نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’نحوست‘‘ کی ذمہ دار شہباز حکومت|| نصرت جاوید

انتظامیہ کو مفلوج بناتی آپا دھاپی کی وجہ سے چکن فروخت کرنے والوں نے کئی ریستورانوں کو یہ جنس فراہم کرنا چھوڑ دی ہے۔جن کے پاس سپلائی ہے وہ چھوٹے ریستورانو ں کو چکن ’’ادھار‘‘ پر سپلائی کرنے کو قطعاََ تیار نہیں۔سودا’’ نقد بہ نقدی ‘‘ہورہا ہے۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران خان صاحب کے متوالوں کی جانب سے ہوئے اس دعویٰ کو جھٹلانے کی تاب مجھ میں نہیں جس کے مطابق اتوار کی رات ملک بھر کے تمام شہروں سے عوام فقید المثال تعداد میں گھروں سے نکل آئے۔مختلف مقامات تک پہنچے اور وہاں نصب سکرینوں کی بدولت اپنے قائد کی ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کی جانب سے مسلط کردہ مہنگائی کے خلاف دھواں دھار تقریر سنی ۔عوام کو انہوں نے واضح الفاظ میں بتادیا کہ ملک بچانے کے لئے فی الفور شفاف انتخاب کے اہتمام کے علاو ہ اور کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔اس سوچ کا اظہار میں بدنصیب عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے کئی ہفتے قبل ہی اس کالم میں تواتر سے دہراتا رہا ہوں۔مہنگائی کے طوفان نے مگر اب ذہن کو چکرادیاہے۔ اس امکان پر اعتماد کھوبیٹھا ہوں کہ جلد از جلد نئے انتخاب ہی ہماری مشکلات سے نجات کی راہ بناسکتے ہیں۔

بھاری بھر کم اصطلاحات کے استعمال سے ملکی معیشت آپ کو سمجھانا میرے لئے ممکن نہیں۔ عام افراد سے ’’جٹکی گفتگو‘‘کے بعد فقط خبردار ہی کرسکتا ہوں کہ ہماری اقتصادی مشکلات میں نرمی آنے کے بجائے مزید دشواریاں نمودار ہوئے چلی جارہی ہیں۔مثال کے طورپر ایک جنس ہے جسے ہم پیاز کہتے ہیں۔اس کے بغیر ہمارے ہاں کوئی سالن تیار ہی نہیں ہوتا۔ چنے کی دال کو بھی اس کا تڑکا لگانا ہوتا ہے۔ہمارے بے شمار دیہاڑی دار تندور سے نکلی گرم روٹی کے ساتھ کٹے پیاز کے چند ٹکڑے کھاکر اپنا ’’لنچ‘‘ کرلیتے ہیں۔

اس تناظر میں پریشان کن خبر یہ ہے کہ ہمارے ہاں فی الوقت پیاز کی جو مقدار ملک بھر کے آڑھتیوں کے پاس میسر ہے وہ میری اطلاع کے مطابق ہماری اجتماعی طلب کو آئندہ چار سے چھ ہفتے گزرجانے کے بعد پورا نہیں کر پائے گی۔گزشتہ کئی برسوں سے پیاز کی کمیابی کو بھانپتے ہوئے آڑھتی افغانستان سے اس جنس کو درآمد کرنا شروع ہوجاتے تھے۔ اب کی بار مگر ریکارڈ گرمی اور خشک سالی نے پیاز کو اس ملک میں بھی تقریباََ نایاب بنادیا ہے۔وہاں کی منڈی میں پیاز کے سات کلو کی ڈھیری زیادہ سے زیادہ 70افغانی میں مل جاتی تھی۔ ایک کلوپیاز یوں سمجھ لیں دس افغانی میں مل جاتا تھا۔تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ سات کلو کی ڈھیری اب تقریباََ 700افغانی کا تقاضہ کرتی ہے۔یعنی سوروپے فی کلو۔طالبان حکومت بے چین ہے کہ پیاز کی قیمت کو اس سے زیادہ بڑھنے نہ دیا جائے۔اس کی رسد اور قیمت کو مستحکم رکھنے کے لئے پیاز کی بیرون ملک برآمد پر کامل پابندی لگادی گئی ہے۔پاکستان اور وسطی ایشیاء کے ممالک پر اس ضمن میں کڑی نگاہ رکھی جارہی ہے۔پاکستان میں لہٰذا افغانستان سے پیاز میسر نہیں ہوگا۔ اسی باعث گزشتہ چند دنوں سے ہمارے ہاں بھی اس جنس کی قیمت میں سو سے ڈیڑھ سو فیصد کا اضافہ ہوچکا ہے۔پیاز گویا امریکی ڈالر بن گیا ہے جس کی قیمت آسمان کی بلند ترین سطح تک پہنچنے کو بے قرار ہے۔شدید گرمی اور خشک سالی نے ہمارے پیاز کی فصل کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

