتے کی نوک پر رکھا ہوا ہے۔

یعنی مملکت کا ایک ستون دوسرے ستون کو بے توقیر کر کے سمجھ رہا ہے گویا وہ کوئی بہت بڑی قومی خدمت کر رہا ہے۔

عدم تحفظ سے احساسِ تحفظ پیدا کرنے کی متواتر کوششیں سوائے جھنجھلاہٹ دو چند کرنے کے کوئی نتیجہ پیدا نہیں کر سکتیں۔ مگر یہ دلیل وہاں کون سنے گا جہاں حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ چھاپنے کے جملہ حقوق بھی سکیورٹی پرنٹنگ پریس کے پاس ہوں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)

یہ بھی پڑھیں:

قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان

اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان

گوادر کی باڑ!۔۔۔وسعت اللہ خان

کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان

وسعت اللہ خان کی مزید تحریری پڑھیں

%d bloggers like this: