نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شطرنج کا کھیل || نصرت جاوید

بنیادی سوال مذکورہ بالا تناظر میں یہ اٹھتا ہے کہ امریکی سازش کا جواب کیسے دیا جائے۔ اس کے علاوہ جو ’’نیوٹرل‘‘ ہوگئے ان کی بازپرسی کا اہتمام بھی کیسے ہو۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنے پروگرام کی بدولت کئی برسوں تک ریٹنگ کے شیر مشہور ہوئے آفتاب اقبال صاحب نے حال ہی میں عمران خان صاحب کا انٹرویو کیا۔اس کے دوران ایک مرحلے پر انہوں نے سابق وزیر اعظم سے استفسار کیا کہ وہ شطرنج کے کھیل سے واقف ہیں یا نہیں۔خان صاحب نے عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔اس کے باوجود آفتاب اقبال انتہائی فکرمندی سے انہیں سمجھاتے رہے کہ اس کھیل میں ’’کوئین‘‘ کو بناکسی تگڑے مہرے کے سہارے کے آگے نہیں بڑھاتے۔ مقصد ان کا درحقیقت یہ بیان کرنا تھا کہ عمران خان صاحب کو ’’امریکی سازش‘‘ کو للکارنے سے قبل دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے ملک کے مقابلے میں تیزرفتاری کے ساتھ برابر آتے عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ کوئی اتحادی بندوبست کرنا چاہیے تھا۔

عمران خان صاحب یہ مشورہ سن کر کیمرے کے روبرو تو خاموش رہے۔سوشل میڈیا پر چھائے ان کے حامی مگر اب ’’خبر‘‘ دے رہے ہیں کہ چین نے عمران حکومت کے دوران وزیر خارجہ رہے شاہ محمود قریشی کو اپنے ہاں مدعو کرلیا ہے۔غالباََ یہ کرتے ہوئے چین نے اپنے تئیں ’’تو نہ آیا تو ہم چلے آئے‘‘ والی پیش قدمی دکھائی ہے۔یہ بول غالباََ اس گیت کے ہیں جسے نورجہاں نے گایا تھا۔ ’’تو نہ آیا تو ہم چلے آئے‘‘ اس کا مکھڑا تھا۔میں نے لاہور کے ’’رتن‘‘ سینما میں ’’ڈیڑھ روپے‘‘ والی سیٹ پر بیٹھ کر اسے سکرین پر دیکھا تھا۔فلم کا نام بھول رہا ہوں۔ ’’جس کی خاطر‘‘ مگر ہیروئین رقص کے بھائو تائو دکھاتی آئی تھی اس ہیرو کا نام اسلم پرویز تھا۔ ان کا چہرہ پورے گانے کے دوران سپاٹ رہا۔ مجھے اس سے بہت مایوسی ہوئی تھی۔

شطرنج کے کھیل سے مجھے بھی رغبت نہیں رہی۔لاہور کے تھڑوں پر اگرچہ یہ کھیل بہت مقبول تھا۔ میرے ایک تایا مرحوم بھی اس کے زبردست کھلاڑی تھے۔ بساط پر گھوڑے کی حیرت انگیز چالیں چلتے ہوئے برق رفتاری سے شہ مات تک پہنچ جاتے۔ان کی بہت خواہش تھی کہ میں بھی اس کھیل پر توجہ دوں۔ میرے ’’پڑھاکو‘‘ ذہن کو اکسانے کے لئے جواز پیش کرتے کہ یہ کھیل دماغ کو چست بنادیتا ہے۔بادشاہوں کا پسندیدہ کھیل رہا ہے۔اس کی بدولت وہ دشمن کو مات دینے کی ترکیبیں دریافت کرتے تھے۔ مجھے راغب کرنے کے لئے وہ بساط سے ایک گھوڑا بھی اٹھادیتے جو مقابل کو مات دینے کے لئے ان کا کلیدی مہرہ ہواکرتا تھا۔ میں اس کے باوجود راغب نہ ہوپایا۔ مقدر میں بادشاہی نہیں فقیری لکھی تھی۔

بچپن میں جس طرح ’’شطرنج‘‘ سے تھوڑی واقفیت ہوئی اس میں ’’کوئین‘‘ نہیں ہوا کرتی تھی۔اس مہرے کو ’’وزیر‘‘ کہا جاتا تھا۔ ویسی ثقافت میں اس کی وجہ بھی سمجھی جاسکتی ہے۔بادشاہوں کی ہمارے ہاں فقط ایک ’’ملکہ‘‘ ویسے بھی نہیں ہوتی تھی۔ ایک ہو تب بھی اسے حرم تک ہی محدود رکھا جاتا تھا۔میدان جنگ میں بادشاہ کی حفاظت کے لئے مامور نہیں ہوتی تھی۔یہ فریضہ ’’وزیر‘‘ ہی کو انجام دینا ہوتا تھا۔