پیاز کی ممکنہ نایابی اور ناقابل برداشت گرانی کے لئے ذہن کو تیار کرتے ہوئے آپ کو چکن کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا۔ ہمارے ہاں جو ریکارڈ ساز گرمی ہوئی ہے اس کے پیداکردہ حبس کی وجہ سے چوزوں کی بے پناہ تعداد جانبرنہ ہوپائی۔ رسد اس کی وجہ سے طلب کے مقابلے میں بہت کم ہوچکی ہے ۔چکن کی قیمت میں غیر معمولی اضافے کو روکنے کے لئے پنجاب حکومت نے اس کے نرخ متعین کردئیے ہیں۔مقامی انتظامیہ کو ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ بازار میں چکن اس نرخ کے مطابق ہی بکے۔اپنی انتظامیہ کی ’’فرض شناسی‘‘ سے مگر ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ویسے بھی اگر میں پنجاب میں تعینات کوئی ضلعی افسر ہوتا تو حمزہ حکومت کے احکامات کو سنجیدگی سے نہ لیتا۔انتظار کرتا کہ 17جولائی کے ضمنی انتخابات کے بعد اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔اس حکومت کو ویسے بھی کیوں خاطر میں لانا جسے پنجاب اسمبلی کے سپیکرچودھری پرویز الٰہی نے نکیل ڈال رکھی ہے۔اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے اور آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے کا بجٹ صوبائی اسمبلی کے ہال میں نہیں بلکہ ’’ایوان اقبال‘‘ میں منظوری کے لئے پیش ہوا ہے۔

انتظامیہ کو مفلوج بناتی آپا دھاپی کی وجہ سے چکن فروخت کرنے والوں نے کئی ریستورانوں کو یہ جنس فراہم کرنا چھوڑ دی ہے۔جن کے پاس سپلائی ہے وہ چھوٹے ریستورانو ں کو چکن ’’ادھار‘‘ پر سپلائی کرنے کو قطعاََ تیار نہیں۔سودا’’ نقد بہ نقدی ‘‘ہورہا ہے۔مقامی ریستورانوں کے برعکس ہمارے افغان بھائی ہیں جو حال ہی میں ’’غلامی کی زنجیروں‘‘ سے آزاد ہوئے ہیں۔افغانستان کے تاجرنقدی لئے پولٹری فارم والوں سے رابطے میں ہیں۔انہیں منہ مانگی قیمت نقد اور بسااوقات امریکی ڈالر میں بھی ادا کرتے ہوئے ٹرکوں میں چکن لاد کر افغانستان لے جاتے ہیں۔وہاں کا پیاز پاکستان آنہیں سکتا۔ ہمارے یہاں کا چکن مگر ٹرکوں میں لد کر و ہاں لے جایا جاسکتا ہے اور اس کی وجہ سے حکومت کے متعین کردہ نرخ پرچکن بازار میں دستیاب ہی نہیں رہے گا۔

چکن کی افغانستان برآمد پر کڑی پابندی عائد کردی جائے تب بھی چکن کو حکومت کے متعین کردہ نرخوں پر بازار میں فراہم کرنا ممکن نہیں رہے گا۔وجہ اس کی پولٹری فیڈ ہے جس کی تیاری میں مکئی کا دانہ کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔چند ہفتے قبل تک مکئی کے ایک من دانے کی قیمت 1400روپے تک محدود تھی۔اب یہ 2200روپے فی من کی حد تک پہنچ چکی ہے۔مکئی کی گراں قیمت فقط مرغی کی پیدوار ہی مہنگی نہیں بنارہی۔اس کی وجہ سے دودھ دینے والے جانوروں کے لئے جو چارہ تیار ہوتا ہے وہ بھی مہنگے سے مہنگا تر ہورہا ہے۔مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ روزمرہّ خوراک کے حوالے سے کلیدی شمار ہوتے پیاز،انڈوں،دودھ اور چکن کی نایابی اور گرانی کا حل فی الفور نئے انتخاب کیسے ہوسکتے ہیں۔عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے  ختم کرکے برسراقتدار آئی شہباز حکومت البتہ ’’نحوست‘‘ کی ذمہ دار قرار پا تے ہوئے عوام کے مزید غضب کا سامنا کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author