عمران خان صاحب نے تاہم میری دانست میں میدان حرب کی چالیں ایک فاسٹ بائولر کی حیثیت میں سیکھی ہیں۔ دور سے بھاگتے ہوئے وہ ازخود وکٹ پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔پہلی ترجیح یہ ہوتی تھی کہ سامنے کھڑے بلے باز کی ’’کِلی‘‘اڑ جائے۔یہ نہ ہو تو وہ گیند کو ایسی شاٹ لگائے جو بائونڈری پار کرنے کے بجائے میدان میں کھڑے کسی فیلڈر کے ہاتھ آجائے۔ فیلڈر سے اگر کیچ مس ہوجاتا تو اسے بائولر کے غضب کے علاوہ تماشائیوں کی گالیاں بھی سہنا پڑتیں۔قصہ مختصر فاسٹ بائولر ’’مہروں‘‘ کے ذریعے نہیں بلکہ ازخود مخالف پر حملہ آور ہوتا ہے۔مجھے اگرچہ سمجھ نہیں آرہی کہ اقتدار سے فارغ ہوجانے کے بعد عمران خان صاحب کی جبلت میں موجود فاسٹ بائولر کا اصل نشانہ کون ہے۔

نظر بظاہر ’’وکٹ‘‘انہیں’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کی درکار ہے۔وہ ’’آئوٹ‘‘ ہوجائے تو نئے انتخاب ہوں گے۔عمران خان صاحب اور ان کے متوالوں کو قوی یقین ہے کہ نئے انتخاب ہوئے تو تحریک انصاف دو تہائی اکثریت کیساتھ اقتدار میں لوٹ آئے گی۔ اس بحث میں الجھ کر وقت ضائع نہیں کرتے کہ ایسا ممکن ہے یا نہیں۔سیاست کا طالب علم ہوتے ہوئے مجھے حیرانی محض اس بات پر ہورہی ہے کہ عمران خان صاحب ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کی وکٹ گرانے پر کامل توجہ مرکوز نہیں رکھ پارہے۔ بارہا’’امریکی سازش‘‘ کی جانب اپنے غضب کو موڑ دیتے ہیں۔

ان کا اصرار ہے کہ امریکہ ان کی خودمختاروطن پرستی سے گھبرا گیا تھا۔ روس کے صدر سے ماسکو میں ہوئی ان کی ملاقات نے واشنگٹن کو مزید بھڑکایا۔وہاں مقیم ہمارے سفیر کو اس دورے کے بعد ’’تڑی‘‘ لگائی گئی۔انہیں واضح الفاظ میں بتادیا گیا کہ اگر عمران خان صاحب نے اپنا رویہ نہ بدلا تو ان کی حکومت کو تبدیل کردیا جائے گا۔ تحریک انصاف کا یہ دعویٰ ہے کہ ہمارے سفیر کو جو دھمکی آمیز پیغام دیا گیا تھا اس نے وہ فی الفور خفیہ زبان میں لکھ کر اسلام آباد پہنچادیا۔ ایسے پیغام کو ’’سائفر‘‘ کہتے ہیں۔اسے ڈی-کوڈ کیا جاتا ہے۔وہ ڈی کوڈ ہوا تو اس کا متن ہمارے قومی سلامتی کے نگہبانوں کے روبرو رکھا گیا۔ عمران حکومت کو بچانے کے بجائے وہ مگر ’’نیوٹرل‘‘ ہوگئے۔ ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کے نزول کی اصل وجہ گویا ’’امریکی سازش‘‘ اور قومی سلامتی کے نگہبانوں کا ’’نیوٹرل‘‘ ہوجانا ہے۔

بنیادی سوال مذکورہ بالا تناظر میں یہ اٹھتا ہے کہ امریکی سازش کا جواب کیسے دیا جائے۔ اس کے علاوہ جو ’’نیوٹرل‘‘ ہوگئے ان کی بازپرسی کا اہتمام بھی کیسے ہو۔ اس پہلو پر غور کرتا ہوں تو گماں یہ لاحق ہوتا ہے کہ عمران خان صاحب ’’لمبے پینڈے‘‘ کے مسافر بن چکے ہیں۔ وہ اب پانچ روزہ ٹیسٹ یا ٹی-20نہیں کھیل رہے۔ جس سفر کا انہوں نے انتخاب کیا اس کی منزل ہمارے ہمسائے میں طالبان کو 20سال تک پھیلی جنگ کے بعد نصیب ہوئی تھی۔ دوسرا ہمسایہ ایران بھی ہے کہ جو 1979ء سے امریکہ کے مقابلے میں سینہ تان کر کھڑا ہے۔’’جوڑ‘‘ مگر ابھی تک ’’برابر‘‘ کا ہے۔کسی ایک فریق کو حتمی کامیابی نصیب نہیں ہوئی ہے۔کاش عمران خان صاحب کے پاس شطرنج کے کھیل والا ’’گھوڑا‘‘ ہوتا جو بساط پر ’’ڈھائی گھر‘‘چلتے ہوئے امریکہ کو جلد از جلد ’’شہ مات‘‘ سے دو چار کردیتا۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author